کیا واقعی کووڈ 19 ووہان لیب کے سیمپل سے پھیلا؟ نئے سوالات

2003 میں سارس کی وبا کے بعد سے چین میں موجود محققین چمگادڑوں سے بھری غاروں میں نئے کرونا وائرسز کی تلاش اور تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔

15 اپریل 2020 کو لی گئی اس تصویر: میں چین میں حکومتی اہلکار کرونا وائرس سے بچاؤ کے لباس پہنے ووہان شہر سے بیجنگ کے قرنطینہ مراکز میں جانے والوں کے سفری انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں (تصویر: اے پی)

سائنسدانوں کی جانب سے کووڈ 19 کے بارے میں اٹھائے جانے والے نئے سوالات میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا ووہان کی لیبارٹری میں کئی سالوں سے موجود کرونا (کورونا) وائرس کا سیمپل جینیاتی تجربوں اور فطری طور پر مسخ ہونے کے بعد اس وائرس کی وجہ بنا جو کووڈ 19 کی بنیاد ہے۔

2003 میں سارس کی وبا کے بعد سے چین میں موجود محققین چمگادڑوں سے بھری غاروں میں نئے کرونا وائرسز کی تلاش اور تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں، جن میں ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی (ڈبلیو ای وی) سرفہرست ہے۔

ان سائنسدانوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والی ڈاکٹر شی زینگ لی بھی شامل ہیں، جنہیں ان کے ساتھیوں کی جانب سے 'بیٹ وومین' کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے فروری میں کرونا وائرس پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔

وائرس کی جینیاتی تفصیلات کے علاوہ ڈاکٹر شی کے مقالے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی میں چمگادڑوں سے حاصل کردہ وائرس آر اے ٹی جی 13 کے نمونے بھی موجود تھے۔

یہ مقالہ سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوا تھا، جس میں ڈاکٹر شی کا کہنا تھا کہ 'یہ وائرس کووڈ 19 سے 96.2 فیصد مماثلت رکھا تھا اور اب تک سامنے آنے والا قریب ترین وائرس تھا۔'

اس حوالے سے سائنسدانوں میں عمومی طور پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ دونوں وائرس ایک جیسے نہیں ہیں۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اس چار فیصد جینیاتی تضاد کو دور کرنے میں 20 سال سے 50 سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن ووہان کی لیبارٹری میں پیتھوجنز کی بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت پر ماضی میں کی جانے والی تحقیق جسے 'گین آف فنکشن' کہا جاتا ہے، جو کہ 2015 سے 2017 کے دوران شائع کی گئی تھی، کو ڈاکٹر شی کے ایک مقالے میں 'وائرس کے ناکارہ ہونے کے تجربات' کہا گیا تھا۔

سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ سارس کوو 2 کی جیناتی ساخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ فطری طور پر مسخ شدہ وائرس ہے اور یہ انسانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے، کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کبھی یہ دونوں وائرس ایک رہے ہیں۔ 

امریکی ریاست نیوجرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کے واکسمین انسٹی ٹیوٹ آف مائیکروبیالوجی کے پروفیسر رچرڈ ابرائٹ کہتے ہیں کہ آر اے ٹی جی 31 کو سارس کوو 2 میں تبدیل کرنے کی تکنیک ووہان میں ماضی میں کیے جانے والے کام کے مشابہہ ہے۔

پروفیسر رچرڈ نے دی سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'آر اے ٹی جی 13 کو بنیاد بنا کر تجرباتی حکمت عملی میں استعمال ہونے والی تکنیک کا نتیجہ سارس کوو 2 کے ہمشکل کی صورت میں نکلے گا۔'

لیکن لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے پروفیسر مارٹن ہبرڈ کا ماننا ہے کہ ایسا کرنا 'غیر معمولی طور پر مشکل' ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ دونوں وائرس ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کو ایک دوسرے میں ضم کرنا بہت مشکل ہو گا۔'

دونوں سائنسدانوں میں ان وائرسز کے فطری طور پر مسخ ہونے کے لیے درکار مدت کے حوالے سے بھی اتفاق نہیں پایا جاتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر ہبرڈ کے مطابق اس عمل میں 20 سال لگ سکتے ہیں جبکہ پروفیسر ابرائٹ کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک قابل عمل تصور نہیں ہے' کہ اس سال سامنے آنے والا وائرس اتنے تضاد کے ساتھ پیش رفت کر سکے۔

پروفیسر ابرائٹ کا کہنا ہے کہ 'جب ایک وائرس اپنا ہوسٹ (میزبان) بدلتا ہے اور نئے ہوسٹ میں جگہ بناتا ہے تو اس کے ارتقا کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آر اے ٹی جی 13 اگر انسانی جسم میں نومبر 2019 سے پہلے داخل ہوا ہے تو انسانی جسم نے اس کو سارس کوو 2 میں تبدیل ہونے میں مدد فراہم کی ہو۔ میری نظر میں یہ ممکن نہیں ہے۔'

آر اے ٹی جی 13 کے سیمپلز جس مقام سے حاصل کیے گئے اس پر بھی سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر شی کے ایک پرانے ساتھی کا کہنا ہے کہ یہ چین میں 2013 کے دوران ایک تانبے کی کان میں چمگادڑوں کا فضلہ صاف کرنے والے تین افراد کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا۔

ان افراد کی ہلاکت کا تعلق غار میں موجود فنگس سے جوڑا گیا تھا جبکہ چار افراد پر کیے جانے والے ٹیسٹس کے مطابق ان کے جسم میں سارس قسم کے کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

سال 2012 کے دوران ڈاکٹر شی اور ان کی ٹیم کو اطلاعات کے مطابق چھ افراد میں نمونیا کی علامات سامنے آنے کے بعد اس تانبے کی کان میں بلایا گیا تھا جو کہ ٹونگوان کے قریب موجیانگ کے علاقے میں موجود ہے۔

2016 میں شائع ہونے والے ایک مقالے جس کا نام 'متروک کانوں میں پائی جانے والی چمگادڑوں کے جھنڈ میں متعدد قسم کے کرونا وائرس کی موجودگی' تھا، میں ڈاکٹر شی اور ان کے ساتھیوں نے لکھا تھا کہ اس کان میں کرونا وائرس کی 152 اقسام پائی گئی تھیں۔ ان میں سے دو سارس کی وجہ بننے والے وائرس سے ملتی جلتی تھیں۔ ان میں سے ایک کو سارس کی نئی قسم یعنی آر اے بی ٹی کوو/4991 کا نام دیا گیا تھا۔

چائینیز اکیڈمی آف سائنسز کے شائع کردہ ڈیٹا بیس کے حمایت یافتہ ان دعوؤں کے بعد پیٹر ڈسزک جو کہ ایکو ہیلتھ الائنس کے صدر ہیں اور ڈاکٹر شی کے ساتھ 15 سال تک تحقیق کر چکے ہیں، نے دی سنڈے ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کان میں ملنے والے سیمپلز آر اے بی ٹی کوو/4991 کا نام تبدیل کر کے آر اے ٹی جی 13 رکھ دیا گیا تھا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ 16000 سیمپلز میں سے ایک تھا۔ ہم نے اس کا ایک چھوٹا سے حصہ اٹھایا تھا۔'

سال 2013 میں نمونے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'سازشی مفروضے گھڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ نام بدلنا کچھ مشکوک عمل ہے لیکن چھ سال میں دنیا اور کوڈنگ کا نظام دونوں بدل چکے ہیں۔'

اب جبکہ یہ رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ کرونا وائرس کا قریب ترین وائرس ووہان انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ رکھا جا رہا ہے تھا لیکن یہ سارس سے زیادہ مشابہہ نہیں مانا جا رہا تھا، سائنسدانوں کی جانب سے اس ممکنہ صورت حال پر سوال کیے جا رہے ہیں۔

فلنڈرز یونیورسٹی ایڈلیڈ کے نکولائی پیٹروسکی نے دی سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ 'اگر آپ کو سچ میں لگتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی نیا وائرس ہے جس کی وبا نے انسانوں کو قتل کیا ہے تو آپ سب کچھ کریں کیونکہ ان کی وہاں موجودگی کی وجہ یہ تھی کہ اس کی وجہ تلاش کی جا سکے۔ چاہے اس کے لیے ایک نمونے کے بعد مزید نمونے لینے وہاں جانا پڑتا۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت