الوداع ’پجارو‘

پاکستان میں پچارو گاڑی کا زوال تو 20 سال پہلے ہو گیا لیکن پجارو کلچر کا زوال کب ہو گا؟

پنجاب کے ایک گاؤں میں سڑک کے اطراف کام کرتے کسانوں نے چند لمحوں کے لیے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بڑی سے سفید گاڑی دھول اڑاتی تیزی سے ان کے قریب سے گزر گئی۔

گاڑی دیکھ کر کسان سمجھ گئے کہ ضرور اس میں چوہدری صاحب موجود ہیں کیونکہ پورے گاؤں تو کیا آس پاس کے علاقے میں بھی ایسی گاڑی کسی کے پاس نہیں۔

گاڑی نے کچھ دور جا کر بریک لگائے اور دھول بیٹھنے پر چوہدری صاحب آنکھوں پر کالی عینک لگائے کلف لگے سفید شلوار قمیض میں گاڑی سے اترے، ان کے پیچھے پیچھے ان کا منشی ہاتھ میں اینٹ کے سائز جتنا موبائل فون لیے کھڑا ہو گیا۔

گاڑی سے چوہدری صاحب کو اترتا دیکھ کر کسان ان کی جانب لپکے تاکہ ’اپنے مائی باپ‘ کو سلام کر سکیں۔

ایک لمحے کے لیے رکیں، کیا آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ کسی پرانے زمانے کا قصہ ہے تو آپ ٹھیک ہیں۔

پاکستان میں 1980 کی دہائی کے آخری برسوں اور 1990 کی پوری دہائی میں ایک جاپانی گاڑی کو ہماری اشرافیہ نے دل و جان سے قبول کیا۔

یہ گاڑی مٹسوبشی موٹرز کی پجیرو تھی، ایسی سپورٹس یوٹلیٹی وہیکل (ایس یو وی) جسے پاکستان میں پجارو کہا جاتا ہے۔

جاپان کی مشہور زمانہ پجارو 37 سال سڑکوں پر راج کرنے کے بعد بالا آخر ختم کی جا رہی ہے۔

مٹسوبشی موٹرز نے اپریل کے آخری ہفتے میں اعلان کیا کہ جاپان کی مقامی مارکیٹ اگست کے بعد یہ گاڑی نہیں بنائی گی۔تاہم دنیا کے کچھ حصوں میں اس کی فروخت جاری رہےگی۔

پجارو 1982 میں پہلی بار جاپان کی سڑکوں پر آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 70 سے زائد ملکوں میں چھا گئی۔

غریب طبقے کی پہنچ سے دور اس مہنگی گاڑی کو پاکستان کی اشرافیہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، کیونکہ پجارو ایک امیر کو غریب سے اور ایک افسر کو کلرک سے ممتاز بناتی تھی۔

پاکستان میں اس گاڑی کو رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ایک عام آدمی سے اٹھ کر ملک کی اشرافیہ میں شامل ہو چکے ہیں۔

پنجاب کے جاگیردار ہوں یا سندھ کے وڈیرے، بلوچستان کے نواب ہوں یا خیبر پختونخوا کے ملک، سب نے اسے اپنی طاقت کے اظہار کا ایک ذریعہ بنایا۔ اس کے علاوہ یہ گاڑی بدمعاشوں میں بھی مقبول ہوئی کیونکہ ناکوں پر تعینات معمولی پولیس اہلکار ان گاڑیوں کو روک کر چیکنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

پاکستانی سیاست میں پجارو کا اپنا ایک کردار ہے۔ بالخصوص الیکشن کے دنوں میں سیاست دان اپنے مخالفین اور ووٹروں پر دھاک بٹھانے کے لیے خصوصی طور پر پجارو گاڑیوں کے قافلوں میں مہم چلاتے رہے ہیں۔

 افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پجارو ایک عام گاڑی کے طور پر رکھی گئی، چوں کہ کسٹم ادا نہ کرنے اور سمگل کرنے کی صورت میں اس کی قیمت میں نمایاں فرق آجاتا تھا لہذا قبائلی لوگ ہنسی خوشی مارکیٹ سے کم ریٹ پر دستیاب پجارو کو چلاتے رہے۔

پاکستانی میڈیا پر بھی اس گاڑی کا اثر نظر آیا کیونکہ پاکستان ٹیلی وژن کے پرانے ڈراموں میں بااثر شخصیات اسی گاڑی میں سفر کرتی دکھائی جاتی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لولی وڈ میں صف اول کے اداکار سلطان راہی کی ایک فلم ’پجارو گروپ‘ بھی مشہور ہو چکی ہے۔

1994 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں سلطان راہی کے علاوہ اُس زمانے کی سٹار کاسٹ مثلا غلام محی الدین، اظہار قاضی، مصطفٰی قریشی اور ہمایوں قریشی شامل تھے۔

جاپان میں پجارو کو ختم کرنے کا اعلان اب ہوا ہے لیکن پاکستان میں قدرت کے اصولو ں کے عین مطابق، عروج حاصل کرنے کے بعد اس گاڑی نے تقریبا بیس سال پہلے اپنا زوال بھی دیکھ لیا۔

اس کے زوال کے بعد 2000 کی دہائی میں ٹویوٹا کی پراڈو نے اس کی جگہ لے لی اور آج کل لینڈ کروزر، ویگو، پراڈو اور فورچونر وغیرہ کا زمانہ ہے، جن کی قیمتیں 50 لاکھ سے ڈیڑھ یا دو کروڑ روپے تک جاتی ہیں۔

پاک ویلز ویب سائٹ پر آج بھی پجارو کے پرانے ماڈل 10 سے 15 لاکھ روپے کے درمیان دستیاب ہیں تاہم اب صرف شوقین افراد ہی اسے رکھتے ہیں۔

پاکستان میں پچارو کا زوال بیس برس پہلے ہوا، جاپان آج اس کی پیداوار بند کرنے جا رہا ہے، یہی کارخانہ قدرت ہے، ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا