ارجنٹائن: اسقاط حمل قانونی قرار دینے والا لاطینی امریکہ کا پہلا ملک

رومن کیتھولک اکثریتی آبادی میں ایسی انقلابی تبدیلی کے پیچھے صدر البرٹو فرنینڈیز کا بنیادی کردار تھا۔

ارجنٹائن میں نسوانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سبز لباس پہن کر بل  منظور ہونے کا جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی)

 

جیسے ہی اعلان کیا گیا کہ لاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹائن نے اسقاط حمل کو قانونی قرار دیتے ہوئے تاریخ رقم کر دی تو اس کے دارالحکومت بیونس آئرس کی فضا سبز رنگ میں نہا گئی۔ سبز رنگ ایک طویل عرصے سے روایتی معاشرے میں اسقاط حمل کو قانونی شکل دینے کی مہم کا رنگ تھا جس میں کئی سالوں سے ہزاروں کارکنان سبز اوڑھنیاں اوڑھے اور سبز جھنڈے لہراتے چلے آ رہے تھے۔

گذشتہ بدھ کے روز 12گھنٹے کی طویل بحث کے بعد ارجنٹائن کی سینٹ نے ایک شخص کے حق رائے دہی سے اجتناب کے بعد 29 کے مقابلے میں 38 ووٹوں سے یہ تاریخی آئینی منظوری دے دی۔ یہ نتائج ان خواتین کارکنان کی واضح فتح کا اعلان تھے جو گزشتہ تین عشروں سے نہایت کڑے اسقاط حمل کے قوانین کو تبدیل کرنے کی جد و جہد کر رہی تھیں۔

اس سے پہلے ارجنٹائن میں اسقاط حمل کی اجازت اسی صورت میں تھی کہ جب ریپ کا واقعہ پیش آئے یا ماں کی صحت یا زندگی خطرے سے دوچار ہو۔ تاہم مہم میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ یہ قانون پوری طرح نافذ ہی نہیں تھا اور قانونی حق حاصل ہونے کے باوجود ایسی عورتوں کے لیے بنیادی سہولیات میسر نہیں تھیں اور یہی اہم وجہ ہے کہ پس پردہ اسقاط حمل کی وجہ سے مائیں زندگی سے محروم ہوتی رہیں۔

اگرچہ ارجنٹائن میں اسقاط حمل کے سخت قوانین سے متعلق پچھلے 15 برسوں میں یہ نواں واں بل تھا لیکن یہ بالکل مختلف اس طرح ہے کہ اسے صدر کی حمایت حاصل تھی۔ ارجنٹائن کے صدر البرٹو فرنینڈیز نے اسمبلی سے اپنے پہلے سالانہ خطاب کے دوران اسقاط حمل کو قانونی بنانے کا وعدہ کیا۔ گذشتہ دسمبر میں صدارت کا حلف اٹھانے والے فرنینڈیز نے کہا کہ ’موجودہ قانون نے کئی عورتوں، بالخصوص محدود وسائل والی عورتوں کو خفیہ اسقاط حمل پر مجبور کر رکھا ہے جس سے ان کی صحت اور بعض اوقات زندگی تک خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 حمل ٹھہرنے کے بعد 14ویں ہفتے تک عورت کو اسقاط حمل کی اجازت دینے والا قانون متعارف کروانے والے صدر نے مزید کہا: ’اسقاط حمل ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں بالخصوص عورتوں کو تحفظ فراہم کرے۔ 21ویں صدی میں ہر معاشرے کو چاہیے کہ وہ افراد کے اپنے جسم کے متعلق آز ادانہ فیصلوں کا احترام کرے۔‘

 کرونا کی وجہ سے اسقاط حمل قانون میں تاخیر کا شکار ہونے والے صدر نے کہا ہے کہ نئی قانون سازی یقیناً زندگیوں کو تحفظ فراہم کرے گی کیونکہ ہر سال 38 ہزار سے زیادہ خواتین کو غیر قانونی اسقاط حمل کی وجہ سے ہسپتالوں میں علاج کی ضرورت پیش آتی ہے اور 1983 سے لے کر اب تک تین ہزار سے زیادہ خواتین موت کا شکار ہو چکی ہیں۔

تاہم ارجنٹائن کے اسقاط حمل قوانین تبدیل کرنے کی ان کی جدوجہد مخالفت کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی اور کیتھولک چرچ اس تاریخی قانون سازی کے خلاف سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے۔ ملک میں اثر و رسوخ کے حامل چرچ نے سینٹ کے ارکان کو بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔

2018 میں اسقاط حمل کو قانونی بنانے والا اسی طرح کا بل اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینٹ میں بہت معمولی فرق سے مسترد ہو گیا تھا۔ کم و بیش بیس سال سے اسقاط حمل کو قانونی قراد دینے کی تحریک کی پشت پناہی کرنے والے عالمی صحت نسواں اتحاد کا کہنا تھا کہ یہ خواتین کا ثابت قدمی سے تحریک چلانا تھا جس نے ارجنٹائن میں اسقاط حمل کی طرف رویہ تبدیل کر دیا اور دنیا بھر کے ممالک کی توجہ بھی حاصل کی۔

صحت،حقوق اور انصاف کے میدان میں خواتین کی معاونت کرنے والی تنظیم'ویمنز ایکوالٹی سینٹر' کی سربراہ پاؤلا اویلا گلن نے کہا ہے کہ کانگریس کے ہر اس رکن نے جنہوں نے حق میں ووٹ دیا انہوں نے بے شمار خواتین اور لڑکیوں کی زندگی بچائی ہے۔
پوپ فرانسس نے، جن کا تعلق ارجنٹائن سے ہے،12 گھنٹے جاری رہنے والی بحث سے کئی گھنٹے پہلے اپنی ٹویٹ میں ہر لاوارث بچے کو'خدا کا بچہ 'قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 'خدا کا بچہ بے یارومددگار پیدا ہوا تھا تاکہ بتایا جا سکے کہ ہر لاوارث بچہ خدا کا بچہ ہوتا ہے۔'وہ اسی طرح دنیا میں آیا جس طرح ہر بچہ آتا ہے یعنی کمزور اور خطرے سے دوچار، تاکہ ہم محبت کے ذریعے اپنی کمزوری قبول کرنا سیکھ سکیں۔'
قبل ازیں اس ماہ ایک ڈاکٹر نے جو ارجنٹائن میں اسقاط حمل کے لیے خدمات فراہم کرتی ہیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین آنکھوں سے اوجھل مقامات پر غیر محفوظ اسقاط حمل کے لیے جانے کے بعد بری حالت میں ان کے طبی مرکز میں آتی ہیں۔ وسطی ارجنٹائن کے شہر کورڈوبہ میں کام کرنے والی ڈاکٹربیتیانہ اولیرو نے کہا:  'میں جس طبی مرکز میں کام کرتی تھی میں نے وہاں ایک خاتون کو مرتے ہوئے دیکھا کیونکہ انہوں نے خفیہ طور پر اسقاط حمل کروایا تھا جس کے اثرات نہ صرف ان کے خاندان بلکہ برادری پر مرتب ہوئے۔انہوں نے اپنے پیچھے چار بچے چھوڑے۔ان کے مرنے کے بعد وہ اکیلے رہ گئے۔'

جی20 کے رکن ملک میں مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ خواتین کو اسقاط حمل سے روکنا معمول ہے حالانکہ بہت محدود کیسز میں یہ ان کا حق ہوتا ہے۔ارجنٹائن کے ایکسس ٹو سیف ابارشن نیٹ ورک کی ایک حالیہ رپورٹ میں پتہ چلا ہے کہ ارجنٹائن میں 2016 سے2018 تک 10سے 14 سال عمر کی سات ہزار لڑکیوں نے بچوں کو جنم دیا۔ اکثر کیس میں انہیں ہونے والا حمل ریپ کا نتیجہ تھا۔ 
فرنانڈس جنہوں نے گذشتہ دسمبر میں صدرکا حلف اٹھایا، نے کانگریس سے اپنے پہلے سالانہ خطاب میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دینے کا وعدہ کیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون کی وجہ سے'متعدد خواتین عام طور پر وسائل کی کمی کے نتیجے میں مکمل طور پر خفیہ انداز میں اسقاط حمل کروانے پر مجبورہوئیں جس سے ان کی صحت اور بعض اوقات زندگی داؤ پر لگ گئی۔'

مہم چلانے والوں کو امید ہے کہ لاطینی امریکہ وہ ملک جہاں اسقاط حمل پر سخت پابندی ہے وہ ارجنٹائن کی تقلید کرتے ہوئے اسے قانونی حیثیت دیں گے۔ساڑھے چار کروڑ کی آبادی والا ملک ہونے کی بدولت ارجنٹائن انتہائی اثرو رسوخ کا مالک ہے۔

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین