کرونا وائرس کہاں سے شروع ہوا؟اس سوال کا حتمی جواب مل سکے گا؟

ایک طرف دنیا کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی تحقیقاتی ٹیم معلومات جمع کرنے کے لیے چین پہنچ چکی ہے، لیکن چینی حکام کے فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر کیا ہم حقیقت تک پہنچ سکیں گے؟ 

چینی وزیراعظم شی جن پنگ نے کہا: ’ہم اپنے عظیم ملک ۔۔۔ اور اپنے ناقابلِ تسخیر عزم پر نازاں ہیں‘ (فائل تصویر: اے ایف پی)

جیسے ہی رات کے 12 بجے گلی کوچوں میں لوگوں کا سیلاب امڈ آیا، عمارتیں تیز سرخ رنگوں سے جگمگا اٹھیں، شوخ غبارے فضا میں روشنی بکھیرنے لگے اور ہجوم کی تالیوں سے در و دیوار گونجنے لگے۔ کرونا (کورونا) وائرس سے متاثرہ دنیا کے اکثر ممالک کے برعکس ووہان میں نئے سال کو بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔

چین کے وزیر اعظم نے انتہائی پرجوش تقریر سے نئی دہائی میں قدم رکھا۔ ٹی وی سکرین کے ذریعے انہوں نے کرونا وائرس کے خلاف کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے قوم سے حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر وطن کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شی جن پنگ نے کہا، ’مجھے اپنی دھرتی ماں، اس کے باشندوں اور ان کے لامحدود جذبہ حب الوطنی پر فخر ہے۔ قومی یکجہتی اور عزم کے باعث ہم نے عالمی وبا کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے تاریخ رقم کر دی۔‘ 12 منٹ طویل تقریر میں کرونا وائرس سے مرنے والوں کے لیے ہمدردی کا محض ایک جملہ بولا گیا۔ 

حکمران جماعت کے ترجمان اخبار گلوبل ٹائمز نے اسی روز دعویٰ کیا کہ ’ووہان سے بیجنگ اور ڈالیان سے ارومچی تک لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چین نے انتہائی تیز رفتاری سے وائرس پر قابو پا لیا۔ شہروں کی سطح پر جزوی لاک ڈاؤن کی احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے مرکزی حکومت نے کوشش کی ہے کہ وبا کے خلاف لڑتے ہوئے لوگوں کی زندگی کم سے کم متاثر ہو۔‘

چین کے سرکاری میڈیا میں گذشتہ پانچ سال کے جائزوں سے قبل ہی 2028 تک معاشی دوڑ میں امریکہ پر چین کی برتری کی پیش گوئی پر خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ 2020 میں 2.3 کی رفتار سے چین واحد اہم معاشی طاقت تھی جس نے ترقی کا سفر جاری رکھا۔ دوسری طرف باقی ممالک بار بار کرونا وائرس کی دخل اندازی اور لاک ڈاؤن کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئے۔ تعطل کی اس صورت حال میں چین کے تجارتی ادارے مواقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے۔

 چین کی حکومت پر سب سے بڑا الزام ہی یہ ہے کہ اس نے نازک ترین موقعے پر کرونا وائرس کی پھوٹتی وبا کو دنیا سے چھپایا، جس کے نتیجے میں یہ مہلک بیماری نہ صرف بیرونی دنیا میں پھیل گئی بلکہ دور رس تباہ کن اثرات بھی مرتب کیے۔ ایک دعوے کے مطابق یہ وائرس ووہان کی مچھلی منڈی سے نہیں پھیلا جیسا کہ ابتدائی طور پر کہا گیا تھا، بلکہ ووہان میں حیاتیاتی مطالعے کی ایک لیبارٹری میں تجربات کے دوران حادثاتی طور پر اس وائرس کا جنم ہوا اور وہاں سے یہ پھیلنے لگا، جس کے ثبوت مٹانے کی چینی حکام نے پوری کوشش کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال وائرس اور اس کے آغاز کے متعلق مختلف باتوں کا بازار گرم ہوا ہی تھا کہ میڈیا اور عوام کی توجہ اچانک مغربی دنیا میں اس کے تباہ کن اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومتوں کی ناقص کارکردگی کی جانب مرکوز ہو گئی۔ اس کے بعد سیاہ فاموں کے احتجاج، بریگزٹ، امریکی صدارتی انتخابات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونی والی خلاف معمول غیر یقینی صورت حال جیسے موضوعات میڈیا کے لیے زیادہ اہم ہوتے گئے۔ 

