عورت مارچ میں ’فرانس کا پرچم‘ لہرانے پر تنقید: حقیقت کیا ہے؟

آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں منعقد کیے گئے عورت مارچ میں تین رنگوں کا جھنڈا لہرانے پر شدید تنقید کی جارہی ہے، جسے فرانس کے پرچم سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ یہ پرچم فرانس کے پرچم سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے۔

پی این پی فیکٹ چیک کے مطابق فرانس کے پرچم کا رنگ بائیں جانب سے نیلا، سفید اور سرخ ہے جبکہ عورت مارچ کے موقع پر لہرایا جانے والا جھنڈا بائیں جانب سے سرخ، سفید اور جامنی رنگ کا تھا (تصویر: سوشل میڈیا)

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی گذشتہ روز خواتین کا عالمی دن بھرپور انداز میں منایا گیا اور مختلف تنظیموں کی جانب سے عورت مارچ کے نام سے ریلیاں بھی نکالی گئیں، تاہم اسلام آباد میں اس مناسبت سے منعقد کیے گئے مارچ میں تین رنگوں کا جھنڈا جو فرانسیسی پرچم سے ملتا جلتا ہے لہرانے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

بعض سوشل میڈیا صارفین نے خصوصاً فرانس میں حالیہ توہین رسالت کے واقعات کے تناظر میں اسے ’غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ ‘ قرار دیا۔ دوسری جانب ناقدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عورت مارچ کے اخراجات فرانس کی طرف سے سپانسر کیے گیے۔

بیرون ملک سے فنڈنگ ملنے کے الزام کے جواب میں عورت مارچ اسلام آباد کی ایک عہدیدار نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ ’2018 میں اسلام آباد عورت مارچ کے اخراجات 40 ہزار سے شروع ہوئے، جو 2020 تک تین لاکھ روپے تک پہنچے اور رواں برس اس مارچ پر چار لاکھ 25 ہزار روپے کا خرچہ ہوا۔‘

دوسری جانب پی این پی فیکٹ چیک کے نام سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے والی خبروں کی صداقت کی تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں فرانس کا پرچم لہرائے جانے کی خبروں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عورت مارچ کے موقع پر لہرایا جانے والا جھنڈا فرانس کے قومی پرچم سے مشابہت ضرور رکھتا تھا لیکن اسے فرانسیسی پرچم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘

پی این پی فیکٹ چیک کے مطابق فرانس کے پرچم کا رنگ بائیں جانب سے نیلا، سفید اور سرخ ہے جبکہ عورت مارچ کے موقع پر لہرایا جانے والا جھنڈا بائیں جانب سے سرخ، سفید اور جامنی رنگ کا تھا۔

عورت مارچ اسلام آباد کی آرگنائزنگ ٹیم کی جانب سے بھی وضاحت جاری کی گئی کہ لہرایا جانے والا پرچم فرانس یا کسی اور ملک کا نہیں تھا بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف) کا تھا۔

اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈبلیو ڈی ایف کی مرکزی صدر عصمت رضا شاہ جہان سے بات کی، جنہوں نے ان خبروں کو ’بے بنیاد اور غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں بھلا کسی اور ملک کا پرچم کیوں لہرائیں گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے خلاف بے بنیاد پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فرانس کے پرچم کو اگر دیکھیں تو اس میں سرخ رنگ مختلف سمت میں ہے اور اس کے رنگوں میں نیلا رنگ شامل ہے جبکہ ہمارے پرچم میں جامنی رنگ شامل ہے۔‘

عصمت رضا کے مطابق: ’ہمارے پرچم میں شامل رنگوں کو علامتی طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس میں سرخ رنگ انقلاب، سفید رنگ امن جبکہ جامنی رنگ فیمینزم کی علامت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’عورت مارچ کے خلاف تنقید کرنے والوں کا مقصد جدوجہد کو متاثر کرنا ہے، اس لیے بغیر تصدیق کے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق کی جدوجہد کرنا پڑی ہے، لیکن ان کا اپنےحقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی کئی لوگوں کو برداشت نہیں ہوتا۔‘

عصمت رضا کے مطابق: ’وہ اپنا کام کرتے رہیں اور ہم کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ‘

خواتین کے مارچ کے خلاف گذشتہ سال بھی سوالات اٹھائے گئے تھے اور تنقید کی گئی تھی کہ یہ پاکستان اور اسلامی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ اسے بےحیائی کا سبب بھی قرار دیاگیا اور اسی بنا پر مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کی جانب سے بھی حیا مارچ کا آغاز کیا گیا۔ مارچ کے منتظمین ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین