پانچ نوجوان دوست جنہوں نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنا لیا

تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب روزگار کے مواقع نہ ملے تو اسلام آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے قوتِ سماعت و گویائی سے محروم پانچ دوستوں نے خود انحصاری کی جانب قدم رکھتے ہوئے اسلام آباد میں فاسٹ فوڈ کا کاروبار کھول لیا۔

یہ ہیں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم پانچ نوجوان دوست جنہوں نے اپنی معذوری کو کمزوری بنانے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنا لیا۔

ارسلان، عدنان، شازل، عثمان اور حارث پیدائشی طور پر سننے کی صلاحیت سے محروم تھے اسی لیے وہ کبھی بول بھی نہیں پائے۔

اسلام آباد اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کی دوستی کرکٹ کے میدان اور خصوصی بچوں کے سکول میں دوران تعلیم پروان چڑھی۔

یہ نوجوان سکول کے بعد ’اسلام آباد ڈیف کرکٹ ایسوسی ایشن‘ (آئی ڈی سی اے) کے زیر اہتمام کرکٹ میچز میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

22 سالہ شازل اب بھی باقاعدگی سے آئی ڈی سی اے کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ تاہم انٹر اور گریجویشن کے بعد ان نوجوانوں کو فکر معاش نے گھیر لیا۔ تاہم ملازمت کے مواقع نہ ملنے پر مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے انہوں نے خود کا کاروبار شروع کرنے کی ٹھانی۔

ان پانچ دوستوں نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین کے کاروباری مرکز میں بائیک کارٹ پر فاسٹ فوڈ کا ڈھابہ لگایا جہاں عثمان، ارسلان اور حارث برگر، شوراما، چپس اور دیگر کھانے پینے کی اشیا تیار کرتے ہیں جب کہ شازل اور عدنان کسٹمرز سے آڈر لیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں سال ہی گریجویشن مکمل کرنے والے 24 سالہ محمد ارسلان نے اشاروں کی زبان میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بزنس کا خیال حکومت کی جانب سے ہمیں ملازمت کے مواقع فراہم نہ کرنے کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا، ہم پریشان تھے کہ ہم اس معذوری کے ساتھ کیا کریں گے، ہم پیسہ کیسے کما سکتے ہیں۔ پھر بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح ’36 فاسٹ فوڈ مینیا‘  کا وجود عمل میں آیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بزنس خود انحصاری کی جانب ان کا پہلا قدم  ہے تاکہ وہ اپنا خرچہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی بھی مدد کر سکیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کو عوام کی جانب سے کیسا ردعمل ملا اور اس میں کیا کیا مشکلات درپیش آئیں تو ارسلان نے بتایا: ’لوگ ہماری جانب اس خصوصیت کی وجہ سے متوجہ ہوئے کیوں کہ ہم اشاروں کی زبان میں آرڈر لے رہے ہیں۔ لوگ اشاروں کی زبان اور خصوصی افراد کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، اس سے ہمیں برابری کا احساس بھی ہوتا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ان کی روزانہ آمدنی 15 سو سے چار ہزار کے درمیان ہے اور مہینے بعد وہ مجموعی رقم کو آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔

ارسلان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ یعنی سی ڈی اے حکام بعض اوقات انہیں پریشان کرتے ہیں اس لیے وہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ انہیں کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے اپنے جیسے خصوصی افراد کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت سے امیدیں لگانے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل