طویل عرصے سے ان کے حسن اور تیز رفتاری کی مداح ایملی فوسٹر کا جب پہلی بار دو چیتوں سے سامنا ہوا تو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں اسے ایک عجیب والہانہ کشش کا احساس ہوا۔ ایک کی ٹانگ زخمی دیکھ کر اس نے تکلیف کم کرنے کے لیے خوراک اور پانی سامنے لا کے رکھ دیا۔ دوسرا پرتجسس اور چوکس تھا جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایملی تھپکی دیتے ہوئے ہاتھ پھیرنے لگیں تو اس کی مخملی کھال محسوس اور خرخراہٹ سنائی دینے لگی۔
ایملی کے سامنے چیتوں کا ٹھکانہ ایک شیشے کی دیوار کی صورت میں موجود تھا جس پر کچھ لکھا ہوا نظر آیا۔ ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جب اس نے دوبارہ نظر ڈالی تو اس بار تحریر کا متن مختلف تھا۔ اس وقت ایملی کو احساس ہوا کہ وہ اپنا پہلا شفاف خواب دیکھ رہی ہے اور جیسا کہ اس میں ہوتا ہے وہ دوران خواب بیدار اور اس سے آگاہ ہے۔
ایملی ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ہر چیز یہاں تک کہ رنگ بھی بالکل واضح تھے اور مجھے علم تھا کہ میں خواب میں ان خوبصورت جانوروں سے پیار کر رہی ہوں لیکن دائیں بائیں سب کچھ بہت صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہ بہت مزے کی مہم جوئی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی میں بہت پرجوش تھی۔ میرے لیے ایک جگہ ٹِک کر بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ سچ میں ایسی زبردست کیفیت ہے جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں۔‘
شفاف خواب کے فن یا زیادہ صحیح الفاظ میں اس کی سائنس پر دسترس حاصل کرنا بہت آسان نہیں لیکن ایک بار یہ مرحلہ طے ہو جائے تو خواب دیکھنے والا شخص کسی حد تک اپنی خواب پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔ کوئی ماہر تجربہ کار روشنی کی رفتار سے ستاروں تک سفر کر سکتا ہے، آپ تصوراتی شہروں کی فضا میں اڑ سکتے ہیں یا اپنی محبوب ترین جنسی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیند کے متعلق تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق 55 فیصد افراد کم سے کم ایک بار ضرور شفاف خواب کے تجربے سے گزرتے ہیں لیکن اکثریت کو علم نہیں کہ واقعی کوئی ایسی ثابت شدہ چیز موجود ہے۔ تاہم اب شفاف خواب لوگوں کے شعور میں اپنی جگہ تیزی سے بنا رہے ہیں بالخصوص وبا کے دوران پرتجسس اور اکتاہٹ کا شکار افراد نیٹ فلیکس سے ہٹ کر تفریح کے نئے ذرائع چاہتے ہیں۔
وائرڈ میگزین میں گذشتہ دنوں چھپنے والی ایک تحریر کے مطابق پہلے لاک ڈاؤن کے دوران گوگل پر شفاف خواب سرچ کرنے والے افراد کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوا۔ ’شفاف خواب کیسے دیکھیں؟‘ اس سوال کی تلاش پہلے سالوں کی نسبت گذشتہ سال 90 فیصد تک بڑھ گئی۔
اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ’شفاف خواب ماسک‘ سرچ کرنے والوں کی تعداد 250 فیصد بڑھی ہے اور یہ اس لیے اہم پیش رفت ہے کیونکہ علم الاعصاب کے ماہرین ایسے ماسک، آلات اور تدابیر مہیا کرنے کے دعوے کر رہے ہیں جن سے شفاف خواب کے امکانات کافی حد تک روشن ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بہت سی نزاکتیں دریافت ہونا ابھی باقی ہیں اور کچھ ماہرین اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات اور نقصانات کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
شفاف خواب کوئی نئی چیز نہیں۔ صوفیا اور فلسفی صدیوں سے اس کے متعلق بتاتے چلے آ رہے ہیں۔ بالعموم ایسا مانا جاتا ہے کہ ارسطو وہ پہلا شخص تھا جس نے 350 قبل از مسیح اپنے رسالے خوابوں کی دنیا میں شفاف خواب کا کچھ یوں ذکر کیا، ’نیند کے دوران شعور ہمیں بتاتا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ محض خواب نہیں ہے۔‘
1968 میں برطانوی فلسفی اور نفسیاتی و طبیعیاتی محقق سیلیا گرین نے اپنی کتاب ’شفاف خواب‘ میں دعویٰ کیا کہ یہ اس وقت آتے ہیں جب ہم نیند میں مسلسل پلکیں جھپکنے کے مرحلے (آر ای ایم سٹیج) پر ہوتے ہیں اور یہ ایسا مرحلہ ہے جس میں دماغ اسی طرح کام کرتا ہے جیسا بیداری کی حالت میں کرتا ہے اس لیے اس وقت خواب پوری شدت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
1975 میں نفسیات دان ڈاکٹر کیتھ ہیرن ہل یونیورسٹی میں منعقدہ انوکھا تجربہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے الیکٹروکولو گرام (EOG) آلے کی مدد سے ایلن ورسلی نامی شفاف خواب دیکھنے والے شخص کی رضا مندی سے نیند کے آر ای ایم مرحلے میں خواب کے دوران ان کی پلکوں کی حرکت ریکارڈ کر لی۔ یہ پہلا تجربہ تھا جس میں ایک انسان نے خواب دیکھتے ہوئے باہر موجود کسی دوسرے شخص سے بات چیت کی۔
بعد میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں ہیرن بتاتی ہیں کہ 'ایسا لگ رہا تھا جیسے سگنلز نظام شمسی کے کسی اور سیارے سے آ رہے ہیں۔ میں نہایت جذباتی کیفیت سے دوچار تھی لیکن متعلقہ شخص کی نیند برقرار رکھنے کے لیے میں نے چپ سادھ رکھی تھی۔ یہ انتہائی شاندار اور حیرت انگیز تجربہ تھا۔ میں دوسرے کمرے میں سوئے ہوئے ایک شخص کی گفتگو سن رہی تھی جو شعور کی حدوں سے نکل کر خواب کی دنیا میں داخل ہو چکا تھا لیکن وہ دنیا اس کے لیے بڑی واضح تھی جس میں وہ پوری توجہ سے باقی لوگوں کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔
’وہ اپنی حقیقت میں کھو چکا تھا۔ میں اپنی حقیقت میں تھی۔ ان دو حقیقتوں کے درمیان اک ربط کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا۔‘
ان کا یہ کام بعد میں ایک سوسائٹی فار فزیکل ریسرچ رسالے میں شائع ہوا جس سے بعد میں نیند کے متعلق تحقیق کرنے والے افراد نے استفادہ کیا۔ ان کا اصل اشاراتی نقشہ لندن کے سائنس میوزیم میں مستقل طور پر لگا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی وہ ڈریم مشین بھی وہاں موجود ہے جو انہوں نے اس امید پر تیار کی تھی کہ ان کی تجربہ گاہ میں آنے والے افراد اس کی مدد سے شفاف خواب دیکھ سکیں گے۔
یہ اپنی طرز کی پہلی مشین ضرور تھی لیکن آخری ہرگز نہیں۔ نوے کی دہائی میں سائیکو فزیوالوجسٹ ڈاکٹر سٹیون لابرگے نے ’ڈریم لائیٹ‘ نامی ایک آلہ تیار کیا جس کے بعد ایسی مشینوں کا ڈھیر لگ گیا۔
ڈریم مشین اور ڈریم لائیٹ ایک ہی طرح سے کام کرتی ہیں اگرچہ ڈریم لائیٹ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کہیں زیادہ جدید ہے۔ تجربہ گاہ میں جب لوگ نیند کے آر ای ایم مرحلے میں پہنچ کر خواب کی دنیا میں داخل ہو جائیں تو یہ آلہ اس حقیقت کو تبدیل کر دیتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں اور اس طرح انہیں آگاہ کرتے ہوئے عام خواب کو شفاف خواب میں بدل دیتا ہے۔ ڈریم مشین انہیں کلائی پر چار برقی جھٹکے دیتی ہے جس کے متعلق انہیں پہلے ہی آگاہ کیا جا چکا ہوتا ہے کہ یہ چار لفظوں کا متبادل ہو گا: یہ ایک خواب ہے۔
ڈریم لائیٹ (جس کی مزید جدید شکل نوا ڈریم کی صورت میں اب آ چکی ہے) خواب دیکھنے والے شخص کی آنکھوں پر پٹی کی طرح موجود ہوتی ہے جس کی تیز روشنی پلکوں پر پڑتی ہے اور خواب کی شدت کو بڑھا دیتی ہے۔ متعلقہ شخص کو پہلے سے خبردار کر دیا جاتا ہے کہ خواب کے دوران جب وہ تصوراتی طور پر چاند، کار یا گلی کے بلب کی روشنی دیکھے تو اس کا مطلب ہے وہ حالت خواب میں ہے اور اس بات سے آگاہ ہوتے ہوئے وہ شفاف خواب تک پہنچ جاتا ہے۔
روشنی اور برقی جھٹکے کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات خوشبو اور آواز کے ذریعے شفاف خواب کا عمل شروع کرتے ہیں اور کم و بیش یہ سبھی مختلف طریقے کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے پہلے کیس کی نشاندہی سے چند ماہ قبل 2019 میں برطانوی اور برازیلی ماہرین تعلیم نے شفاف خواب بین سمیت جیبی مشینوں اور ان کے قابل اعتماد ہونے کے حوالے سے ایک طویل مضمون شائع کیا جس میں ایسے دس آلات کا جائزہ لیا گیا تھا جو اپنے دعوے کے مطابق شفاف خواب دکھانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے ڈریم لائیٹ اور نوا ڈریمر جیسے قدیم اور ارورا، ریمی، آر ای ایم ڈریمر، زمیکس، نیورون، آئی بینڈ، لوسڈ کیچر اور الاڈن جیسے جدید ترین آلات کا بھر پور تنقیدی جائزہ لیا۔
ان میں 900 ڈالرمالیت کی سب سے عمدہ مشین زیمیکس دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں آنکھوں کی گردش، دماغی سرگرمی، درجہ حرارت، سانس، جسم کی حرکت، روشنی کے احساس اور قوت سامعہ بیدار کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان میں 65 ڈالر مالیت کی سستی ترین مشین ریمی ماسک ہے جو مخصوص وقت پر یہ توقع کرتے ہوئے روشنی ڈالتی ہے کہ اسے پہننے والا شخص اب آر ای ایم کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ بہت سارے محققین کے لیے یہ اس قدر معمولی آلہ ہے کہ وہ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے۔ (اسے تیار کرنے والی کمپنی سے میں نے رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ ملا)۔
محققین کے مطابق مہنگے اور سستے ترین آلات میں سے اکثریت کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے۔ بعض پوری طرح کارگر نہیں، کچھ پر مزید محنت کی ضروری ہے، انہیں تیار کرنے والی کمپنیاں مالی مسائل کی وجہ سے مارکیٹ تک نہیں پہنچ سکیں یا ان کے برقی جھٹکے اس قدر ہلکے ہیں کہ ان کے اثرات بمشکل معمولی سے محسوس ہوتے ہیں۔
جب دس آلات کے متعلق جائزہ رپورٹ مئی 2019 میں پیش کی گئی تھی اس وقت ایک مشین موجود ہی نہ تھی، ایک استعمال شدہ ملی، چار ابھی تک مارکیٹ میں پہنچی ہی نہیں تھیں، ایک کی ابھی تک پیشگی بکنگ کا اجرا ہوا تھا اور محض تین ایسی تھیں جو مارکیٹ میں نرخوں کے عوض دستیاب تھیں۔ کسی بھی شخص کے لیے ثابت شدہ شفاف خواب مشین کی دستیابی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا آسان نہ تھا۔
