اکثر وبائیں چین سے کیوں پھوٹتی ہیں؟

کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی توجہ چین میں جنگلی جانوروں کی تجارت پر مرکوز ہوئی ہے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین میں نایاب جنگلی حیات کے پھلتے پھولتے غیرقانونی  کاروبار نے عالمی صحت کو خطرے میں ڈالا ہو۔

ہوانان مارکیٹ کو اب مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے (اے ایف پی)

یہ ووہان شہر کی ہوانان منڈی ہے، یہاں جنگلی جانور بکتے ہیں۔ یہ جانوروں کی منڈی ہی نہیں، آپ اسے ایک منی چڑیا گھر سمجھ سکتے ہیں جہاں بھانت بھانت کے جانور پنجروں میں بند ہیں اور یہ پنجرے ایک دوسرے کے اوپر دھرے ہوئے ہیں۔ کھلی فضا میں دھرے ان پنجروں نے تنگ گلیاں بنا دی ہیں جن میں گاہک گھومتے پھرتے ہیں اور چٹوں پر قیمتیں پڑھ کر مول تول کر اپنی پسند کا جانور ذبح کروا کر ساتھ لے جاتے ہیں۔

ایسی مارکیٹوں کو ویٹ مارکیٹ (wet market) کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں زندہ جانور فروخت کیے جاتے ہیں اور انہیں گاہکوں کی نظروں کے سامنے ذبح کرکے کھالیں اتاری جاتی ہیں اور  ان کی بوٹیاں کی جاتی ہیں۔  آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس دوران لہو اور دوسری رطوبتوں کی دھاریں نکل نکل کر فضا میں پھیلتی ہوں گی۔

اس منڈی میں جانور کس حال میں رہتے ہیں؟ آپ نے فارمی مرغیوں کے فارموں یا دکانوں پر ایسے پنجرے دیکھے ہوں گے جن میں گنجائش سے سو گنا زیادہ مرغیاں لدی ہوتی ہیں جیسے یہ کوئی جیتی جاگتی مخلوق نہ ہوں بلکہ اینٹ پتھر ہوں۔ نیچے والی مرغیاں اوپری چھتوں میں مقیم اپنی ہم جنسوں کی آلائشوں میں لتھڑی سر اٹھانے کی ہمت سے بھی محروم ہو جاتی ہیں اور ان کی واحد مکتی گردن پر چلتی قصائی کی چھری جو انہیں اس ’نازندگی‘ کے عذاب سے رہائی دلاتی ہے۔

اب  فارمی مرغیوں کے انہی ڈربوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووہان کی اس مارکیٹ کو ذہن میں لائیے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں صرف مرغیاں نہیں ہیں،  شیشے کے ٹینکوں میں ہر رنگ، نسل اور جسامت کے جھینگے، لابسٹر، لچکیلی ایل مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ یہی نہیں، یہاں سانپ بھی برائے فروخت ہیں، اور اژدہے بھی، اودبلاؤ بھی، مشک بلاؤ، چوہے، بجو، کچھوے، جنگلی بلیاں، گیدڑ، لومڑیاں، خرگوش، بچھو، نیولے اور جی ہاں چمگادڑیں اور پینگولن نامی چیونٹی خور، چھلکے دار جانور بھی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جنگلی حیوان ہیں، ان کی فطرت کھلے دشتوں، وسیع میدانوں اور شاداب جنگلوں کی عادی ہے۔ جب انہیں اپنے بچوں، والدین، ساتھیوں، دوسرے ہم جنسوں سے دور کر کے بند کر دیا جاتا ہے اور ممکنہ طور پر بالکل ساتھ والے پنجرے میں کوئی ایسا خونخوار جانور  ہو سکتا ہے جس سے یہ بیچارہ کوسوں  دور بھاگتا تھا، تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب حالات اس جانور کو کتنے  شدید جسمانی اور ذہنی دباؤ کا شکار  بنا دیتے ہیں۔  اس ماحول میں ان کی بھوک پیاس  اڑ جاتی ہے اور وہ  بہت جلد اپنی وحشی صحت کھو کر لاغر ہو جاتے ہیں۔ یہ سارے عوامل مل کر ان کے مدافعتی نظام کو تہ و بالا کر دیتے ہیں اور جانور جلد ہی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو کر خطرناک جراثیم کی آماج گاہ بن جاتے ہیں۔

اب تصور کیجیے کہ اوپر کے پنجرے میں اودبلاؤ بند ہے، اس کے عین نیچے کوئی کچھوا لیٹا ہے، اس سے نیچے والے پنجرے میں اژدہا  بل کھا رہا ہے اور اس سے نیچے جنگلی بلی اپنی سلاخ دار قبر میں بے قرار ہے، اسی طرح سے نچلی منزلوں میں دوسرے حیوان بند ہیں اور قصائی کے ٹوکے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب اوپر سے جو بھی آلائش گرتی ہے، بول و براز، نزلہ، خون، قے، پیپ یا کسی اور شکل میں، وہ نیچے والے پنجروں میں ٹپکتی، بہتی سب کو آلودہ کرتی  جاتی ہے۔

