جب لتا منگیشکر کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی

سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا، کون ہے جو لتا کی شہد جیسی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے پر تلا ہوا ہے؟

لتا تقریباً ہر موسیقار کی اولین پسند ہوا کرتی تھیں (پبلک ڈومین)

اس دن صبح سویرے ریاض کے لیے اٹھنے والی لتا منگیشکر کو غیر معمولی طور پر پیٹ میں درد محسوس ہوا۔ یہ تکلیف انہیں کئی دنوں سے ہو رہی تھی، جسے وہ مسلسل نظر انداز کرتی آ رہی تھیں۔

پہلے پہل تو انہیں خیال یہی آیا کہ گانوں کی مسلسل ریکارڈنگ اور وقت بے وقت کھانے کی وجہ سے ممکن ہے کہ ان کی طبیعت نڈھال ہو رہی ہو، مگر آج کا شدید درد اور تکلیف انہیں ایک پل بھی چین سے بیٹھنے یا لیٹنے نہیں دے رہی تھی۔ کمزوری کا یہ عالم تھا کہ ایک دو بار انہوں نے دوسرے کمرے میں موجود بہنوں کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن اندرونی درد نے انہیں یہ کرنے سے بھی محروم رکھا۔

بستر کا کونا پکڑنے کے بعد جیسے ہی انہوں نے ایک بار اٹھنے کی کوشش کی تو چکرا کر واپس گر گئیں اور اسی دوران انہیں پے در پے ہری الٹیاں ہوئیں اور ان کی تکلیف میں ڈوبی ہوئی بلند آواز سن کر گھر والے ان کے آس پاس پہنچ گئے تھے۔ سب کے ہاتھ پیر اس وقت پھول گئے جب انہوں نے دیکھا کہ لتا منگیشکر نیم غنودگی کے عالم میں بستر پر بےسدھ پڑی ہوئی ہیں۔

ذکر ہو رہا ہے1961 کا جب بھارتی فلموں میں مدھر اور رسیلی آواز کی حامل لتا منگیشکر کی آواز کا جادو اپنے پورے عروج پر تھا۔ 32 برس کی لتا منگیشکر کامیابی اور کامرانی کی نئی مثالیں قائم کرنے میں مگن تھیں۔ ہر موسیقار ان کی دلوں میں جلترنگ بجنے والی آواز سے استفادہ کرتا۔ نغمہ نگاروں کی بھی خواہش ہوتی کہ لتا کی آواز میں ہی ان کی تخلیقات کو نئے روپ میں ڈھالا جائے۔ وہ مسلسل چار سال سے بہترین گلوکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ جیت رہی تھیں۔ اس تناظر میں کئی ہم عصر گلوکاروں کی تو چھٹی کرا چکی تھیں مگر اس وقت لتا، دنیا جہاں سے بے فکر انجانی تکلیف سے گزر رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لتا منگیشکر کے گھر والوں کے لیے یہ صورت حال خاصی پریشان کن تھی، جبھی فوری طور پر فیملی ڈاکٹر ڈی آر کپور کو طلب کیا گیا، جو اپنے ساتھ ایکسرے مشین تک لے آئے۔ لتا منگیشکر کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر ڈی آر کپور نے لتا کی نبض چیک کی اور پھر ان کے پیٹ کا ایکسرے کیا، لتا کی بہنیں اور بھائی کے چہرے پر فکر کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ سب کی نگاہیں ڈاکٹر پر مرکوز تھیں۔ جن کے نکلے ہوئے الفاظ سننے کے بعد ایسا محسوس ہواجیسے کمرے میں زوردار دھماکہ ہو گیا ہو۔

ڈاکٹر ڈی آر کپور نے ایکسرے اور لتا منگیشکر کو دیکھنے کے بعد بس یہی کہا، ’انہیں ’سلو پوائزن‘ دیا جا رہا ہے۔‘

اس انکشاف کے بعد ہر کوئی سہم کر رہ گیا۔ لتا منگیشکر جو گہری نیند میں تھیں، وہ ان سب باتوں سے لاعلم تھیں۔ ڈاکٹر کے مطابق یہ زہر لتا کو کھانے کے ذریعے دیا جا رہا تھا۔ یہ سن کر اوشا منگیشکر فوری طور پر باورچی خانے کی طرف بھاگیں۔ تلاش کی اس باورچی کی جو روز کھانا بناتا تھا لیکن اس کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ فوری طور پر انہوں نے پکے پکائے کھانے کو ضائع کرنا شروع کردیا۔

ادھر ڈاکٹر ڈ ی آر کپور نے دیگر اہل خانہ کو بتا رہے تھے کہ خوش قسمتی سے لتا منگیشکر کو دیے جانے والا یہ زہر ابتدائی مراحل میں تھا لیکن اس کے اثرات کو دور کرنے کے لیے لتا کا باقاعدہ علاج ہوگا کیونکہ زہر نے ان کے معدے کو متاثر کیا ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، سوال بے شمار تھے جو ذہنوں میں کلبلا رہے تھے کہ آخر وہ کون تھا جو لتا منگیشکر سے اس قدر نفرت اور عدوات رکھتا ہے کہ انہیں دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں پہنچانا چاہتا ہے؟ کون ہے جو ان کی مدھر اور کھنکتی ہوئی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے پر تلا ہوا ہے؟ مگر کوئی بھی ان کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

اب اس صورت حال میں ڈاکٹر ڈی آر کپور کی نگرانی میں لتا منگیشکر کے علاج کا آغاز ہوا۔ باورچی خانے کی ذمے داری اوشا منگیشکر نے سنبھالی۔ وہ باورچی جو کئی مہینوں سے منگیشکر خاندان سے جڑا ہوا تھا، وہ ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، یہ اور بات ہے کہ اس کی تلاش کے لیے خود منگیشکر خاندان نے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ زہر واقعی باروچی دے رہا تھا یہ کوئی اور؟

فلمی دنیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ لتا منگیشکر کو زہر دیا جا رہا تھا۔ کچھ جرائد نے تو یہاں تک فسانے گھڑنے شروع کر دیے کہ اب لتا منگیشکر کبھی بھی گلوکاری نہیں کر پائیں گی۔ اس عرصے میں لتا منگیشکر گلوکاری سے دور رہیں۔ اس مشکل صورت حال میں نغمہ نگار مجروح سلطان پوری ہر روز باقاعدگی کے ساتھ لتا منگیشکر کی تیمارداری کے لیے گھر آتے۔ مجروح سلطان پوری لتا کے لیے بنایا گیا کھانا سب سے پہلے خود چکھتے اور پھر گلوکارہ کو دیا جاتا۔ لتا کی دل جوئی کے لیے مجروح صاحب شاعری اور کہانیاں بھی سناتے۔

تین مہینوں بعد لتا منگیشکر جب روبہ صحت ہوئیں اور زہر کا اثر تقریباً ختم ہو گیا تو وہ چلنے پھرنے کے قابل بھی ہو گئیں۔ موسیقار اور گلوکار ہیمنت کمار ایک دن گھر آئے اور شیوانتی منگیشکر سے لتا منگیشکر کی پھر سے گلوکاری کی اجازت دریافت کی۔ والدہ تو کسی صورت آمادہ نہیں تھیں لیکن ہیمنت کمار نے وعدہ کیا کہ اگر ریکارڈنگ کے دوران لتا کی طبیعت ذرا سی خراب ہوئی یا وہ نقاہت کا شکار ہوئیں تو وہ فوری طور پر انہیں گھر واپس لے آئیں گے۔

 لتا منگیشکر نے زہر کھانے کے بعد جو پہلا گیت ریکارڈ کرایا وہ ’بیس سال بعد‘ کا ’کہیں دیپ جلے کہیں دل‘ تھا ۔ لتا منگیشکرنے اس گانے کو ایسا ڈوب کر گایا کہ اس گیت نے انہیں اگلے سال بہترین گلوکار کا فلم فیئر ایوارڈ کا حقدار بنا دیا۔

لتا کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کو بعد میں 1992 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گیت‘ میں معمولی ردبدل کے ساتھ پیش کیا گیا کہ کس طرح گلوکارہ بنی ہیروئن دیویا بھارتی کی مقبولیت اور شہرت سے خائف ہو کر ولن انہیں زہریلے لڈو کھلا کر ان کی آواز کو نقصان پہنچاتا ہے اور جب دیویا بھارتی اس سازش کو شکست دیتی ہیں اور پہلی بار جب مائیک تھام کر نغمہ سرائی کرتی ہیں تو یہ گیت لتا منگیشکر کی ہی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ جس کے بول تھے ’آپ جو میرے میت نہ ہوتے، ہونٹوں پے میری گیت نہ ہوتے۔‘

لتا منگیشکر کو زہر دینے کی سازش میں کون ملوث تھا؟ کس نے، کیوں اور کس کے اشارے پر یہ کارستانی دکھائی؟ اس راز پر سے کبھی پردہ نہیں اٹھا۔ خود منگیشکر خاندان اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کرتا رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی بھی اس باورچی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی گئی جو اس واقعے کے بعد بغیر تنخواہ لیے پراسرار طور پر اڑن چھو ہو گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی