بھارت 130 سال قدیم خدا بخش لائبریری کیوں مسمار کرنا چاہتا ہے؟

گاندھی نے کہا تھا کہ ’میں اس لائبریری کے عظیم بانی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنا ہر ایک پیسہ خرچ کر کے ہندوستان کو یہ انمول خزانہ دیا ہے۔‘

’خدا بخش لائبریری نہ صرف بھارتی تہذیب کا مرکز ہے بلکہ علم کا مندر بھی ہے۔‘ (Mukram Khan: CC BY-SA 3.0)

(کتابوں کے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی تحریر)

’نو سال پہلے میں نے اس خوبصورت لائبریری کے بارے میں سنا اور تب سے میں اس کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ یہاں پر موجود نادر و نایاب کتابوں کا انمول خزانہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں اس لائبریری کے عظیم بانی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنا ہر ایک پیسہ خرچ کر کے ہندوستان کو یہ انمول خزانہ دیا ہے۔‘

یہ الفاظ بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ہیں جو انہوں نے 29 ستمبر 1925 کو شمال مشرقی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے اشوک راج پتھ علاقے میں واقع خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری کے وزیٹر بک میں لکھے ہیں۔

لیکن اب اس بےمثل تاریخی لائبریری کے ایک حصے کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے کیوں کہ بی جے پی کی حکومت اسے مسمار کر کے یہاں فلائی اوور تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ اس پر نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر سے لوگوں نے ایک پیٹیشن جاری کی ہے تاکہ اس انمول ورثے کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

مہاتما گاندھی نے وزیٹر بک میں اپنی تحریر میں جس ’عظیم بانی‘ کا ذکر کیا ہے وہ مولوی خدا بخش خان ہیں جنہوں نے اپنے والد مولوی محمد بخش خان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ان کی جمع کردہ 14 سو نادر و نایاب مخطوطات اور کتابوں میں اضافہ کر کے اپنے ذاتی مکان میں ایک کتب خانہ قائم کیا جو پہلے بانکی پور اوریئنٹل لائبریری اور بعد ازاں خدا بخش اوریئنٹل پبلک لائبریری کہلائی۔

29 اکتوبر 1891 کو چند ہزار مخطوطات اور کتابوں کے ساتھ عوام کے لیے کھلنے والی اس لائبریری میں اس وقت عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، پشتو اور ترکی زبانوں کے 21 ہزار مخطوطات، مصوری و خطاطی کے 2 ہزار سے زیادہ شاہکار، 3 لاکھ سے زیادہ کتابیں اور 50 ہزار سے زیادہ رسالے موجود ہیں۔

خدا بخش لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار کے مطابق ان مخطوطات، مصوری و خطاطی کے فن پاروں، کتابوں اور رسالوں میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو دوسری کسی لائبریری میں موجود نہیں۔

130 سال قدیم اس تاریخی لائبریری کی ثنا میں مہاتما گاندھی کے علاوہ رابندر ناتھ ٹیگور، وائسرائے آف انڈیا لارڈ کرزن، بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور سکاٹ لینڈ کے ممتاز مستشرق وی سی سکاٹ او کانر نے سنہری الفاظ لکھے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیز اب تک منتخب کیے جانے والے تقریباً سبھی بھارتی صدور بشمول موجودہ صدر رام ناتھ کووند اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس لائبریری کا دورہ کیا ہے اور اس کے بارے میں رطب اللسان ہیں۔

26 دسمبر 1969 کو بھارتی حکومت نے خدا بخش لائبریری کو قومی اہمیت کا ادارہ قرار دے کر اس کے لیے باضابطہ طور پر پارلیمان سے ایک قانون وضع کیا اور اس کی ترقی و توسیع کے لیے فنڈز کی فراہمی کی ذمہ داری لی۔ قانون کے تحت یہ ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے چئیرمین ریاست بہار کے گورنر ہیں۔

مسماری کے بادل

ریاست بہار جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یا این ڈی اے کی حکومت ہے، نے پٹنہ میں کرگل چوک سے این آئی ٹی موڑ تک دو کلو میٹر طویل ایک فلائی اوور بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

اگر یہ منصوبہ تکمیل کو پہنچا تو اس سے خدا بخش لائبریری کا تاریخی کرزن ریڈنگ روم مسمار ہو جائے گا، نیز سامنے والا باغیچہ بھی فلائی اوور کی نذر ہونا طے ہے۔

این ڈی اے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پٹنہ سے اٹھنے والی آوازیں ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کر گئی ہیں جس کا جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہیریٹیج کارکن، مورخین، سکالرز، ادبا و شعرا اور سیاست دان حصہ بن رہے ہیں۔

بھارت میں انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (انٹیک) نامی تنظیم ثقافتی ورثے کی حامل عمارتوں اور مقامات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔

اس تنظیم کی پٹنہ شاخ کے کنوینر جے کے لال نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے نام ایک خط میں درخواست کی ہے کہ وہ فلائی اوور کی تعمیر کے منصوبے کو منسوخ کریں۔

انہوں نے خط میں لکھا ہے: ’خدا بخش لائبریری کے کسی بھی حصے کو مسمار کرنے سے نہ صرف پٹنہ بلکہ عالمی ورثے کو نقصان پہنچے گا۔ نیز اس ادارے کی شان و شوکت ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے گی۔‘

جے کے لال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ خدا بخش لائبریری کو بچانے کی ہماری کوششیں ہر حال میں جاری رہیں گی۔

’ہم نے نئی دہلی میں واقع اپنے ہیڈکوارٹرز کو بھی خبر دی ہے۔ چیئرمین نے ہمیں وہاں سے بتایا کہ لائبریری کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ہم لائبریری کو کسی بھی صورت میں مسمار نہیں ہونے دیں گے۔‘

انٹیک کے کنوینر نے بتایا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ایک اچھی تجویز بھیج دی ہے لیکن ابھی تک وہاں سے کوئی مثبت خبر نہیں آئی ہے۔

’ہم نے اپنی تجویز میں کہا ہے کہ گنگا پتھ روڈ بن چکا ہے جو فلائی اوور کی مجوزہ سائٹ سے بمشکل چند سو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اشوک راج پتھ پر ٹریفک کا حجم کرنے کے لیے گنگا پتھ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

’حکومت اشوک راج پتھ اور گنگا پتھ کے درمیان اپروچ روڈز تعمیر کر کے ٹریفک کے دبائو پر بہ آسانی قابو پا سکتی ہے۔ اس میں زیادہ پیسے بھی نہیں لگیں گے۔‘

جے کے لال نے بتایا کہ خدا بخش لائبریری کی عمارت ہیریٹیج کے اعتبار سے منفرد ہے ہی لیکن اس کے اندر جو مخطوطات، کتابیں اور مصوری و خطاطی کے شاہکار ہیں وہ دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔

’آج اگر کوئی بھی ودیشی پٹنہ آتا ہے وہ خدا بخش لائبریری ضرور جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔ وائسرائے لارڈ کرزن سے لے کر مہاتما گاندھی اور مختلف ممالک کے سربراہان نے اس لائبریری کا دورہ کیا ہے اور اس کی ثنا میں خوبصورت الفاظ لکھے ہیں۔‘

جے کے لال نے بتایا کہ اگر حکومت اپنے فیصلے پر بضد رہتی ہے تو نہ صرف خدا بخش لائبریری بلکہ دیگر کئی ہیریٹیج عمارتوں و اداروں جیسے پٹنہ کالج، پٹنہ سائنس کالج، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ میڈیکل کالج و ہسپتال، بہار اردو اکیڈمی، بی این کالج، کیتھولک چرچ، بہار ینگ مینز انسٹی ٹیوٹ اور پٹنہ ڈینٹل کالج کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔

’پٹنہ بذات خود ایک ہیریٹیج شہر ہے۔ تاریخ یا شہر کی شناخت کو مٹانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ ہیریٹیج عمارتوں کو مسمار کرنے کی بجائے ان کی خوبصورتی بڑھانے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ نیز اس مجوزہ پروجیکٹ کو ترک کرنے کا فوری اعلان ہو۔‘

’یہ علم کا مندر ہے‘

خدا بخش لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر فلائی اوور طے شدہ منصوبے کے مطابق بنایا جاتا ہے تو لائبریری کا سامنے والا پورا حصہ اور کرزن ریڈنگ روم کا آدھا حصہ مسمار کر دیا جائے گا۔

’ہم نے حکومت کو لکھا ہے اور امید ہے کہ اس ہیریٹیج عمارت کو مسمار ہونے سے بچایا جائے گا۔‘