جب پوری دنیا واشنگٹن کی ہلچل پر نظر رکھے ہوئے تھی، اس وقت اچانک خبر آئی کہ کرونا کے آغاز کے متعلق تحقیق کرنے والے عالمی ادارہ صحت کو چینی حکام نے ویزا نہ دینے کے بہانے روکنے کی کوشش کی ہے۔ بہت پس و پیش کے بعد بیجنگ نے اس دورے کی منظوری اس وقت دی جب پوری دنیا سے دباؤ بڑھنے لگا۔

عالمی ادارہ صحت کا یہ دورہ کئی مہینے کے مذاکرات کے بعد طے پایا تھا اور بیجنگ سے آخری لمحے میں رکاوٹ کو دنیا نے بہانہ سازی سے تعبیر کیا۔ ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس گیبریئیس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جب دو ارکان اپنا کام شروع کر چکے تھے، اس وقت باقی اراکین کے داخلے میں رکاوٹ کی خبر سے وہ بہت مایوس ہوئے۔‘

یہ کوئی بہت واضح مذمت نہ سہی لیکن بہرحال گیبریئیس کی جانب سے عالمی وبا کے دوران پہلی بار چین کے خلاف کوئی تنقیدی جملہ سننے کو ملا تھا۔ ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کو ابتدا میں خاموشی اور بیجنگ کے ساتھ ہمدردی کی بنا پر شدید ترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان سے چین کے خلاف کسی بات کی توقع کیسے ممکن تھی، وہ تو ’معلومات کے تبادلے میں فراخ دلی‘ اور ’لاک ڈاؤن سے بیماری کا پھیلاؤ کم کرنے کے اقدامات‘ کا سہارا لے کر بیجنگ کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ 

گذشتہ ہفتے ووہان میں ابتدائی لاک ڈاؤن کو ایک سال مکمل ہونے پر غیر جانبدار عالمی جائزہ کمیٹی نے کرونا کے آغاز پر چینی حکام کے بروقت اقدامات سے گریز اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ایمرجنسی کے اعلان میں تاخیر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک اور لائبیریا کے سابق صدر ایلن جانسن کی سربراہی میں اس پینل نے عالمی ادارہ صحت میں فوری اصلاحات پر ضرور دیا۔ 

 ایک ہفتہ کی ہچکچاہٹ کے بعد ویزے جاری کر دیے گئے اور عالمی ادارہ صحت کی ٹیم اس وقت چین میں ہے۔ تحقیق شروع کرنے سے پہلے دس سائنس دان دوہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رہے جنہیں چین کی طرف سے فراہم کیے گئے نمونہ جات اور ثبوتوں پر انحصار کرنا ہو گا۔ مزید برآں ووہان اور دیگر علاقوں میں کرونا کے انہی متاثرین تک ان کی رسائی ممکن ہو گی جن تک چینی حکام اجازت دیں گے۔ 

چین کی حکومت نے مجرمانہ غفلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے الزامات پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے کہ وبا چین سے شروع ہوئی۔ کسی قابل اعتماد ثبوت کے بغیر مختلف اوقات میں مختلف دعوے کیے گئے کہ وبا کا آغاز بنیادی طور پر چین نہیں بلکہ امریکہ، آسٹریلیا، اٹلی، سپین، روس، ملائیشیا، انڈیا اور بنگلہ دیش ہیں۔ ووہان کے مرکزی ہال میں لگے اشتہارات کے مطابق ’کرونا وبا دراصل دنیا کے مختلف مقامات سے پھوٹی۔‘

مقامی اور عالمی سطح پر جس شخص نے کرونا وائرس کے خلاف حکومتی موقف سے ہٹ کر بات کی اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ جب نئے سال کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں اس وقت شنگھائی میں عدالت سابق قانون دان اور مقامی صحافی ژانگ ژان کو وبا کے متعلق رپورٹنگ کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنا رہی تھی۔ 

ژانگ ان عوامی صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ووہان میں پراسرار وائرس کی ابتدائی خبریں دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ حکام کی طرف سے ظاہر کیے گئے اعداد و شمار کے برعکس صورت حال کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے متاثرین کے اہل خانہ کو حکام کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔ انہیں مئی میں گرفتار کر کے 640 کلومیٹر دور شنگھائی لے جایا گیا جہاں ان پر ’متنازع پروپیگنڈا‘ اور ’اشتعال انگیزی‘ کے الزامات عائد کیے گئے جو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد پر اکثر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ 

کرونا کے موضوع پر بات کرنے کے جرم میں یہ ریاستی جبر سہنے والوں کی محض ایک حالیہ مثال ہے۔ ابتدائی لوگوں میں سے ایک ڈاکٹر لی وین لیانگ بھی تھے جنہوں نے دسمبر 2019 میں اس نئی پیچیدہ بیماری کے متعلق خبردار کیا تھا۔ لی کو پبلک سکیورٹی بیرو نے ’بے بنیاد الزامات لگانے‘ کے جرم میں نظر بند کر دیا، جن سے ’سماجی ڈھانچے کو شدید خطرات‘ لاحق ہونے کا خدشہ تھا اور ساتھ تحریری طور پر متنبہ کیا: ’ہم آپ کو سنجیدگی سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ گستاخانہ رویہ اور غیر قانونی سرگرمی جاری رکھی تو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے نا؟‘ 35 سالہ ڈاکٹر فروری میں کرونا وائرس کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔

بیجنگ نے بیرونی دنیا میں کرونا سے متعلق اپنی حکمت عملی میں پیسے کا بے تحاشا استعمال کیا۔ جیسے دنیا میں ذاتی حفاظت کے سامان (پی پی ای) کا تقریباً 50 فیصد حصہ چین نے فراہم کرتے ہوئے کئی ممالک پر اپنے احسان کا تاثر جمایا، اگرچہ بہت سے ممالک نے رقم کے بدلے یہ خریداری کی اور کئی مقامات پر یہ سامان ناقص بھی نکلا۔ 

جن ممالک نے چین کے موقف سے ہٹ کر بات کرنے کی کوشش کی انہیں فوری ردعمل کا سامنے کرنا پڑا۔ آسٹریلیا کو وبا پر عالمی تحقیق کی بات کرتے ہی دھمکیاں اور بیجنگ میں آسڑیلوی درآمدات کو پابندیاں بھگتنا پڑیں۔ سپاہیوں کے متعلق بننے والی ایک فلم کے بعد ’وولف وارئیرز‘ کہلائے جانے والا چین کا سفارتی عملہ پہلے سے تیار بیٹھا ہوتا تھا کہ کوئی ان کے ملک کے خلاف منہ کھول کے تو دکھائے۔ 

سویڈن کو دھمکی دیتے ہوئے چین کے سفیر نے کہا تھا، ’ہم اپنے دوستوں کی بہترین شراب سے تواضع کرتے ہیں، لیکن اپنے دشمنوں کے لیے بندوق تیار رکھتے ہیں۔‘

بیجنگ واپسی سے قبل طویل عرصے تک لندن میں چین کے سفیر رہنے والے لوئی ژاؤمنگ نے کرونا وائرس، ہانگ کانگ سے کشیدگی اور مسلم اویغور کے معاملات پر لب کشائی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ چین کی مخالفت کے سنگین نتائج بھگتے گا۔

خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چین سے باہر تیار ہونی والی ویکسین ممکن ہے محفوظ نہ ہو۔ گلوبل ٹائمز اور ریاستی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے انگریزی نیٹ ورک سی جی ٹی این نے مغربی میڈیا پر فائزر ویکسین کے مضر خطرات نظرانداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ آسڑیلوی سٹرٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ تنقید اس دعوے کا ردعمل ہے، جس میں برازیلی محققین نے چین کی سائنو ویک ویکسین کو 78 فیصد تک کارآمد ہونے کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض 50 فیصد تک کارگر ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ وبا کے تناظر میں چین پر مسلسل جارحانہ بیانات داغتی رہی ہے اور ٹرمپ نے اسے انتخابات میں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن چین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے بیٹے ہنٹر کے چین سے کاروباری مراسم رہے ہیں، لیکن یہ ٹرمپ کا بدلتا ہوا پینترا تھا۔ جب چین سے وبا کے پھوٹنے اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں پھیلنے کے ثبوت سامنے تھے اس وقت بھی ٹرمپ شی جن پنگ کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔

 24 جنوری کو انہوں نے ٹویٹ کی، ’چین بہت تندہی سے کرونا وائرس کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ امریکہ اس کی جد و جہد اور شفافیت کی کھلے دل سے تعریف کرتا ہے۔ یہ بہت جلد نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔ بالخصوص امریکی عوام کی طرف سے میں صدر شی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘ 10 فروری کو انہوں نے کہا، ’میرا خیال ہے چین بہت پیشہ ورانہ انداز سے نمٹ رہا ہے کہ سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد وہ اسے پوری طرح پچھاڑ دیں گے۔‘ 29 فروری کو بھی ان کا اصرار جاری تھا کہ ’ایسا لگتا ہے چین حیران کن رفتار سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے ہمارے چین سے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔‘

 کہا جاتا ہے کہ یہ سب دوبارہ الیکشن جیتنے کے لیے ٹرمپ کے حربے تھے تاکہ چین سے تعاون ملے۔ سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن کے مطابق امریکی صدر نے اوساکا میں جی 20 ممالک کی کانفرنس کے دوران پنگ سے دست بستہ گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی کسانوں کی مصنوعات کی خریداری جاری رکھیں کیونکہ کسانوں کا ووٹ بہت زیادہ اہم ہو گا۔ اسی لیے جب چین نے آسڑیلوی کسانوں کی مصنوعات پر پابندیاں عائد کیں، اس وقت امریکی کسانوں کی مصنوعات کی درآمد جاری رکھی تاکہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے عہدے پر براجمان رہ سکیں۔ 

بولٹن کے مطابق ٹرمپ کرونا کے بارے میں الزامات کے موقف سے روگردانی کرتے ہوئے ویسے ہی رطب اللسان رہتے، اگر دوبارہ جیتنے کے بعد تجارتی معاہدے اور ذاتی مفاد کا امکان ہوتا۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ووہان لیبارٹری میں انسان کا تخلیق کردہ ہے۔ مشیر برائے ریاستی امور مائیک پومپیو نے بھی یہی بات دہرائی اور دونوں کے مطابق خفیہ ادارے ان الزامات کے ثبوت بہت جلد منظر عام پر لائیں گے، لیکن امریکی خفیہ ایجنسیوں نے ان کی بات مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ابھی تک کوئی واضح ثبوت نہیں ملے اس لیے مزید تحقیق جاری ہے۔

کہا جا رہا تھا کہ عہدہ چھوڑتے ہی پومپیو ایجنسیوں کی اس پردہ پوشی کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی انکشاف کریں گے۔ سابق مشیر برائے ریاستی امور نے گذشتہ ہفتے دعویٰ کیا کہ 2019 کے موسم خزاں میں ووہان کی لیبارٹری میں تحقیق کے دوران سائنس دان بیمار ہوئے جن کی علامات کرونا وائرس سے مشابہ تھیں اور سائنس دان جس کرونا وائرس پر تجربات کر رہے تھے وہ کووڈ 2019 سے 96.2 فیصد مشابہت رکھتا ہے۔ 

پومپیو کا کہنا تھا کہ ووہان سویلین لیبارٹری ہونے کے باوجود فوج کے ساتھ خفیہ منصوبوں پر کام کر رہی تھی۔ جس کے جواب میں ریاست نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ووہان لیباٹری کم از کم 2016 سے RaTG13 کے نام سے معروف کرونا وائرس کا مطالعہ کر رہی ہے اور  RaTG13 جینیاتی طور پر SARS-CoV-2 کے قریب ہے جس کا ابتدائی نمونہ 2013 میں یونان صوبے کے ایک غار سے ملا جہاں کئی کوہ کن SARS جیسی بیماری کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے تھے۔

 اگرچہ ووہان لیبارٹری نے وائرس کے خطرے میں اضافے یا منتقل ہونے کی صلاحیت کے بارے میں اپنی کی گئی تحقیق ظاہر کر دی ہے لیکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس کے شفاف اور مکمل ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کرونا وائرس 19 اور RaTG13 کے متعلق پیش کیے گئے حقائق تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

پومپیو کے مطابق ’اس مہلک وائرس اور اس کے بعد کسی نئے وائرس سے دنیا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سائنسدانوں کو درکار ضروری معلومات بیجنگ نے ابھی تک چھپا رکھی ہیں۔‘ وہ عالمی ادارہ صحت کے محققین سے ’ووہان لیبارٹری کے کرونا وائرس 19 سے پہلے والے دیگر وائرسوں پر جاری تجربات کے تمام ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی گہرائی میں جا کر پتہ لگانا چاہیے کہ ووہان لیبارٹری نے RaTG13 اور باقی وائرس پر آن لائن ریکارڈ پہلے تبدیل اور پھر ہٹا کیوں دیا۔‘

 پومپیو کے ’انکشافات‘ نے توقع سے کم کوریج حاصل کی۔ اگرچہ وہ اس بات کا ثبوت فراہم نہ کر سکے کہ وائرس ووہان لیبارٹری سے باہر نکلا۔ ممکن ہے اتنی کم توجہ کا سبب ٹرمپ انتظامیہ کی حقائق کے برعکس دعوے کرنے کی روایت اور ان کے متعلق عام تشکیک کی فضا ہو اور اب جبکہ واقعی ہی وہ صحیح کہہ رہے ہوں ان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہ ہو۔

تاہم چینی حکومت کو کرونا پر برتی گئی غفلت کی تلافی کے لیے مجبور کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ کم و بیش بیجنگ کے خلاف 10 قانونی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں جن میں یورپ اور امریکہ کی نجی کمپنیوں سے لے کر مزوری اور میسی سپی جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں جس کے بعد اور بھی کئی ریاستیں ممکنہ طور پر ایسے اقدامات کریں گی۔ 

امریکہ میں ایسی قانون سازی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے جو کانگرس کو ان حکام کے خلاف پابندیاں لگانے کا اختیار دے گی جو ’جان بوجھ کر صحت سے متعلق ایسی معلومات چھپائے یا ان میں رد و بدل کرے جو عالمی سطح پر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہو۔‘

یہ قانون سازی گلوبل میگنٹسکی ایکٹ (Global Magnitsky Act) کی طرز پر کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا کرپشن کرنے والے افراد کے لیے ہے جسے روس کی جیل میں ایک قانون دان کی موت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔

تاہم یہ بات الگ ہے کہ کوئی قانونی چارہ جوئی کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ معاملہ بھی مشکوک دکھائی دیتا ہے کہ بیجنگ کسی عالمی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرے گا۔ چین نے 2016 میں عالمی قانون کی پابندی کے معاہدے کو اپنایا لیکن ایک ماہ بعد فلپائن کے خلاف جنوب میں واقع متنازع سمندری علاقے کا مقدمہ ہارنے کے بعد چین نے عدالتی فیصلہ نظر انداز کر دیا۔ چین کے ایک سابق سفارت کار نے اسے ’محض کاغذ کا ٹکڑا‘ قرار دیتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور جس کے بعد اس فیصلے پر عمل درآمد کا واحد راستہ فوجی کارروائی تھا۔

اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں۔ امریکہ میں قانونی چارہ جوئی رپبلکن سینٹر جوش ہولی کی کرونا وائرس متاثرین ایکٹ متعارف کروانے اور اس کے نتیجے میں چین کی استثنیٰ سے محرومی، بیجنگ سے وبا کے نقصانات اور ممکنہ تلافی کے لیے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ٹاسک فورس کے قیام کے بعد شروع ہوئی۔ میگنٹسکی ایکٹ تجاویز ایک اور رپبلکن سینٹر ٹام کاٹن نے پیش کی تھیں۔

جوش ہولی اور ٹام کاٹن دونوں ٹرمپ کے اہم ترین حامی ہیں۔ کاٹن نے سیاہ فاموں کے احتجاج کے خلاف فوج کے استعمال کی پرجوش وکالت کی تھی۔ وہ پہلے ہی افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کا حصہ ہونے کے غلط دعوے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کر چکے ہیں۔ ہولی کو ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے واشنگٹن میں فساد برپا کرنے کے الزامات میں ممکنہ طور پر کانگرس کی ضابطہ اخلاق کی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح چین کے خلاف مہم کے دو بنیادی ترین افراد کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ 

یہ ابھی تک واضح نہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی تحقیقاتی ٹیم کس وقت اور کس حد تک جانچ پڑتال کر سکتی ہے۔ کیا وہ خود لیبارٹری کا جائزہ لے سکے گی یا متعلقہ افراد سے بات کر سکے گی جو بظاہر مشکل اور طویل عرصے پر محیط عمل ہے؟

بائیڈن انتظامیہ چین کے ساتھ انسانی حقوق سے لے کر تجارت تک مختلف مسائل پر پنجہ آزما ہونے والی ہے اس لیے ممکن ہے عالمی وبا سے جڑے معاملات پس منظر میں چلے جائیں۔

مستقبل قریب میں کرونا سے سنبھلنے کے لیے اقدامات پر مرکوز ہوتی توجہ میں عین ممکن ہے یہ سوال سرے سے نظر انداز ہو جائے کہ اس کا آغاز کیسے ہوا اور اس طرح پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والی اس بیماری کے پھوٹنے کا ابتدائی مقام پراسراریت اور افواہوں کی گرد میں ہمیشہ کے لیے پڑا رہ جائے۔ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس