عورت مارچ پدرشاہی کا جنازہ ہے

اگر یہ کہا جائے کہ عورت مارچ اب سال کا سب سے بڑا ایونٹ بن چکا ہے تو یہ کسی طور بھی غلط نہیں ہو گا۔

(روئٹرز)

دو سال پہلے جب کراچی سے عورت مارچ کا آغاز ہوا تو ہماری ایک دوست نے اسے پدرشاہی کا جنازہ قرار دیا تھا۔ اس وقت مجھے ان کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن آج جب عورت مارچ کے خلاف شور اٹھا دیکھ رہی ہوں تو وہ بات بھی سمجھ آ رہی ہے اور نظروں کے سامنے پدرشاہی کا جنازہ رکھا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

یہ عورت مارچ کا تیسرا سال ہے۔ ان تین سالوں میں عورت مارچ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ایک نئی لہر بن کر ابھرا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عورت مارچ اب سال کا سب سے بڑا ایونٹ بن چکا ہے تو یہ کسی طور بھی غلط نہیں ہو گا۔

پہلے جو بحث عورت مارچ کے بعد شروع ہوتی تھی، اس سال مارچ سے پہلے ہی ہو رہی ہے اور یہی اس مارچ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم ان مسائل کی نشاندہی کر کے ان پر بات چیت کرنا ہوتا ہے۔

افسوس، ہماری وہ قوم جو عورت کو سب سے زیادہ حقوق دینے کا دعویٰ کرتی ہے، اس کے ان حقوق کو مانگنے پر آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتی ہے۔ المیہ تو یہ کہ خواتین کو مارچ کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔

کئی حلقوں کی جانب سے مارچ کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ایسی کوششیں کرنے والے بھول گئے کہ ان کے مقابل عورت ہے۔ وہ عورت جسے وہ صدیوں سے کمزور سمجھتے آ رہے ہیں۔ اب جب وہ انہیں اپنی طاقت دکھا رہی ہے تو یہ بلبلاتے پھر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان لوگوں کا عورت مارچ پر اصل اعتراض یہ ہے کہ مارچ ان کی انگلی پکڑے کیوں نہیں ہو رہا۔ انہیں مسئلہ ہے کہ خواتین اپنے حقوق کا تعین خود کیوں کر رہی ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھ رہیں؟ انہیں بلبلاتے دیکھ کر ہمیں افسوس ہوتا ہے۔ پدرشاہی نے انہیں صدیوں سے جس بلبلے میں قید رکھا ہوا تھا اب اس بلبلے کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ بچہ بھی ماں کے رحم سے باہر نکالے جانے پر روتا ہے، یہ بھی اپنا بلبلہ ختم ہونے پر رو رہے ہیں۔ اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ جس طاقت کا بھرم یہ عورت کو دکھاتے تھے وہ اصل میں ان کی طاقت نہیں کمزوری تھی۔

مارچ رکوانے کے لیے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ لاہور اور کراچی میں عورت مارچ کے پوسٹر پھاڑے، لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں مارچ کے خلاف پیٹیشن درج کروائی، مولانا فضل الرحمٰن نے ایک اجتماع میں اپنے پیروکاروں کو عورت مارچ کے خلاف قانون ہاتھ میں لینے کا حکم جاری کیا اور مردِ مومن سراج الحق صاحب نے بھی کسی سے پیچھے نہ رہتے ہوئے عورت مارچ کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اس سارے شور میں خلیل الرحمٰن قمر صاحب بھی کان پر قلم رکھے ’مجھ سے پلے کارڈ لکھواؤ‘ ممناتے پھر رہے ہیں۔

ہم عورتوں نے ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرے۔ مارچ کی تیاریاں پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے کی جا رہی ہیں۔ اس کا انہیں الگ غم ہے۔

جب کچھ نہیں بنتا تو یہ دھاڑ کر پوچھتے ہیں تمہیں کیسی آزادی چاہیے؟ دوپٹہ تو تمہارا پیکو ہم کرواتے ہیں، اے ٹی ایم کے باہر لگی قطار میں تمہیں آگے جگہ دیتے ہیں، بھری بس میں تمہیں سیٹ دیتے ہیں اور کیا چاہتی ہو؟

جی، ہم اپنے جسموں پر اپنا حق چاہتے ہیں۔ ہم اپنے جسموں پر سے تمہاری نظریں اور ہاتھ ہٹوانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی اور تمہاری سوچ کو پدرشاہی کی غلامی سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔

ہم پڑھنا بھی چاہتے ہیں اور پڑھنے کے بعد اپنی مرضی کی نوکری بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا نکاح نامہ بھی اپنی مرضی سے پُر کرنا چاہتے ہیں اور کسی ان چاہے اور تکلیف دہ رشتے کی قید سے باہر بھی اپنی مرضی سے نکلنا چاہتے ہیں۔

جس سڑک پر کھڑے ہو کر تم آتی جاتی عورتوں کو دیکھ کر اپنا جسم کھجلاتے ہو، ہم وہاں بغیر کسی ڈر و خوف کے چلنا چاہتے ہیں۔ تم جو بغیر کسی خوف کے عورت کو تھپڑ مارنے سے لے کر اس کا ریپ تک کر دیتے ہو، ہم تمہارے دل میں اس بارے سوچنے پر ہی خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ہم گھر اور گھر سے باہر اپنے لیے برابری کے حقوق چاہتے ہیں۔ ہم پارلیمان سے لے کر مسجد تک میں برابر کی نمائندگی چاہتے ہوں۔ تم جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہو، ہم اس مذہب کو تم سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔

ہم خود کو اس معاشرے میں برابر کا انسان تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔

ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ہم پلے کارڈ بھی لکھیں گے اور مارچ بھی کریں گے۔ تمہارے سامنے پدرشاہی کا جنازہ رکھا ہے، تم اس کے گرد جتنی اونچی آواز میں بین کرنا چاہتے ہو کرو۔ کچھ ہی دیر میں جنازہ اٹھنے والا ہے۔ تمہیں خبر ہو کہ وہ جنازہ بھی ہم ہی اٹھائیں گے۔


ادارتی نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