ڈاکٹر شائستہ نے بتایا کہ فلائی اوور تعمیر کرنے والے متعلقہ ادارے نے لائبریری سے نو اوبجیکشن سرٹیفکیٹ یا این او سی مانگی ہے۔

’ہم سے این او سی مانگی گئی تو ہم نے بورڈ میٹنگ بلا کر معاملے پر سب کی رائے حاصل کی۔ میٹنگ میں لیے جانے والے فیصلے کے تحت ہم نے ضلع مجسٹریٹ کو لکھا کہ لائبریری کو بچانے کے لیے پہلے سے موجود متبادل آپشنز پر کام کیا جائے۔ ہم نے ضلع مجسٹریٹ کو یہیں سے چار متبادل آپشنز بھی لکھ کر بھیجے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ان میں کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔ ہماری حال ہی میں ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ ایک میٹگ بھی ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ ان آپشنز یا تجاویز پر غور کریں گے۔‘

ڈاکٹر شاہستہ بیدار کے بقول خدا بخش لائبریری نہ صرف بھارتی تہذیب کا مرکز ہے بلکہ علم کا مندر بھی ہے۔

’یہ لائبریری بھارتی سنسکرتی (ثقافت) کا مرکز ہے۔ یہ کسی ایک کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس کو اپنی حالت میں برقرار رکھیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گی یہ علم کا مندر ہے۔ اس سے روشنی پھوٹتی ہے۔ یہاں پر موجود ہزاروں مخطوطات، جو نہ صرف کاغذ بلکہ کپڑے، تاڑ کے پتوں اور ہرن کی کھال پر بھی لکھے گئے ہیں، پر ریسرچ ہوتی ہے۔ یہ لائبریری بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بعض اہم کتابیں شائع کر چکی ہے۔ لائبریری کا ہمیشہ سے ہی مقصد رہا ہے کہ دور ہوتی ہوئی کمیونٹیز کو قریب لایا جائے۔‘

لائبریری کی ڈائریکٹر نے بتایا کہ وائسرائے آف انڈیا لارڈ کرزن نے 1903 میں اس لائبریری کا دورہ کیا اور مخطوطات کا انمول خزانہ دیکھ کر ان کی دیکھ بھال کے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

’لارڈ کرزن نے معروف مستشرق اور ماہر لسانیات سر ایڈورڈ ڈینی سن راس کی خدمات حاصل کیں جنہوں اس لائبریری میں عربی اور فارسی مخطوطات کے کیٹلاگ تیار کیے۔ مخطوطات کے ان کیٹلاگز، جن کی تعداد 40 سے زیادہ ہے، کی وجہ سے یہ لائبریری آج پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ کیٹلاگ اب لائبریری کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ لارڈ کرزن کے کردار کے اعزاز میں ہی 1905 میں کرزن ریڈنگ روم تعمیر کیا گیا تھا۔‘

خدا بخش لائبریری کے سابق ڈائریکٹر اور مورخ ڈاکٹر امتیاز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لارڈ کرزن لائبریری میں موجود نادر و نایاب مخطوطات سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔

’یہ لارڈ کرزن ہی تھے جنہوں نے مخطوطات کی کیٹلاگ سازی کے لیے نہ صرف ایڈورڈ ڈینی سن راس کی خدمات حاصل کیں بلکہ اس کام کی انجام دہی کے لیے فنڈز بھی فراہم کیے۔ لارڈ کرزن کی فراخدلی کو دیکھ کر خدا بخش نے ایک بڑے ہال کو ان کے نام سے موسوم کیا تھا۔‘

ڈاکٹر امتیاز نے بتایا کہ کرزن ریڈنگ روم مطالعہ کے شوقین افراد اور مختلف امتحانوں کی تیاریوں میں مصروف نوجوانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔

’میں جب خدا بخش لائبریری کا ڈائریکٹر تھا تو کرزن ریڈنگ روم صبح آٹھ بجے سے رات دیر گئے تک کھلا رہتا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر 12 سو سے 15 سو مطالعہ کے شوقین افراد یہاں آتے تھے۔ کبھی یہ تعداد نو سو سے نیچے نہیں چلی گئی۔

’بزرگ شہری اخبار اور میگزین پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ پٹنہ میں اس طرح کا کوئی ریڈنگ روم نہیں ہے۔ اس کو توڑ کر آدھا کرنے کا مطلب اس سے مستفید ہونے والے افراد کی جگہ تنگ کرنا ہے۔‘

ڈاکٹر امتیاز پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خدا بخش لائبریری ایک معمولی لائبریری نہیں ہے بلکہ ایک متحرک تعلیمی، ثقافتی اور تحقیقی مرکز ہے۔

’لائبریری کو پہلے سے ہی جگہ کی تنگی کا سامنا ہے۔ اس میں مشہور اور انتہائی اہم شخصیات کا آنا جانا رہتا ہے۔ اگر لائبریری کی زمین تنگ کی جاتی ہے تو ان شخصیات کے لیے سکیورٹی کے انتظامات کرنے میں دقت آئے گی۔ جب میں لائبریری کا ڈائریکٹر تھا تب نتیش کمار (موجودہ وزیر اعلیٰ) پانچ چھ بار یہاں آئے تھے۔ وہ سبھی چیزوں سے واقف ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت ایک مثبت فیصلہ لے گی تاکہ لائبریری کو بچایا جا سکے۔‘

مجوزہ مسماری کے خلاف احتجاج

ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے امیتابھ کمار داس ایک سابق انڈین پولیس سروس یا آئی پی ایس افسر ہیں۔ انہوں نے خدا بخش لائبریری کو مسمار کرنے کے مجوزہ منصوبے کے خلاف بطور احتجاج اپنا پولیس میڈل بھارت کے صدر کو واپس کر دیا ہے۔

امیتابھ کمار داس نے بھارتی صدر کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے: ’بہار کے نالائق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بدعنوان ٹھیکیداروں اور ٹینڈر مافیا کے حکم پر پٹنہ کی تاریخی خدا بخش لائبریری کے کچھ حصوں کو زمین دوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خدا بخش لائبریری پوری انسانیت کی میراث ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی نشانی ہے۔ پورا بہار اس پر فخر کرتا ہے۔

’کتابوں سے محبت کرنے والے کی حیثیت سے مجھے حکومت کے فیصلے سے گہرا صدمہ ہوا ہے۔ میں نے برسوں تک ایک آئی پی ایس آفیسر کی حیثیت سے ملک کو اپنی خدمات دی ہیں۔ نتیش حکومت کے ذریعے پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کو زمین دوز کرنے کے فیصلے کے خلاف، میں بھارتی حکومت کے دیے گئے پولیس میڈل آپ کو واپس لوٹا رہا ہوں۔‘

امیتابھ کمار داس سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی درجنوں شخصیات نے خدا بخش لائبریری کی مجوزہ مسماری کے خلاف ایک آن لائن پٹیشن شروع کر رکھی ہے جس پر اب تک پانچ ہزار لوگ دستخط کر چکے ہیں۔

پٹیشن میں بہار کے وزیر اعلیٰ سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ خدا بخش لائبریری اور دیگر تاریخی عمارتوں کو برقرار رکھنے کے لیے فلائی اوور کی تعمیر کے دیگر آپشنز پر غور کریں۔

آن لائن پٹیشن شروع کرنے والوں نے لائبریری کو مسماری سے بچانے کے لیے ’سیو دا خدا بخش لائبریری – سیو دا ہیریٹیج فرنٹ‘ کے نام سے ایک احتجاجی تحریک بھی شروع کی ہے۔

اس احتجاجی تحریک کی سربراہی بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی (ایم ایل) کے رکن اسمبلی سداما پرساد کر رہے ہیں جو بہار اسمبلی میں لائبریری کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔

سداما پرساد نے بھی ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے تاریخی خدا بخش لائبریری کو مسماری سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

مخطوطات اور کتابوں کا انمول خزانہ

خدا بخش لائبریری میں خاندان تیموریہ کی تاریخ یا ’تاریخ خاندان تیموریہ‘ کا نادر و نایاب نسخہ موجود ہے جو دنیا کی کسی لائبریری یا میوزیم میں نہیں ہے۔

یہ نسخہ خط نستعلیق میں لکھا ہے۔ اس میں مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دربار کے مشہور مصوروں کی بنائی ہوئی 132 تصویریں شامل ہیں۔

اس لائبریری میں ’جہانگیر نامہ‘ بھی محفوظ ہے جو 1611 میں لکھا گیا تھا جس پر اورنگ زیب عالمگیر کے صاحبزادے شہزادہ سلطان محمد کے دستخط اور شاہی مہر ثبت ہے۔

مورخین کے مطابق مغل شہنشاہ جہانگیر نے ’جہانگیر نامہ‘ اپنے درباری کاتب سے لکھوا کر گولکنڈہ کے سلطان محمد قلی قطب شاہ کو تحفہ میں دیا تھا۔

