انگلینڈ کے سمیر شیخ خود کشی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

2014 میں جب ایک ڈاکیومنٹری نے بین الاقوامی طور پہ ہونے والے اہم ترین انگریزی زبان کے ٹیسٹ میں کی جانے والی جعل سازی کا راز افشا کیا تو سمیر شیخ کی زندگی ایک دم بدل گئی۔

بھارتی شہری سمیر شیخ جنہیں 11 سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد محکمہ داخلہ نے  دیس نکالا دے دیا ۔ تصویر: ویڈیو سکرین گریب

پچھلے ہفتے میں ایک ایسے بھارتی شخص سے ملی جسے 11 سال انگلینڈ میں رہنے کے بعد محکمہ داخلہ نے یہاں سے دیس نکالا دے دیا تھا۔ آج کل کے حالات میں یہ کوئی خاص غیر معمولی بات بھی نہیں ہے، لیکن اگر اس شخص کا کیس دیکھا جائے تو یہ محمکہ داخلہ کی ایک الگ ہی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنے اہم گواہ کو حفاظت فراہم نہ کر سکنے کی نااہلی۔

سمیر شیخ دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ایک خوش وضع نوجوان ہیں۔ وہ 2016 کے دوران انگلینڈ کی حکومت کے لیے ایک اہم مقدمے میں بطور گواہ پیش ہوتے رہے۔ (مقدمے کی نوعیت کچھ یوں تھی کہ تقریباً 34 ہزار غیر ملکی طالب علموں اور ہنر مند امیگرنٹس پر انگلینڈ آنے کے لیے دیے جانے والےانگریزی زبان کے ٹیسٹ میں جعل سازی اور نقل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ان سے انگلینڈ میں رہنے کا قانونی حق چھین لیا گیا تھا جبکہ انہیں قانونی طور پہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔)

سمیر شیخ اس مقدمے کے اہم ترین گواہ تھے جو ان تمام ممالک کے شہریوں کے خلاف بنایا گیا تھا جو یورپی یونین میں شامل نہیں تھے (اور جن کے لیے یہ ٹیسٹ دینا ضروری تھا)۔ جب میں سمیر سے ملی تو وہ خوفزدہ تھے اور انہیں محکمہ داخلہ کے خلاف بات کر کے مزید پھنس جانے کا ڈر بھی محسوس ہو رہا تھا۔  

2014 میں جب بی بی سی کی ایک ڈاکیومنٹری نے بین الاقوامی طور پہ ہونے والے اس اہم ترین انگریزی زبان کے ٹیسٹ میں کی جانے والی جعل سازی کا راز افشا کیا تو سمیر شیخ کی زندگی ایک دم بدل گئی۔

سمیر انہی میں سے ایک سینٹر میں کام کرتے تھے جہاں یہ ٹیسٹ منعقد ہوتے اور جن پر جعل سازی کا الزام لگا تھا۔ وہ خود بھی اس الزام کی زد میں تھے لیکن محکمہ داخلہ نے انہیں کہا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو وعدہ معاف گواہ کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔

انہیں وزارت داخلہ اور ایک دوسرے ادارے کی جانب سے بھی اس بات کی ضمانت دی گئی کہ ان کی ہر حال میں حفاظت کی جائے گی۔ ان کے باس کا تعلق بھی بھارت سے تھا اور انہیں علم تھا کہ سمیر کی رہائش کہاں واقع  ہے (سمیر کی گواہی سے اس باس کو پانچ برس قید کی سزا بھی ہوئی)۔ سمیر نے ملاقات کے دوران مجھے ایک اعلیٰ تحقیقاتی افسر کی جانب سے کیے جانے والے میسج بھی دکھائے جن میں اس نے سمیر کو تسلی دی تھی کہ مقدمہ ختم ہونے کے بعد انہیں انگلینڈ میں پناہ حاصل ہو جائے گی۔   

یہ مقدمہ 2016 میں ختم ہوا اور فیصلے میں وزارت داخلہ کے یہ الفاظ بھی شامل تھے: ’مسٹر شیخ کی گواہی کے بعد اس معاملے میں ذرہ برابر بھی کوئی شک باقی نہیں رہا۔‘ لیکن اس سب کے چند ہی ماہ بعد ایک بات بالکل واضح تھی کہ سمیر شیخ کو انگلینڈ میں رہنے کا پروانہ ملنے والا نہیں تھا۔

امیگریشن افسر بھی ان سے رابطہ ختم کر چکا تھا۔ اس کی طرف سے کارروائی پوری کرنے کے لیے سمیر شیخ کے نام ایک ای میل آئی تھی جس میں اس نے لکھا کہ اب کچھ ایسا باقی نہیں رہ گیا جس کے لیے میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں سوائے آپ کو سرکاری طور پہ ایک سند دینے کے، جس میں اعتراف کیا جائے کہ آپ نے اس مقدمے کے دوران حکومت برطانیہ کی مدد کی تھی اور بطور گواہ سامنے آئے تھے۔

پھر بھی امیدوں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے سمیر شیخ نے مستقل طور پہ انگلینڈ میں رہنے کے لیے قانونی طریقے سے درخواست دی لیکن محکمہ داخلہ نے اسے مسترد کر دیا۔ مسترد کیے جانے کے ساتھ ساتھ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ 

سمیر نے مجھے بتایا کہ اب ان حالات میں وہ بہت زیادہ مایوسی محسوس کر رہے ہیں اور ان کا دل چاہ رہا ہے کہ وہ خود کشی کر لیں۔ ’مجھے برطانیہ کی حکومت پر یقین تھا، مجھے سسٹم پر اعتبار تھا، اسی وجہ سے میں نے ان کے ساتھ چلنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن اب وہ مجھے بالکل اکیلا اور بے یارومددگار چھوڑ چکے ہیں۔‘

سمیر اب اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے جا رہے ہیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ یہ اپیل بھی مسترد کر دی جائے گی اور انہیں واپس اس ملک میں جانا پڑے گا جہاں ان کا پرانا باس موجود ہے۔ جس کے خلاف انہوں نے گواہی دی تھی اور جو پہلے ہی انہیں مختلف قسم کی دھمکیاں دلوا چکا ہے۔ سمیر نے یہ گواہی ریاست برطانیہ کی پشت پناہی پر دی تھی اور اس چانس کے بعد وہ بھارت جانے پر مجبور ہوں گے۔

اسے ہم محکمہ داخلہ کی شدید ترین نااہلی کہہ سکتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کسی کو ہر چیز کی یقین دہانیاں کرائی جائیں اور جب مقصد پورا ہو جائے تو ان کا ساتھ چھوڑ دیا جائے، لیکن میرے ذاتی خیال میں یہ کیس محکمہ داخلہ کو شدید ناقابل اعتبار ظاہر کرتا ہے۔ 

مقدمے کے فیصلے میں سمیر کی گواہی استعمال کرنے اور تمام یقین دہانیاں کرانے کے باوجود، محکمہ داخلہ ایسے شخص کی درخواست مسترد کرے اور اس خط میں مسترد کرنے کی کوئی وجہ تک نہ لکھی ہو۔ یہ سب اس مستقل نااہلی کو ظاہر کر رہا ہے کہ جب کوئی انسان شدید ضرورت میں ہو اور اسے محکمہ داخلہ کی طرف سے کوئی مثبت جواب، کوئی پناہ، کوئی تحفظ نہ مل سکے۔  

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