مضمون کے مصنفین میں سے ایک اکیلاس پاولو نیوروسائیکالوجسٹ اور ایسیکس یونیورسٹی سے وابستہ شفاف خواب کے محقق نے کسی فرد کی نیند کے سلسلے کو سمجھنے لیے اپنے خود ساختہ نیند کے نقشہ جات اور اس کے ساتھ زمیکس کے استعمال سے نہایت کارآمد نتائج اخذ کیے۔ ان کے الفاظ میں وہ بیرونی محرک کے ذریعے اندرونی فضا کو زیادہ سے زیادہ تبدیل کر کے لوسڈ خواب کو ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ 55 فیصد کامیابی کی شرح کا دعوی کرتے ہیں جو بہت زیادہ ہے۔
پاولو کہتے ہیں، ’شفاف خواب میں بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک اہم وجہ فلم ’انسیپشن‘ (جس میں چور متعلقہ شخص کے تحت شعور میں داخل ہو کر اس کے خفیہ راز چرا لیتا ہے) جیسی فلمیں ہیں۔ میرا خیال ہے اس کی مقبولیت میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا بھی اہم کردار ہے۔ شفاف خواب ایک تجربہ ہے اور لوگ ہمیشہ نئے تجربات سے گزرنا پسند کرتے ہیں۔
فٹ بِٹ اور ڈریم جیسی کئی ایپس پہلے سے انٹرنیٹ پر موجود ہیں جو نیند کے نظام کو ماپتے اور بہتر نیند کے طریقے بتاتے ہیں۔ لیکن ایسا آلہ جو قابل اعتماد طور پر شفاف خواب سے ہمکنار کروائے میرا خیال ہے کوئی بھی نہیں ہے۔ زیمیکس بہت سارے ایسے آلات مہیا کرتا ہے جن کی نیند کے متعلق تحقیق کرنے والے افراد کو ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے استعمال کے لیے مخصوص لائحہ عمل درکار ہوتا ہے جو اپنی پیچیدگی کے باعث عام خریدار کے لیے اپنانا شاید ممکن ہی نہیں۔
لوگوں کے لیے من مرضی کا خواب دیکھنا ایک بہت پرکشش چیز ہے۔ اس لیے لوگ کمپنیوں کے تیار کردہ ایسے آلات خریدنے کے لیے کھلے دل سے پیسہ خرچ کریں گے جو محض پہن لینے سے شفاف خواب کی جانب سفر شروع ہو سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک یہ منزل نہیں آئی لیکن ہم بہت قریب ہیں۔ اب محض کچھ عرصے کا سفر باقی ہے۔‘
لوگوں کی شفاف خواب میں بڑھتی ہوئی رغبت کا ثبوت اسے تیار کرنے والی کمپنیوں اور افراد کے دعوے کی بنا پر عوام کا خطیر چندہ دینا ہے۔
مثلاً پاولو کے لکھے گئے مضمون میں جن آلات کا جائزہ لیا گیا ان میں سے تین ایسی ہیں جو کک سٹارر کے پلیٹ فارم کے ذریعے عوام سے جمع کی گئی امدادی رقم سے تیار کی گئی تھیں۔
ارورا ڈریم بینڈ Aurora Dreamband کو تیار کرنے والی کمپنی آئی ونک iWink نے دعوی کیا کہ وہ شفاف خواب کا عمل آسان کرے گی۔ یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ ابتدائی آلہ جات فروری 2014 تک مہیا کر دئیے جائیں گے انہیں نے 2013 میں 239,000 ڈالر جمع کر لیے۔ تاہم اس کے متعلق آخری خبر اپریل 2018 میں کک سٹارر پیج پر ملتی ہے جس کے مطابق کمپنی اپنی ویب سائیٹ پر پیشگی آڈر لے رہی ہے لیکن اب یہ ویب سائیٹ موجود ہی نہیں ہے۔
نیورون شفاف خواب بین آلہ تیار کرنے والی کمپنی نے 2017 میں کم و بیش 2,000 معاونین سے 438,000 ڈالر اکٹھے کیے۔ حال ہی میں 450 یورو والے سلیپ ٹریکر کے لیے کک سٹارر نے اپنی دوسری مہم میں 2,000 معاونین سے 356,000 ڈالر کی رقم جمع کی ہے۔
گذشتہ سال چندے سے دس لاکھ ڈالر کی امداد جمع کرنے کے بعد 379 ڈالر آئی بینڈ پلس ہیڈ بینڈ کی رونمائی کی گئی۔ اسے تیار کرنے والی کمپنی ارینر نے اسے EEG brain-sensing headband قرار دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں وعدہ کیا کہ یہ نیند اور شفاف خواب کی صلاحیت بہتر کرے گی لیکن ویب سائیٹ پر بطور ثبوت کسی قسم کا طبی ریکارڈ موجود نہیں۔ میں نے ارورا، نیورون اور آئی بینڈ پلس تیار کرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کیا لیکن کسی نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔
یوٹیوب اور انٹرنیٹ پر بہت سے آلہ جات، نسخے اور گُرو شفاف خواب کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں جو بعض اوقات ایک رات یا اسی لمحے میں ممکن کر دکھانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن اب تک کیے گئے تجربات کے مطابق ایسا کوئی تیر بہدف آسان نسخہ ہے نہیں۔
شفاف خواب سکھانے والے مشہور کوچ اور خوب بکنے والی کتاب ’کیا آپ خواب دیکھ رہے ہیں؟‘ کے مصنف ڈینیل لو خواب آور آلہ جات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے خوابوں میں سیاروں کے ارد گرد چکر نہیں لگا رہا ہوتا (وہ خلا بازی کا بہت شوقین ہوتا ہے) تو وہ اپنا بہت سارا وقت یوٹیوب چینلوں پر بیٹھے شفاف خواب کے عطائیوں کو سننے میں صرف کر دیتا ہے جو بالکل بے تکے دعوے اور بے کار نسخے بتاتے ہیں۔
لو کہتے ہیں، ’اگر کوئی شفاف خواب کا یقینی وعدہ کرتا ہے، بہت جلد اور مختصر ترین عمل کے ذریعے اس کے امکان کی بات کرتا ہے تو وہ آپ سے جھوٹ بولتا ہے۔ ابھی تک شفاف خواب کے لیے کوئی جادوئی نسخہ دریافت نہیں ہوا۔ یہ سخت محنت طلب کام ہے۔ اگر آپ شفاف خواب کی دنیا میں نو وارد ہیں تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ اتنا بھی مشکل نہیں۔ لیکن یہ ایسا نہیں جو فوری نتیجہ خیز ہو سکے۔‘
یوٹیوب پر ہزاروں ایسی ویڈیوز موجود ہیں جو شفاف خواب کا راستہ دکھانے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر سستی اشتہار بازی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی بھی ویڈیو جس میں آسانی سے، ایک ہی رات، ایک یا پانچ منٹوں میں شفاف خواب کا وقوع پذیر ہونا بتایا جائے سمجھو وہ غلط بیانی ہے۔
شفاف خواب ایک پیچیدہ صلاحیت ہے اور کسی بھی دوسری پیچیدہ صلاحیت کی طرح اس میں بھی مہارت حاصل کرنے کے لیے وقت اور محنت درکار ہے۔ اسے ایسے ہی سمجھ لیجئیے جیسے کسی آلہ موسیقی کا سیکھنا ہو۔ صحیح مشق کے ساتھ زیادہ تر لوگوں کو ایک سے چار مہینے کے عرصے میں جا کر شفاف خواب کا پہلا تجربہ ہونا ممکن ہے۔ مستقل شفاف خوابر بننے کے لیے زیادہ وقت اور مشق درکار ہو گی۔ اوسطً اس صلاحیت پر مکمل دسترس کے لیے کم از کم ایک سال کی شدید محنت ضروری ہے۔'
سٹیون لابرگے (امریکی سلیپ ریسرچر جنہوں نے ڈریم لائیٹ کا ڈیزائن تیار کیا) دو قسم کے شفاف خوابوں کی نشاندہی کرتے ہیں: ویک انیشیٹڈ شفاف خواب (وی آئی ایل ڈی ایس) اور ڈریم انشیٹڈ شفاف خواب (ڈی آئی ایل ڈی ایس)۔ یہ شفاف خواب میں داخل ہونے کے دو دروازے ہیں۔ وی آئی ایل ڈی سی اس وقت واقع ہوتی ہے جب انسان شعوری طور پر خواب دیکھنے کے لیے سوتا ہے اس طرح شفاف خواب کا آغاز بیداری سے ہی ہو جاتا ہے۔ ڈی آئی ایل ڈی ایس اس وقت واقع ہوتے ہیں جب انسان خواب کے دوران اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اس طرح شفاف خواب خواب کے اندر شروع ہوتا ہے۔
لو کہتے ہیں وی آئی ایل ڈی سی اور ڈی آئی ایل ڈیز تک پہنچنے کے لیے ہزاروں غیر ثابت شدہ طریقے موجود ہیں لیکن ان کے بقول چار بنیادی اصول ہیں جو اکثر کارگر ثابت ہوتے ہیں۔
1 خوابوں کو ڈائری میں لکھنا۔ یہ طریقہ خواب یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے، ان کی باریکیوں سے آگاہ کرتا ہے، ان کے خد و خال واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ حالت بیداری سے مختلف کیسے ہیں۔ اگر آپ بار بار دکھائی دینے والے خوابوں کے متعلق لکھ رہے ہوں تو ممکن ہے جب دوبارہ آپ یہی خواب دیکھیں تو اس دوران میں جان جائیں کہ یہ تو خواب ہے۔
2 حقیقت کی جانچ پڑتال کا باقاعدہ عمل۔ یہ عمل کسی بھی طریقہ کار کا حصہ ہوتا جس میں آپ مسلسل جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ آپ سو رہے ہیں یا جاگتے ہیں۔ مثال کے طور پر دن میں جب بھی کوئی خلاف معمول، غیر منطقی یا خواب نما صورت حال پیدا ہو آپ اپنی ناک کو پکڑ کر دبائیں اور سانس لینے کی کوشش کریں۔ جب آپ جاگ رہے ہوں گے ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن اگر یہ عادت آپ کے خوابوں میں منتقل ہوجائے جہاں خلاف معمول اور غیر منطقی واقعات عام ہیں اور آپ خواب میں اپنی ناک دبائیں تو آپ سانس لے سکیں گے اور اس طرح آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت جانچنے کا ایک اور سادہ طریقہ یہ ہے کہ اپنے اردگرد کسی تھرتھراتی یا لغو شے کا تنقیدی جائزہ لینا شروع کر دیں جیسا کہ کسی متن کو الٹا پڑھنا، ہندسی گھڑیوں کا عجیب بے ڈھنگا پن یا اشیا کا رنگ بدلنے یا اڑنے جیسا مافوق الفطرت کام یا کوئی بھی ایسا کام جو جاگتے ہوئے ناممکن ہو ۔ ایملی کے بقول چیتوں کے تجربے میں متن کی تبدیلی سے وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ خواب دیکھ رہی ہیں۔
3 رات کو سوتے ہوئے نیند میں دخل اندازی کے ذریعے ہوشیاری بڑھانے کا عمل ویک بیک ٹو بیڈ ٹیکنیک کہلاتا ہے جو اگرچہ زیادہ تر تجویز نہیں کیا جاتا۔ نیند کے دوران طویل عرصے تک خلل ڈالتے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
4 دوبارہ نیند کی طرف لوٹتے ہوئے کسی چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے شعوری طور پر بیدار رہنا۔ اس کا استعمال ویک بیک ٹو بیڈ یا اچانک آنکھ کھلنے کی صورت میں ممکن ہے۔ زیادہ تر لوگ نیند کے آخری چار گھنٹوں میں آر ای ایم کے طویل دورانیے سے گزرتے ہیں اس لیے بعض شفاف خوابر اس وقت کے لیے الارم لگا دیتے ہیں پھر انتشار توجہ سے بچنے کے لیے اٹھ کر تقریباً بیس منٹ کے لیے بستر سے باہر آجاتے ہیں اور پھر شعوری طور پر بیداری کی حالت میں اس طرح سے سونے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سیدھے آر ای ایم سلیپ میں داخل ہوں۔
یہ اور لو کی دیگر تدابیر 33 سالہ ایملی کے لیے کارگر ثابت ہوئیں (باقی یہاں دیکھی جا سکتی ہیں https://bit.ly/38O8q8h) جو دو مہینے کی مشق کے بعد اب ناروے میں مقیم ہیں۔ یہ 2019 کی بات ہے۔ تب سے لے کر وہ اپنے چیتوں سے کھیلی، فلک بوس عمارتوں سے اونچی اڑیں اور کراماتی تجربات سے گزرتے ہوئے انٹرسٹیلر فلم کے ماورائی کرداروں میں ڈھل گئیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک بار اپنے پرتجسس ہمزاد سے بھی ملیں جس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی جس کے بعد ایملی خود کو مسترد کرتے ہوئے میٹرکس فلم کے انداز میں اپنا کوڈ تبدیل کرتے ہوئے رو پوش ہو گئیں۔
نیو یارک کی 35 سالہ مصنف اور یوگا انسٹرکٹر ٹونی پوریلو کہتی ہیں شفاف خواب سیکھنے سے ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا ۔ اب وہ ہفتے میں دو سے تین مرتبہ یہ تجربہ کرنے کے قابل ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’خواب دیکھتے ہوئے شفافیت کے لمحات میرے لیے ایسے ہیں جیسے آپ کسی فلم کا اہم موڑ دیکھ رہے ہوں اور اچانک کہہ اٹھیں 'او خدایا قاتل تو یہ رہا؟ اب بات پوری طرح سمجھ میں آئی نا۔ آپ چیزیں مختلف انداز میں دیکھنے لگتے ہیں ، پہلے دیکھے ہوئے مناظر کا بغور مشاہدہ کرنے لگتے ہیں اور آپ کا پورا انداز نظر ہی تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ طبیعیاتی طور پر چیزیں زیادہ واضح ہونے لگتی ہیں اور آپ کا جسم روشنی محسوس کرنے لگتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ بالکل حقیقی لگتا ہے جیسے آپ جیتے جاگتے موجود ہوں۔
’شفاف خواب کے دوران میرا پسندید ترین مشغلہ کھانا ہے۔ جو ذائقہ اس وقت محسوس ہوتا ہے وہ بہت شاندار ہے۔ میں نے بادلوں کو کاٹن کینڈی میں تبدیل کر کے کھایا ہے اور جو سبزیاں مجھے ناپسند تھیں انہیں اپنے پسندیدہ ذائقے میں تبدیل کر کے لطف لیا ہے۔ میں نے گوندنیاں اٹھائیں اور جس قدر آپ تصور کر سکتے ہیں ویسی میٹھی گوندنی کھائی۔ یہ واقعی بہت شاندار ہے۔‘
شفاف خواب دیکھنے والے آپ کو بتائیں گے کہ ان سے اکثر خوابوں میں اڑنے اور جنسی عمل سے متعلق سوال کیے جاتے ہیں اس لیے میں بھی ٹونی سے پوچھا کہ ان میں سے کوئی تجربہ ہوا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’مجھے دونوں طرح کے کئی تجربات ہوئے۔ شفاف خواب میں جنسی عمل کے بارے میں عجیب بات یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ویسے ہی نہیں ہوتا جیسا آپ نے منصوبہ ترتیب دیا ہوتا ہے۔ اس میں ہمیشہ لاشعور کا کردار ہوتا ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ۔ مجھے ایسی عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں 'اعضائے مخصوصہ 'کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ مثل کے طور پر ایک بار میں نے ایک مرد کی پینٹ کا بٹن کھولا تو مومی گڑیا کی طرح وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
’مجھے لگتا ہے شفاف خوابوں کے دوران میں کسی بھی طرح کا تجربہ کرنے میں زیادہ آزاد ہوں۔ پچھلے دنوں میں یہ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مرد ہونا کیسا لگتا ہے اور میرے مردانہ اعضا نمودار ہونے لگے۔ پھر مجھے ادراک ہوا کہ عورتوں کے لیے میرے اندر تو رغبت ہی نہیں اس لیے میں ان اعضا کا کیا کروں گی؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میری پینٹ نیچے سرک چکی تھی جب میں بیدار ہوئی۔‘
ایمی اور ٹونی کے مطابق شفاف خواب دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے شوق، مشق اور سخت محنت درکار ہے۔ تو پھر انہوں نے اس مشقت سے بچتے ہوئے مشینوں کے ذریعے شفاف خوابوں تک رسائی کیوں نہ حاصل کی؟
ایملی کہتی ہیں، ’نہیں۔ باقاعدہ طریقے سے سیکھے گئے شفاف خواب کے اثرات بیداری کی حالت میں بھی آپ کی زندگی پر ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ماحول اور خود اپنے بارے میں زیادہ آگاہ اور باخبر ہو جاتے ہیں۔ اس سفر نے مجھے بہتر انسان بنایا ہے۔ میں ہمیشہ سے بہت زیادہ شرمیلی تھی لیکن اب بہت زیادہ پر اعتماد محسوس کرتی ہوں جیسے میں نے اپنے گرد ایک جال بن لیا ہے اس لیے اپنے آپ میں مگن رہنا اچھا لگتا ہے۔‘
ٹونی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’وہ ایک افسوس ناک دن ہو گا جب ایسا آلہ تیار ہو گیا جو اسے پوری طرح قابل عمل بنا دے کیونکہ یہ پورے دن کی مشق اور لوسڈ کیفیت میں گزرنے والے لمحات چھین لے گا جو شفاف خواب کا اصل حسن ہے۔ شفاف خواب سے جو سب سے زیادہ خوبصورت اور قابل ستائش چیز حاصل کی جا سکتی ہے وہ لوسڈ طرز حیات ہے۔ فوری تسکین یہ حسن پوری طرح پر نگل جائے گی۔‘
شفاف خواب کے بہت سے ماہرین جن سے میری بات ہوئی وہ کہتے ہیں کہ انہیں بھی خوابیدہ شخص کے سر پر آلات کے سلسلے میں خاص طور پر اس لیے تشویش لاحق ہے کہ ان میں مختلف اقسام کی لیتھیئم بیٹریاں استعمال کی جائیں گی اور اس پر پہلے سے ہی بہت سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں موجود نیشنل فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن اس مسئلے کے متعلق کہتی ہے کہ ’ان بیٹریوں کی معمولی مقدار بھی نقصان دہ ہے۔ یہ زیادہ گرم ہو سکتی ہیں، آگ لگ سکتی ہے یا پھٹ سکتی ہیں۔ اگرچہ جہاں بیٹریاں ذمہ داری سے چارج کی جاتی ہیں وہاں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن کوئی ایک بھی حادثہ کافی ہو سکتا ہے۔‘
یقیناً شفاف خواب پر حرف آخر اس شخص کی طرف سے ہونا چاہیے جس نے پہلا شفاف خواب آلہ بنایا یعنی ڈاکٹر کیتھ ہیرن۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ڈریم مشین کے جدید انداز عوام میں شفاف خواب منتقل کر سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’تجربہ گاہوں میں ہونے والے تمام تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا بہت گہرا اثر ہے۔ میری تحقیق کے مطابق جن مخصوص افراد پر مشین کے ذریعے شفاف خوابز کا تجربہ کیا گیا انہوں نے یہ ایک خواب ہے کے چار جھٹکوں کو کلائی کے توسط سے محسوس کیا اور بتایا کہ میں نے جھٹکے محسوس کیے اور اب میں خواب میں ہوں۔ اصل بات یہ تھی کہ ان میں سے بعض پر مشین اس طرح لگی ہوئی تھی کہ اس کا سوئچ آن ہی نہیں کیا گیا تھا ۔ سو ان کے لیے خالی ڈبہ جس میں کچھ روشنیاں اور بٹن لگے ہوئے تھے متاثر کن رہا۔
’یہ آلات تضاد کا شکار ہیں۔ یہ واشنگ مشین کی طرح نہیں ہیں جو واضح طور پر کام کرتی ہے یا نہیں کرتی۔ یہ نفسیاتی اثرات کی وجہ سے کام کیے بغیر بھی کام کرتے ہیں اس لیے اگر وہ بالواسطہ کام کرتے ہیں تو خوف ذدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کچھ روشنیوں اور بٹنوں والے خالی ڈبے شفاف خواب منعقد کرنے میں بہت سارے لوگوں کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے۔ آلہ جس قدر مہنگا ہوگا لوگ اسی قدر زیادہ یقین کریں گے کہ یہ کارآمد ہے اور ممکن ہے جس طرز پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اس کے بجائے کسی اور طریقے سے واقعی کارآمد ہو۔‘
ممکن ہے یہ بعید از قیاس باتیں ہوں لیکن ایک چیز کم سے کم اب یقینی دکھائی دیتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہر وقت آلات سر پر لگاتے ہی ہمیشہ شفاف خواب میں داخل ہو جاتے ہیں تو یقیناً یہ اس بات کے جائزے کا وقت ہے کہ آپ خواب دیکھ رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں۔
© The Independent