تاہم 1687 میں اورنگ زیب کے زمانے میں جب مغلوں نے گولکنڈہ پر حملہ کر کے اسے فتح کیا تو ’جہانگیر نامہ‘ ان کے بیٹے شہزادہ سلطان محمد کے ہاتھ آیا۔

’جہانگیر نامہ‘ کے علاوہ حافظ کے دیوان کا وہ نسخہ بھی اس لائبریری کی زینت ہے جس سے شہنشاہ ہمایوں ایران میں اپنے قیام کے دوران فال نکالا کرتے تھے۔

’بادشاہ نامہ‘ کا وہ نسخہ جس پر کنگ جارج پنجم کے دستخط ہیں، اس لائبریری میں موجود ہے۔ یہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے دور کی مکمل تاریخ ہے۔ اس نسخے میں 25 انتہائی خوبصورت تصویریں شامل ہیں۔ آخری تصویر میں شاہ جہاں کا جنازہ تاج محل جاتا دکھایا گیا ہے۔

قرآن کے کچھ تاریخی نسخے بھی ہیں جس میں عباسی دور کے مشہور خطاط جمال الدین یاقوت مستعصمی کی خطاطی سے مزین قرآن کا خوبصورت نسخہ بھی ہے جس پر مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور اورنگزیب کی مہریں ثبت ہیں۔

خدا بخش لائبریری میں صحابہ کے دور کا ایک نسخہ بھی موجود ہے جو کہ ہرن کی کھال پر لکھا گیا تھا جس میں سورہ ابراہیم کی کچھ آیتیں خط کوفی میں تحریر ہیں جو حضرتِ علی سے منسوب ہیں۔

لائبریری میں تاریخ خاندان تیموریہ اور جہانگیر نامہ کے علاوہ شاہنامہ فردوسی، جامع التواریخ اور سفینۃ الاولیا جیسے قلمی مخطوطات محفوظ ہیں۔

غلام علی ہمدانی مصحفی کے آٹھویں دیوان کے واحد نسخے کے علاوہ بعض ممتاز افراد کے ہاتھ سے لکھی گئی کتابیں موجود ہیں جو کہ اس لائبریری کی اہمیت و افادیت کو بڑھاتی ہیں۔

ہندو مذہب کی کتابوں جیسے بھگوت گیتا، پران اور مہا بھارت کے فارسی تراجم بھی محفوظ ہیں۔

اس لائبریری کے ذخیرے میں سات ہزار قلمی تصاویر بھی شامل ہیں۔ اسلامی علوم، طب یونانی، تذکرے، تصوف، تقابل ادیان، عہد وسطیٰ کی تاریخ، جنوبی و مشرقی ایشیا کی تاریخ، قرون وسطیٰ کے سائنسی علوم اور تحریک آزادی پر کتابیں اس لائبریری کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں۔

اس لائبریری میں تغلق خاندان، مغل شہنشاہ اکبر، شاہ جہاں اور شاہ عالم کے دور کے آٹھ سو سکے بھی موجود ہیں۔ اس میں مغل، راجپوت، ترکی اور ایرانی مصوری کے نایاب نمونوں کے ساتھ کچھ ایسی پینٹنگز موجود ہیں جو ہندو دیوی دیوتاؤں کی ہیں۔

خدا بخش لائبریری میں عربی، فارسی، اردو، ترکی، پشتو، ہندی اور سنسکرت زبانوں کے بیش قیمتی اور نایاب مخطوطات موجود ہیں جن کی تعداد تقریباً 21 ہزار ہے جو کہ تہذیب و ثقافت کے مختلف مضامین پر مشتمل ہیں۔

ان کے علاوہ مطبوعہ کتابوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے جس کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ کتابیں عربی، فارسی، اردو، انگریزی، ہندی، سنسکرت، پنجابی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور جاپانی زبانوں میں ہیں۔

لائبریری میں اردو زبان کے نایاب رسالے موجود ہیں جو اس کی اہمیت و افادیت کو بڑھاتے ہیں۔ مجلد رسائل کی تعداد تقریباً 50 ہزار ہے۔

لائبریری کے شعبہ اشاعت کے ذریعے سہ ماہی رسالہ ’خدا بخش‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ یہ رسالہ کثیر لسانی ہے جو کہ 1977 سے اب تک شائع ہو رہا ہے۔

اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ موجود ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض مولوی خدا بخش کو ایک بڑی رقم کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔

خدا بخش لائبریری کب اور کیسے قائم ہوئی؟

بھارت اور بیرون دنیا میں ریاست بہار کے شہر پٹنہ کی شناخت جن چیزوں سے ہوتی ہے ان میں سے خدا بخش لائبریری سر فہرست ہے۔

یہ لائبریری پٹنہ میں گنگا ندی کے کنارے گھنی آبادی کے بیچ سے گزرنے والے اشوک راج پتھ روڈ پر پٹنہ یونیورسٹی اور پٹنہ میڈیکل کالج و ہسپتال کے درمیان واقع ہے۔

یہ لائبریری اپنے ابتدائی دور میں مولوی خدا بخش خان کے والد مولوی محمد بخش خان کی ایک نجی لائبریری تھی۔

محمد بخش خان کو کتابوں سے بے حد لگاؤ تھا۔ انہوں نے اپنی قید حیات میں تقریباً 14 سو مخطوطات اور کتابیں اکٹھا کر کے ’کتب خانہ محمدیہ‘ کے نام سے ایک نجی لائبریری قائم کی تھی۔

محمد بخش، جو ایک بڑی لائبریری بنانے کا ارادہ رکھتے تھے، انہوں نے زندگی کے آخری ایام میں اپنے بیٹے خدا بخش کو وصیت کی کہ 'ان کتابوں میں اضافہ کر کے ایک کتب خانہ قائم کر کے عوام کے نام وقف کرنا۔ اگر تم میری یہ خواہش پوری کرو گے تو میری روح کو سکون ملے گا۔'

خدا بخش نے اپنے والد کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ذخیرہ کتب میں توسیع کے لیے اپنا پورا سرمایہ خرچ کر دیا اور 1880 میں مخطوطات اور کتابوں کی تعداد کو چار ہزار تک پہنچا دیا۔

خدا بخش نے کتابوں اور مخطوطات کو اکٹھا کرنے کے لیے محمد مکی نام کے ایک شخص کو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر معمور کیا تھا جنہوں نے 18 سال تک اپنی خدمات انجام دیں۔

محمد مکی نے مصر، ایران، شام اور عرب ممالک کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے نادر و نایاب مخطوطے حاصل کیے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا بخش لائبریری میں قرطبہ کے کتب خانوں کے مخطوطے بھی موجود ہیں۔

پیشے سے وکیل خدا بخش نے نادر و نایاب مخطوطات اور کتابوں کی خریداری پر اتنے پیسے خرچ کیے کہ ایک وقت انہیں اپنے علاج کے لیے قرض لینا پڑا۔

خدا بخش نے 1890 میں 80 ہزار روپے خرچ کر کے لائبریری کی شاندار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی۔ اس کے بعد 14 جنوری 1891 کو انہوں نے نادر و نایاب مخطوطات اور کتابوں کا یہ خزانہ ایک باضابطہ وقف نامہ کے ذریعے عوام کے نام وقف کر دیا۔

’بانکی پور اورئینٹل لائبریری‘ کے نام سے اس پبلک لائبریری کا باقاعدہ افتتاح بنگال کے گورنر چارلس الفریڈ ایلیٹ نے 5 اکتوبر 1891 کو کیا۔

خدا بخش تاحیات اس لائبریر کے ڈائریکٹر رہے تاہم اس درمیان وہ 1895 سے تین سال تک حیدرآباد دکن میں نظام ششم نواب میر محبوب علی خان کے دور میں وہاں چیف جسٹس کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

ان کے عظیم کارناموں کی بنا پر برطانوی حکومت نے خدا بخش کو 1891 میں ’خان بہادر‘ اور 1903 میں سی آئی ای کے خطاب سے نوازا۔ تین اگست 1908 کو جب خدا بخش کا انتقال ہوا تو انہیں لائبریری کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے کئی دہائیوں تک اس لائبریری کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنبھالی۔

تقسیم ہند کے بعد سنسکرت اور نوادرات کے نامور سکالر ڈاکٹر ایس وی سوہونی نے اس مجموعہ کتب کی حفاظت کی اور اسے کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی۔

26 دسمبر 1969 کو بھارتی حکومت نے خدا بخش لائبریری کو قومی کتب خانوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اس کی مالی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لیں۔ فی الوقت یہ لائبریری بھارتی حکومت کی وزارت ثقافت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