شیخ محمد عبداللہ: وہ کشمیری رہنما جنہیں بھارت سے وفا کے بدلے جفا ملی

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج کئی دہائیوں میں پہلی بار شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کے موقع پر عام تعطیل ہے نہ سرکاری سطح پر کوئی تقریب۔ وجوہات پر ایک نظر

شیخ محمد عبداللہ کا آج یوم پیدائش ہے۔ جواہر لعل نہرو سے ایک ملاقات کے دوران خوشگوار موڈ ہیں( تصاویر: نیشنل کانفرنس)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے حال ہی میں ہندو اکثریتی ضلع جموں میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہمیں پاکستان کے ساتھ جانا ہوتا تو 1947 میں ہی جا چکے ہوتے اور کوئی روک بھی نہیں سکتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا: 'ہم سے کہا جاتا ہے کہ تم پاکستانی ہو۔ اگر جموں و کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جانا ہوتا تو یہ 1947 میں جا چکا ہوتا۔ کوئی روک بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن ایک مرد مجاہد نے، جس کا نام شیخ محمد عبداللہ (فاروق عبداللہ کے والد) تھا، لوگوں سے کہا کہ ہمارا راستہ پاکستان نہیں مہاتما گاندھی کا بھارت ہے۔'

نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے اکتوبر 1947 میں جہاں حکومت پاکستان کی حمایت یافتہ مبینہ قبائلی جنگجوؤں کا مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا وہیں اس جماعت کے قائد شیخ محمد عبداللہ نے اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے مشروط الحاق کی حمایت کی۔

لیکن کشمیر میں آج کئی دہائیوں میں پہلی بار شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش کے موقع پر عام تعطیل ہے نہ سرکاری سطح پر کوئی تقریب کیونکہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے کشمیر کو بھارت سے ملانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شیخ عبداللہ کی یوم پیدائش کی تعطیل ختم کرنے کے علاوہ ان کے نام سے منسوب پولیس ایوارڈ کا نام بھی تبدیل کر دیا ہے نیز ان کے نام پر قائم اداروں کے بھی نام بدلے جا رہے ہیں۔

کشمیر کی تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ 1947 میں شیخ محمد عبداللہ کشمیری قوم کے سب سے بڑے رہنما تھے اور 'شیر کشمیر' کہلاتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے مسلم لیگ سے مبینہ عناد اور پنڈت جواہر لال نہرو سے دوستی کی وجہ سے بھارت کو ترجیح دی اور الحاق کی بھرپور حمایت کی جس کے بعد ہی بھارت نے اپنی فوج کشمیر روانہ کی تھی۔

وہ مزید کہتے ہیں: 'ایسا نہیں ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کو صرف بی جے پی حکومت سے بے وفائی کا تحفہ ملا ہے بلکہ الحاق کے محض چھ سال بعد یعنی 1953 میں پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت نے انہیں گرفتار کیا جس کے بعد انہیں کئی سال جیل یا جلا وطنی میں گزارنے پڑے۔'

انڈپینڈنٹ اردو نے جب ایک انٹرویو کے دوران شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا کہ آپ کے والد کو بھارت سے وفا کے بدلے وفا نہ مل سکی تو ان کا جواب تھا: 'بی جے پی حکومت کے ان اقدامات سے شیر کشمیر کا قد و قامت کم نہیں ہوگا۔ یہ ان کا احمقانہ پن ہے۔ شیخ صاحب نے اس مظلوم قوم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ لاثانی اور ناقابل فراموش ہیں۔ یہ لوگ حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یہ پست سوچ رکھنے والوں کا گروہ ہے۔

'شیخ صاحب کے کارناموں کو نظرانداز کرنا تو ان کا ایجنڈا ہے۔ ان لوگوں نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی اور چھاتی پھیلا کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ایجنڈا تھا۔ اب یہ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔'

'یہ لوگ ہماری جماعت اور ہمارے خاندان کے خلاف غلط پروپیگینڈا کر رہے ہیں۔ ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ تم نے جموں و کشمیر کو پچھلے 70 برسوں سے لوٹا۔ جب ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ کیا لوٹا تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا ہے۔ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کشمیری قوم کا حسد ہے۔'

ڈاکٹر مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے شیخ محمد عبداللہ کو 'شیر بھارت' کا خطاب دینے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔

کہتے ہیں: 'بھارت کے ساتویں صدر گیانی ذیل سنگھ نے سری نگر کے نشاط باغ میں شیخ صاحب سے کہا تھا کہ ہم آپ کو شیر بھارت کا خطاب دینا چاہتے ہیں۔ لیکن شیر کشمیر نے انکار کیا۔ انہوں نے گیانی ذیل سنگھ سے کہا کہ میری گپھا (غار) تو یہاں ہے میں بھارت کا شیر نہیں کہلانا چاہتا۔'

شیخ محمد عبداللہ کے فرزند کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے اکتوبر  1947 میں مبینہ قبائلی جنگجوؤں کو بھیج کر کشمیر کو خود بھارت کی گود میں دھکیلا۔

'پاکستان نے ہی ہمیں بھارت کی گود میں دھکیلا تھا۔ ہم چار سو سال کی غلامی کے بعد آزاد ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنا راستہ دیکھتے پاکستان نے حملہ آور بھیج دیے۔

'اگر پاکستان حملہ نہیں کرتا تو یہاں رائے شماری ہوتی۔ لوگوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔ لیکن پاکستان نے حملہ کیا تو لوگوں کا من ہی بدل گیا، سوچ ہی بدل گئی۔'

ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ کشمیری عوام کی چاہت کے برعکس مہاراجہ ہری سنگھ آزاد رہنا چاہتے تھے۔ 'مہاراجہ نے بھارت اور پاکستان کو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ یا معاہدہ قائمہ کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان نے پیشکش قبول کر لی تھی اور اس حوالے سے جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم میجر جنرل جنک سنگھ کو ایک سرکاری مکتوب بھیجا تھا۔

'تاہم بھارت نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس پر بات چیت کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ کو اپنا نمائندہ دہلی بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ بھارت کی تب بھی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ جواہر لال نہرو آخری دم تک کہتے رہے کہ اگر جموں و کشمیر کے لوگ ہم سے الگ ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوگا لیکن ہم نہیں روکیں گے۔'

ڈاکٹر مصطفیٰ کمال کے مطابق پاکستان کے بانی محمد علی جناح کہا کرتے تھے کہ جموں و کشمیر ان کے لیے ایک بلینک چیک ہے جس کو میں وہ جب چاہیں کیش کر لیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'شیخ صاحب نے اپنی تقریروں میں با رہا کہا ہے کہ اگر 1947 میں پاکستان حملہ نہ کرتا تو آج کی صورت حال کچھ اور ہوتی۔ وہ برملا کہتے تھے کہ ابھی سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ یا معاہدہ قائمہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان نے حملہ آوروں کو بھیج دیا اور نتیجتاً کشمیر اس بھنور میں پھنس گیا۔ حملہ آروں کو بھیجنا پاکستان کی بہت بڑی غلطی تھی۔

'میں ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سازشیں دونوں طرف سے ہوئی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہماری سڑکیں اور پانی پاکستان کی طرف ہی جاتی ہیں۔ جغرافیائی طور پر ہم پاکستان کے زیادہ نزدیک ہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کو پاکستان سے ملنے یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔'

ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ پاکستان کے حملے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے بہ حالت مجبوری جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ مشروط اور عارضی الحاق کیا۔

'مہاراجہ نے ریاست کو بھارت میں مدغم نہیں کیا تھا بلکہ دستاویز الحاق کے تحت یہ رشتہ صرف تین شعبوں دفاع، رسل و رسائل اور خارجہ پالیسی تک ہی محدود تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہی کشمیر سے نکلنے سے قبل شیخ صاحب کو یہاں کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر (ہنگامی منتظم) بنایا تھا۔'

یہ پوچھے جانے پر کہ شیخ محمد عبداللہ نے 1947 میں رائے شماری کا انتظار کرنے کی بجائے ہنگامی منتظم بننے کو ترجیح کیوں دی تو ڈاکٹر مصطفیٰ کمال کا جواب تھا: 'شیخ صاحب کہتے تھے کہ اگر میں اقوام متحدہ کا انتظار کرتا تو یہ قوم مفلس، غریب اور مفلوک الحال ہی رہتی۔

'شیخ صاحب نے 1947 کے بعد اپنی زندگی کے 22 سال جیل خانوں اور جلا وطنی میں گزارے مگر قوم کو نہیں بھولے۔ میں نے شیخ صاحب سے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے تو ان کا جواب تھا کہ میں نے ناانصافی کے خلاف علم اٹھائی ہے جس کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔'

ڈاکٹر مصطفی کمال کے مطابق جواہر لال نہرو کو موت سے پہلے کشمیر سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی غلطی کا احساس ہوا تھا۔

کہتے ہیں: 'نہرو نے 1964 میں شیخ صاحب سے استدعا کی کہ وہ پاکستان جا کر وہاں محمد ایوب خان سے ملیں اور ہم دونوں (نہرو اور ایوب خان) کے درمیان ملاقات فکس کرائیں تاکہ ہم مسئلہ کشمیر کو مل بیٹھ کر حل کر سکیں۔ شیخ صاحب مرزا محمد افضل بیگ، خواجہ مبارک شاہ، شیخ عبدالرشید اور فاروق عبداللہ کو ساتھ لے کر اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے ایوب خان سے ملاقات کی اور نہرو کی استدعا پر ملاقات فکس کرائی۔

'اس بات کو صیغہ راز میں رکھا گیا کہ نہرو اور ایوب خان کے درمیان ملاقات کہاں اور کب ہوگی۔ شیخ صاحب کو مظفرآباد – اوڑی کے راستے واپس آنا تھا لیکن نہرو مرا یا مارا گیا وہ ایک معمہ ہے۔ نہرو کی موت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ ٹھنڈے بستے میں پڑ گیا۔

'مسئلہ کشمیر ابھی حل نہیں ہوا ہے بلکہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ شیخ صاحب بھارت سے بار بار کہتے تھے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔ وہ ان سے کہتے تھے کہ وقت آئے گا کہ یہ گلے کی ہڈی بنے گی جس کو آپ اگل سکیں گے نہ نگل سکیں گے۔'

1975 میں شیخ محمد عبداللہ اور اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے اور شیخ عبداللہ کی اقتدار میں واپسی کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈاکٹر کمال کا کہنا تھا: 'لوگ شیخ صاحب سے ناراض ہیں کہ انہوں نے 1975 میں اندرا گاندھی سے معاہدہ کیوں کیا۔ اور پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھارتی حکومت نے اٹانومی دینے سے انکار کیا تو شیخ صاحب نے اقتدار کیوں نہیں چھوڑا۔

'میں نے شیر کشمیر سے یہ سوال کیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا کہنا ہے میں نے کہا کہ لوگ آپ کو گالیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخرت میں مجھے میری نیت کام آئے گی۔ میرے لوگ فاقہ کشی کر رہے ہیں۔ میں نے فیصلہ لیا ہے کہ میں چھ سال تک سیاست بالائے طاق رکھ کر لوگوں کو راحت پہنچانے کا کام کروں۔ کشمیر میں اس وقت جو بھی ہے وہ ان ہی چھ سال کے دوران تعمیر ہوا ہے۔'

مبینہ پاکستانی حملہ اور نیشنل کانفرنس

ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال نے بتایا کہ 1947 میں ماسٹر عبدالعزیز اور محمد مقبول شیروانی جیسے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے پاکستانی حملہ آوروں یا مبینہ قبائلی جنگجوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

کہتے ہیں: 'ماسٹر عبدالعزیز قرآن شریف لے کر بارہمولہ میں ایک پل پر کھڑا ہو گئے اور حملہ آوروں سے کہا کہ آگے مت آؤ یہاں عورتیں اور بچے ہیں، مرد سارے بھاگ گئے ہیں لیکن حملہ آوروں نے قرآن پھاڑ کر دریا میں پھینک دیا اور اس کو گولیوں سے بھون ڈالنے کے بعد لاش دریا میں ڈالی۔

'شیروانی بھی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہلاک ہوئے۔ حملہ آوروں نے کئی ہزار عام شہریوں کو، جن میں بارہمولہ میں رہنے والے مسیحی برادری کے افراد بھی شامل تھے، تہہ و تیغ کیا۔ لوگوں نے لکڑی کی بندوقیں لے کر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ لوگوں نے اس وقت حملہ آوروں سے مقابلہ کیا جب یہاں بھارتی فوج نہیں اتری تھی۔ بارہمولہ میں لوٹ مار حملہ آوروں کو مہنگا پڑا اور بالآخر منہ کی کھانی پڑی۔'

تاہم ڈاکٹر کمال ساتھ ہی کہتے ہیں: 'جو کارنامے پاکستانی حملہ آوروں نے انجام دیے تھے وہی کارنامے اب بھارت کشمیر میں انجام دے رہی ہے۔

'یہاں گذشتہ تین دہائیوں سے کیا ہو رہا ہے۔ میرے پاس پوری تفصیلات ہیں کہ بھارتی فوج نے یہاں کہاں کہاں پر قتل عام کیا ہے۔ بھارت کی نیت بھی کبھی صاف نہیں رہی ہے۔ شیخ صاحب بھی بار بار کہتے تھے کہ بھارت کو یہاں کی زمین پسند ہے لوگ نہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