اس سے بھی آگے چلیں تو جس ٹوکے سے اودبلاؤ کو ذبح کیا گیا ہے، اسی سے چمگادڑ کا گلہ کاٹا جاتا ہے، پانچ منٹ بھی اسی سے کچھوے کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ جس جگہ یہ سارا کاٹا پیٹی ہوتی ہے، کون جانے وہاں روزانہ کتنی نسلوں کے حیوانوں کو خون آپس میں ملا کرتا ہے۔

دنیا جہان کے جنگلی جانوروں کی یہی ’وحشی منڈی‘ وہ مثالی ماحول ہے جہاں موذی جراثیم ایک نوع سے دوسری میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ ’لیبارٹری‘ ہے جہاں نت نئے وائرس جنم لیتے، پنپتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ 

چمگادڑ سے پینگولن اور پھر انسان تک چھلانگ

اب آ جائیے حالیہ کرونا (کورونا) وائرس پر، جس کا باقاعدہ نام سارس کو وی 19 ہے۔ اس وائرس کا 96 فیصد جینیاتی مواد چمگادڑوں میں پائے جانے والے کرونا وائرسوں سے مشابہ ہے۔  سائنس دانوں نے کرونا وائرس کا کھرا چمگادڑوں میں نکالا ہے، خاص طور پر نعل کی شکل والی چمگادڑ میں، جس میں حالیہ وبا پھیلانے والے وائرس سے ملتے جلتے وائرس پائے جاتے ہیں۔

البتہ ان وائرسوں کے خول پر وہ مخصوص کانٹے (سپائیک) نہیں ہوتے جو حالیہ کرونا وائرس کی پہچان ہیں۔ ان کانٹوں کے بغیر یہ وائرس انسانی خلیوں کے اندر نہیں داخل ہو سکتا، اس لیے انسانوں کے لیے بےضرر رہتا ہے۔ یہ کانٹے انسانی خلیوں پر موجود خصوصی ’کھڑکیوں‘ کے ساتھ چپک جاتے ہیں، کھڑکی کھل جاتی ہے اور یہ خلیے کے اندر داخل ہو جاتے ہیں، اور یوں قلعہ فتح ہو جاتا ہے۔

ہانگ کانگ کی دو یونیورسٹیوں کے سائنس دانوں نے چند پینگولن جانوروں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وہ چمگادڑوں کے کرونا وائرسوں اور سارس کو وی 2 کے بین بین ہیں اور ان کا جینیاتی مواد سارس کو وی 2 سے 99 فیصد مشترک ہے۔ فی الحال حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہیہ جام کرنے والا وائرس ووہان کی اسی جانور منڈی میں  پہلے چمگادڑ سے پینگولن میں منتقل ہوا اور پھر وہاں سے مزید جینیاتی چھلانگیں لگا کر انسانوں تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔  

 یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جنگلی جانوروں کی کسی منڈی سے وبا دنیا میں پھیلی ہو۔ 2003 میں جنوبی چینی شہر فوشان کی ایک ایسی ہی ایک منڈی سے سارس وائرس انسانوں میں منتقل ہو کر 29 ملکوں تک پھیلا تھا اور 774 لوگوں کی زندگیاں لے گیا تھا۔ اس بار یہ وائرس چمگادڑ سے مشک بلاؤ نامی جانور (civet) میں گیا اور پھر وہاں سے انسانی وبا کا باعث بنا۔

بیسویں صدی کی تاریخ پڑھیے تو پتہ چلے گا کہ 1957 میں چین کے شہر گویژو سے ایک نئی قسم کے انفلوئنزا نے دنیا کو  لپیٹ میں لے لیا تھا اور امریکی ادارے سی ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 11 لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا تھا۔

’سب سے زیادہ وبائیں پھیلانے والی سرزمین‘

اس سے بھی پیچھے چلے جائیں، بلکہ کئی صدیاں پیچھے چلے جائیں تو آپ کو علامہ موفق الدین بغدادی کا قول ملے گا، جو 1231 میں فوت ہوئے تھے۔ علامہ موفق طبیب تھے اور ان کا شمار دنیا کے ان اولین سائنس دانوں میں ہوتا ہے جو پوسٹ مارٹم کر کے موت کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’طبائع البلدان‘ میں لکھا ہے: ’چین سب سے زیادہ وبائیں پھیلانے والی سرزمین ہے۔ یہ مختلف قسم کے طاعونوں اور مہلک امراض کی آماج گاہ ہے اور یہاں کے باسی ان سے بہت زیادہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم اختصار کی خاطر علامہ موفق کے دور میں نہیں جائیں گے اور اپنی توجہ حالیہ عشروں تک محدود رکھیں گے۔ اس دوران ہم اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ چین میں جنگلی جانوروں کی مارکیٹیں کیوں پائی جاتی ہیں؟

بڑی وجہ چینی حکومت کا وہ فیصلہ ہے جو اس نے 1978 میں کیا تھا۔ اس زمانے میں چین میں قحط سالی تھی اور حکومت کو اپنی 90 کروڑ آبادی کا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا تھا، اس لیے اس نے عوام کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ چھوٹے پیمانے پر جانور پالنا شروع کر دیں۔

چین کے بعض حصوں میں ہر طرح کے جانور کھانے کا رواج ہے، اس لیے ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے اصول کے تحت جلد ہی لوگوں نے جنگلی جانور پکڑ کر ان کا گوشت بیچنا شروع کر دیا۔  رفتہ رفتہ یہ کاروبار پھیلتا چلا گیا اور لوگوں نے حیوانوں کی فارمنگ شروع کر دی۔

ایک اور محرک کے پیچھے چینی طب کا وہ ’سنہرا‘ اصول تھا جس کے تحت بعض جنگلی جانوروں کا گوشت قوتِ باہ میں اضافہ کرتا ہے۔ اس غلط تصور نے اس کاروبار کو مزید تقویت بخشی اور یہ چین کے بہت سے علاقوں میں پھیل کر باقاعدہ صنعت کی صورت اختیار کر گیا۔

صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن گذشتہ اکتوبر میں رسالے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ چین میں ہر سال جانوروں کی 5600 انواع کا کاروبار ہوتا ہے۔ 

یہ دنیا میں پائے جانے والے ریڑھ کی ہڈی کے کل جانوروں کا 20 فیصد ہے!

ممنوعہ جانوروں کی پھلتی پھولتی صنعت

2018 میں چین میں جنگلی حیوانات کی فارمنگ کی انڈسٹری 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور اس کے آڑھتیوں کا سیاسی اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے دو سال قبل بیجنگ میں لابی انگ کرکے دھاری دار شیر اور پینگولن جیسے ممنوعہ جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی ختم کروا ڈالی۔

پینگولن کے بارے میں  یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا گوشت بہت ’گرم‘ ہوتا ہے، اس لیے یہ شرمیلا اور شبینہ والا جانور ملکوں ملکوں سے  پکڑ کر چین پہنچایا جانے لگا۔ انہی میں پاکستان بھی شامل ہے کیوں کہ یہ جانور پاکستان کے بعض علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایک پینگولن 25 ہزار کا بکتا ہے جو چین پہنچ کر دس لاکھ کا ہو جاتا ہے، جبکہ اس کے چھلکوں کی قیمت چینی مارکیٹ میں ساڑھے چار لاکھ روپے کلو تک ہے۔

ظاہر ہے کہ اتنا مہنگا گوشت عام چینی کی پہنچ سے باہر ہے۔ ان نادر حیوانوں کے خریدار چینی ارب پتی ہیں، جو ان کمزور جانوروں کو اپنی قوت کا سبب گردانتے ہیں۔

دیر آید درست آید کے مصداق،  چینی حکومت نے 24 فروری کو ملک بھر میں جنگلی جانوروں کی ہزاروں منڈیوں پر پابندی لگا دی تھی اور ان کا گوشت بیچنا اور کھانا غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ بعد میں ویت نام نے بھی اسی قسم کا قانون منظور کیا ہے۔

ووہان کی ہوانان مارکیٹ کو مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور اس کے اندر پائے جانے والے تمام جانوروں کو تلف کر دیا گیا ہے، تاہم تشویش ناک طور پر دوسرے علاقوں میں اسی قسم کی منڈیاں دوبارہ کھل رہی ہیں۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق جونہی لاک ڈاؤن ختم ہوا، ڈونگوان کے علاقے کی منڈی کھل گئی اور وہاں اسی زور و شور سے کاروبار ہونے لگا ہے، ’صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ اب سکیورٹی گارڈ لوگوں کو تصویریں نہیں کھینچنے دیتے۔‘

ستم ظریفی دیکھیے کہ چین اور لاؤس میں چند ویب سائٹیں کرونا وائرس کی بیماری کے علاج کے گینڈے کے سینگ اور دوسرے جنگلی جانوروں کے جسم کے حصوں پر مشتمل نسخوں کا کاروبار کر رہی ہیں۔

 2003 میں سارس کے بعد چین نے مشک بلاؤ کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی لیکن اگلے ہی سال اسے اٹھا لیا گیا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ چینی حکومت اس بار زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔

اگر ایسا نہ ہوا تو پھر علامہ موفق نے آٹھ سو سال قبل جو مشاہدہ کیا تھا، دنیا کو ایک بار پھر اس کی صداقت سے گزرنا پڑے گا۔


ماخذات: واکس، نیو یارک ٹائمز، نیوز ویک، اے ایف پی، بزنس انسائیڈر، نیو سائنٹسٹ، 60 منٹس، ریئل سائنس، ڈیلی میل

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت