انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو متعصب حکمران کے طور پر کیوں پیش کیا؟

ہندو انتہا پسند تنظیموں کا نظریہ ہے کہ ٹیپو سلطان ’ایک کٹر متعصب‘ اور ’ہندو دشمن ظالم‘ حکمران تھے۔ یہ تاثر پیدا کرنے میں اصل ہاتھ انگریزوں کا ہے۔

ٹیپو سلطان 1791 میں  سری رنگاپٹم کی جنگ میں خود حصہ لیتے ہوئے (پبلک ڈومین)

جنوبی ہند کی سابق ریاست میسور کے حکمران سلطان فتح علی ٹیپو معروف بہ ٹیپو سلطان کے انتقال کے 222 سال بعد بھی ان کی شخصیت کے متعلق یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا وہ مذہبی ہم آہنگی کے طرفدار تھے یا کٹر متعصب۔

بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت کو ٹیپو سلطان سے بظاہر مسلمان، صوم و صلوات کے پابند حکمران اور مثالی جنگجو ہونے کی وجہ سے بہت لگاؤ ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں کئی مسجدیں ان کے نام سے منسوب ہیں۔

ٹیپو سلطان شاید تقسیم سے قبل کے ہندوستان کی تاریخ کے واحد ایسے حکمران گزرے ہیں جن کے لیے مسلمان کی ایک اچھی خاصی تعداد ’حضرت،‘ ’شہید‘ اور ’رحمتہ اللہ علیہ‘ جیسی اسلامی اصطلاحات کا استعمال کرتی آئی ہے۔

معتدل یا اعتدال پسند ہندوؤں کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی جنگ آزادی کے اولین مجاہد ہیں جنہوں نے انگریزوں کی بالادستی کو ماننے سے انکار کیا اور ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ان کے بقول ٹیپو سلطان ایک عادل اور رعایا پرور حکمران تھے۔

تاہم اس کے برعکس ہندو انتہا پسند اور ہندو قوم پرست تنظیموں جیسے وشوا ہندو پریشد، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ ہے کہ ٹیپو سلطان ’ایک کٹر متعصب‘ اور ’ہندو دشمن ظالم‘ حکمران تھے۔

2015 میں ریاست کرناٹک (میسور) میں سدارمیا کی قیادت والی کانگریس حکومت نے ہر سال 10 نومبر کو ’حضرت ٹیپو سلطان جینتی (جنم دن)‘ نامی تہوار کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش 20 نومبر ہے۔

تاہم 2018 تک جب بھی یہ جینتی تقریبات منائی گئیں بی جے پی اور دیگر ہم خیال ہندو تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ 2015 میں ان تقریبات کے دوران پُرتشدد جھڑپوں میں کم از کم دو افراد مارے گئے۔

2019 میں بی ایس یدورپا کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے کرناٹک میں ٹیپو جینتی کی سالانہ تقریبات کی منسوخی کا اعلان کیا نیز اسی حکومت نے 2020 میں ساتویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب سے ٹیپو سلطان کی زندگی سے متعلق باب کو حذف کرنے کا فرمان جاری کیا۔

2015 میں جنوبی بھارت کے سپر سٹار رجنی کانت نے اعلان کیا کہ وہ ٹیپو سلطان کی زندگی پر بننے والی فلم ’ٹائیگر آف میسور ٹیپو سلطان‘ میں سلطان کا کردار ادا کریں گے، لیکن بی جے پی اور دیگر ہندوتوا تنظیموں کے احتجاج کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔

1980 کی دہائی کے اواخر میں جب بالی وڈ کے اداکار و فلمساز سنجے خان نے بھگوان ایس گڈوانی کی بیسٹ سیلر ناول ’دا سورڈ آف ٹیپو سلطان‘ پر مبنی ٹی وی ڈراما بنایا تب بھی ہندو انتہا پسندوں نے احتجاج کیا تھا اور اداکاروں سے کہا تھا کہ وہ اس میں کام نہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 کی دہائی کے اوائل میں بھارتی حکومت نے کرناٹک کے شہر سری رنگا پٹنا (سابق ریاست میسور کا دارالحکومت جو تب سرنگا پٹم کہلاتا تھا) میں ٹیپو سلطان کے نام سے ایک مرکزی یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن بی جے پی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کی مخالفت کے بعد یہ تجویز عملی شکل اختیار نہ کر سکی۔

 

کیا ٹیپو سلطان متعصب اور ظالم حکمران تھے؟

بھارت کے مسلمان اور معتدل ہندو مورخین کا کہنا ہے کہ انتہا پسند اور قوم پرست ہندو تنظیمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاریخ دانوں کے ’جھوٹے پروپیگنڈے‘ کی بنیاد پر ٹیپو سلطان کو ’کٹر متعصب اور ظالم‘ حکمران قرار دے رہی ہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسر ولیم کرک پیٹرک نے اپنی کتاب ’سلیکٹ لیٹرز آف ٹیپو سلطان‘ میں ریاست میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کو ’ایک عدم روادار اور غضبناک یا بےانتہا متشدد‘ قرار دیا ہے۔

سقوطِ سرنگا پٹم کے بعد ولیم کرک پیٹرک کو ٹیپو سلطان کے کاغذات کا معائنہ اور ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ انہوں نے ٹیپو سلطان کے خطوط اور دوسری تمام تحریروں کو جمع کر کے اپنی متذکرہ کتاب سال 1811 میں انگلستان میں طبع کرائی۔

کرک پیٹرک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں ٹیپو سلطان کے متعلق لکھا ہے: ’ان خطوط کے آئینے میں نظر آتا ہے کہ ان کے لکھنے والے (ٹیپو سلطان) ایک ظالم اور بے لگام دشمن، ایک غیر روادار متعصب، ایک مشتعل جنونی، ایک سفاک و بے انصاف حاکم، ایک شوریدہ سر ظالم، ایک متشدد مذاکرات کار، ایک غیر سنجیدہ و غیر متوقع جدت پسند اور ایک بساطی و خردہ فروش تاجر تھے۔‘

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اور افسر و تاریخ دان کرنل مارک ولکس نے اپنی کتاب ’ہسٹوریکل اسکیچز آف دا ساؤتھ آف انڈیا‘ میں ٹیپو سلطان کو ’ایک کٹر متعصب‘ قرار دیا ہے جنہوں نے ان کے مطابق جبراً لوگوں کو مسلمان بنایا، اجتماعی ختنہ کروایا، مندروں کو ڈھایا اور ان کی جائیدادیں ضبط کیں۔

ڈاکٹر شیخ مستان بنگلور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بحیثیت پروفیسر تعینات ہیں۔ وہ ٹیپو سلطان کی شخصیت اور طرزِ حکومت پر کئی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’جن مورخین نے ٹیپو سلطان کو متعصب اور ظالم حکمران کے طور پر پیش کیا ہے ان کا تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی سے تھا۔ فرانسس بکانن ہیملٹن کو بھی ٹیپو سلطان کی موت کے بعد موصوف کی شخصیت اور طرز حکومت کو منفی انداز میں پیش کرنے کے مقصد سے میسور بھیجا گیا تھا، لیکن بکانن نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی توقعات کے برعکس سلطان کی تعریف کی ہے۔ ان کو چھوڑ کر نوآبادیاتی فکر رکھنے والے باقی تمام مورخین نے ٹیپو سلطان کو ویلن کے طور پر پیش کیا ہے۔

’ہم ایک مثالی حکمران سے محض اس وجہ سے بیر نہیں رکھ سکتے کہ انگریز مورخین نے انہیں متعصب اور ظالم قرار دیا ہے۔ ہمیں اپنی آئیڈیالوجی کو ایک طرف رکھ کر تحقیق کرنی چاہیے۔ ٹیپو سلطان کی پالیسیاں اور پروگرام ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ایک رعایا پرور حکمران تھے۔ وہ انگریزوں کو ہندوستان سے باہر کھدیڑنا چاہتے تھے۔‘

ٹیپو سلطان پر زبردستی مذہب تبدیل کرانے اور مندروں کو ڈھانے کے الزامات کے متعلق ڈاکٹر مستان کہتے ہیں: ’وہ اٹھارویں صدی کے حکمران تھے۔ ہم تب کے سیاسی منظرنامے کا آج کی صورتحال سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے کورگ میں بعض سخت اقدام اٹھائے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے لوگ بار بار بغاوت کے مرتکب ہو رہے تھے اور وہ دشمن کی حمایت کرتے تھے۔

’ٹیپو سلطان کے یہ اقدامات محض سیاسی تھے ان کا مذہب کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ان کے کئی وزرا اور افسر ہندو تھے۔ ان کے محل کے بالکل نزدیک سری رنگناتھ مندر ہے جس کی گھنٹیاں انہیں ہر روز یہاں تک نماز کے دوران بھی سنائی دیتی تھیں۔ انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ مندروں اور مٹھوں کو بڑے پیمانے پر عطیات دیتے تھے۔

’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ متعصب نہیں تھے۔ آج کی تاریخ میں ٹیپو سلطان کو محض ووٹوں اور اقتدار کے لیے متعصب قرار دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اُن کی مخالفت کرتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کیا تھے۔ وہ حقیقت کا اظہار اس لیے نہیں کریں گے کیونکہ وہ سیاسی فائدے گنوا دیں گے۔‘

بھارتی مورخ محب الحسن اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان متعصب نہیں بلکہ ایک روشن خیال حکمران تھے جنہوں نے اپنی حکومت میں ہندوؤں کو اعلیٰ منصب عطا کیے۔ انہیں پرستش کی مکمل آزادی دی، بت تراشنے کے لیے رقمیں دیں اور ایک موقع پر تو مندر تعمیر کرنے کا بھی حکم دیا۔

’اس میں شک نہیں کہ ٹیپو سلطان نے کبھی کبھی اپنی ہندو رعایا کے خلاف سخت اقدام اٹھائے، لیکن ایسا انہوں نے مذہب کی بنا پر نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے نمک حرامی کی تھی۔ ٹیپو نے بھی اپنے باپ حیدر علی کی طرح مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ رکھا اور شاذ ہی انہوں نے انتظامی معاملات میں اپنے ذاتی عقائد کو اثر انداز ہونے دیا۔ نمک حرامی اور غداری کرنے والی مسلمان رعایا کے ساتھ بھی وہ یکساں سختی برتتے تھے۔‘

محمود خان محمود بنگلوری اپنی کتاب ’تاریخ سلطنت خداداد: میسور‘ میں لکھتے ہیں کہ میسور کا ذرہ ذرہ ٹیپو سلطان کی بے تعصبی اور مذہبی رواداری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

’ریاست میسور میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو عمارتیں ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہیں وہ ہندوؤں کے قدیم معابد و منادر ہیں جن میں بعض کی تعمیر ہزار سال سے پیشتر کی ہے۔ سلطان اگر متعصب ہوتے تو اُن کے لیے آسان تھا کہ ان مندروں کا نام و نشان مٹا دیتے۔ بخلاف اس کے ان مندروں میں سلطان کی دی ہوئی جاگیرات کے فرامین موجود ہیں جن سے آج بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

’سلطان کا پایہ تخت سرنگا پٹم ہر شخص کا دیکھا ہوا ہے اور ہر سال ہزارہا لوگ اس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن پر اترتے ہی سب سے پہلے زائر کی نگاہ ان دو بڑے مندروں پر پڑتی ہے جو سٹیشن سے بالکل قریب ہیں۔ سلطان کا محل انہی مندروں کے بالکل قریب تھا۔ محل کے پیچھے بلکہ محل سے لگا ہوا ایک اور بڑا مندر ہے۔ بنگلور میں بھی محل سے لگا ہوا ایک چھوٹا مندر ابھی تک موجود ہے۔

‘اس کے علاوہ میسور کے علاقے میں سرنگیری، بیلور، ننجن گڑھ، السور وغیرہ میں ایسے مندر موجود ہیں جن کی تعمیر صدیوں پیشتر کی ہے۔ سلطان نے ان مندروں سے کوئی تعرض نہیں کیا بلکہ انہیں اپنی طرف سے جاگیریں دیں اور یہاں کے گروؤں کی اس کے ہاں حد درجہ وقعت تھی جس کا ثبوت میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے آرکیولاجیکل رپورٹوں سے بخوبی ملتا ہے۔‘

محب الحسن لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی مکمل آزادی دی تھی۔ یہاں تک کہ سری رنگا ناتھ کا مندر قلعہ سرنگا پٹم کے حدود میں محل سے صرف ایک سو گز کی دوری پر واقع تھا جہاں سے سلطان روزانہ مندر کے گھنٹوں کی آوازیں اور برہمن پجاریوں کے بھجن سنا کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس میں مداخلت نہیں کی۔

’قلعہ میں، محل کے قریب، نرسمہا اور گنگا دھر یسورا کے دو اور مندر تھے، لیکن نہ تو ان مندروں میں اور نہ ہزارہا مندروں میں جو ان کی مملکت کے طول و عرض میں پھیلے تھے، انہوں نے ہندوؤں کو کبھی پوجا پاٹ کی ممانعت نہیں کی۔ اس کے برعکس برہمنوں کو ان کے مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے اکثر نقد رقمیں دیں۔‘

محمد الیاس ندوی نے اپنی کتاب ’سیرت سلطان ٹیپو شہید‘ میں لکھا ہے کہ انگریز مورخین نے ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کے لیے تکذیب و مبالغہ آرائی اور علمی خیانت سے کام لیا ہے۔

‘ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ سلطان نے صرف کورگ شہر میں 70 ہزار لوگوں کو مسلمان بنایا تھا حالانکہ تاریخ میسور کا ایک معمولی طالب علم بھی اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ عہد ٹیپو میں کورگ کی جملہ آبادی 25 سے 30 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ اس میں بھی کئی ہزار مسلمان اور عیسائی شامل تھے۔

’ایک ہندو مورخ رام چند راﺅ پنگنوری کا کہنا ہے کہ کورگ پر سلطان کے قبضہ کے بعد وہاں کے صرف پانچ سو لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ بھی اس وقت جب ان ہندوؤں کو جو ہندومت کی نسلی تفریق سے تنگ آ کر عیسائیت قبول کرنے والے تھے۔ اس نے حکم دیا کہ وہ اپنا آبائی مذہب بالکل نہ چھوڑیں۔ اگر ان کو کسی وجہ سے اس پر اصرار ہی ہے تو اپنے بادشاہ کا مذہب یعنی اسلام اختیار کریں۔

’چنانچہ اس موقع پر سریندر ناتھ سین (بھارتی مورخ) نے سلطان کو یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کی کہ وہ متعصب تو نہیں تھے البتہ جبراً انہوں نے لوگوں کو جو مسلمان بنایا اس کا مقصد مذہبی نہیں سیاسی تھا اس کی پشت پر سیاسی محرکات کارفرما تھے۔ مہاتما گاندھی نے بھی سلطان پر لگائے جانے والے اس الزام کو صاف جھوٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیپو کے اپنی ہندو رعایا کے ساتھ تعلقات نہایت ہی دوستانہ تھے اور وہ ہندو مسلم اتحاد کے محرک تھے۔‘

ندوی مزید لکھتے ہیں: ’یہ بات اگرچہ صحیح ہے کہ سلطان نے بعض ہندوؤں کے ساتھ سختی کی مثلاً کرشنا راﺅ اور ان کے بھائیوں کو پھانسی کی سزا دی اور بعض دوسرے لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن یہ سزائیں اِن کو ہندو ہونے کی وجہ سے نہیں دی گئیں بلکہ اس کا سبب ان کی نمک حرامی و غداری تھی۔

’اس طرح کا انتقام انہوں نے خود بعض مسلمانوں سے بھی لیا مثلاً انگریز سپاہیوں کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے بعض مسلم خواتین کو قتل کر دیا۔ محمد قاسم کو غداری کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عثمان خان کشمیری کو پھانسی کی سزا دی۔

’جہاں ایک طرف ہندو مرہٹوں اور راجہ ٹراونکور سے سلطان کی جنگیں ہوئیں تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں سے بھی ان کی کئی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ مذہبی تعصب و تشدد کا الزام اس پر اس وقت صحیح ہوتا جب وہ غداری و بغاوت کی سزا میں مسلمانوں کو تو معاف اور ہندوؤں و عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے۔‘

تاہم محب الحسن کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان مذہب کی تبدیلی کو اس رعایا کے لیے ایک سزا متصور کرتے تھے جو بار بار بغاوت کے جرم کی مرتکب ہوتی تھی۔

’یہ بتانا مشکل ہے کہ کورگ اور مالابار کے کتنے باشندوں کو مسلمان بنایا گیا۔ اس سلسلے میں انگریزوں کے بیانات کو باور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بڑی حد تک ان کا مقصد ٹیپو کو بدنام کرنا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا تھا۔ مسلمانوں کے بیانات کو بھی اس سلسلے میں قابل اعتماد نہیں کہا جا سکتا کیونکہ سلطان کو وہ اسلام کا علمبردار بنا کر پیش کرنے پر تلے ہیں۔ ان میں مبالغہ آرائی کا، واقعات کی تکذیب کا اور انہیں توڑ مروڑ کر کے پیش کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔

’وہ (مسلمان) سلطان کے گرد ایک مذہبی ہالہ بنانا اور اسے مذہبی ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً ’سلطان التواریخ‘ میں لکھا ہے کہ کورگ میں 70 ہزار ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام کیا گیا، لیکن یہ ایک مہمل بیان ہے کیونکہ اس وقت کورگ کی آبادی بھی اس سے بہت کم تھی۔‘

ٹیپو سلطان ہندوستان میں انگریزوں کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے، اور انہوں نے انگریزوں کو یہاں سے نکال باہر کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز بھی ان کے سخت دشمن بن گئے تھے اور انہوں نے جنگی میدان میں ٹیپو سلطان کو شکست دینے پر ہی اکتفا نہیں کی، بلکہ ان کی کردار کشی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ اس مقصد میں پوری طرح کامیاب بھی رہے۔

ٹیپو سلطان کو شکست دینے کے بعد انگریز ان کی ذاتی اشیا کو برطانیہ لے گئے اور وہاں ان کی نمائش کی گئی۔ آج بھی لندن کے مشہور البرٹ اینڈ وکٹوریہ میوزیم میں ٹیپو سلطان کا مشہور شیر اور انگریز والا مجسمہ موجود ہے، جسے دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔

جب مرہٹہ فوج نے سرنگیری مندر کو مسمار کر دیا

1791 میں میسور کی تیسری جنگ کے دوران جب مرہٹہ فوج نے سرنگیری مٹھ پر حملہ کرتے ہوئے اس کی مندر کو مسمار کر دیا اور ساردا دیوی کی مورتی کو اپنی جگہ سے نکال کر پھینک دیا تو ٹیپو سلطان نے اس کی دوبارہ تعمیر کروائی اور مورتی واپس اپنی جگہ رکھوائی۔

محب الحسن اپنی کتاب ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں سرنگیری مندر پر حملے کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر راؤ بہادر نرسمہاچاریہ کو 1916 میں خطوط کا ایک بنڈل سرنگیری کے مندر میں ملا تھا۔ یہ خطوط جو ٹیپو نے مندر کے پجاری کے نام لکھے تھے وہ اس کی مذہبی پالیسی پر بہت روشنی ڈالتے ہیں۔

’معلوم ہوتا ہے کہ مرہٹہ سواروں نے رگھوناتھ راؤ پٹوردھن کی قیادت میں سرنگیری پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مجروح و مقتول ہوئے، جن میں کچھ برہمن بھی تھے۔ مرہٹوں نے مندر کی ساری قیمتی املاک کو لوٹا اور ساردا دیوی کی مورتی کو اس کی جگہ سے ہٹا کر اس کی بے حرمتی کی۔

’ان حالات کی بنا پر مندر کے سوامی (شنکر گرو اچاریہ) کو وہ جگہ چھوڑنی پڑی اور وہ کارکل کے مقام پر رہنے لگا۔ انہوں نے ٹیپو کو مرہٹوں کے حملے کی اطلاع دیتے ہوئے مندر کی تقدیس کو بحال کرنے کے سلسلے میں ان سے امداد کی درخواست کی تھی۔ یہ خبر سن کر ٹیپو کو رنج ہوا اور غصہ بھی آیا۔

’جواب میں انہوں نے لکھا۔۔۔ "جو لوگ ایسے متبرک مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں انہیں اس کلجُگ میں بھی جلد ہی اپنی بداعمالیوں کی سزا اس شعر کے مطابق مل جاتی ہے۔۔۔ لوگ بداعمالیاں تو ہنس ہنس کر کرتے ہیں، لیکن اس کے نتائج انہیں رو رو کر بھگتنے ہوتے ہیں ۔۔۔ گروؤں کے ساتھ غداری کرنے کے نتیجے میں انسان کی نسل ہی منقطع ہو جاتی ہے۔

’اس کے ساتھ ہی بدنور (سابق ریاست میسور کا ایک علاقہ) کے آصف کو اس نے حکم دیا کہ ساردا دیوی کے مندر کی تعمیر کے لیے دو سو راحتی (سلطانی اشرفی) نقد اور دو سو راحتی کا غلہ اور دوسرا سامان، جس کی ضرورت ہو، فراہم کیا جائے۔

’سوامی کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے ٹیپو سلطان نے ان سے درخواست کی کہ دیوی کے مندر کے تعمیر اور برہمنوں کو کھلانے کے بعد ہماری خوشحالی کے لیے اور دشمن کی تباہی کے لیے دعا کریں۔ مندر میں دیوی کی مورتی نصب کیے جانے کے بعد سوامی نے ٹیپو کے لیے پرساد اور شال بھیجی اور اس کے جواب میں انہوں نے بھی دیوی کے لیے پوشش اور سوامی کے لیے ایک جوڑا شال بھیجی۔‘

محمود خان محمود بنگلوری نے اپنی کتاب میں سرنگیری کے مندر میں ملنے والے خطوط کے حوالے سے ‘میسور کی آرکیولاجیکل رپورٹ برائے سال 1916’ کو بھی شامل کیا ہے۔

رپورٹ میں لکھا ہے: ’سرنگیری کے مندر میں نواب حیدر علی (ٹیپو سلطان کے والد) کے تین اور ٹیپو سلطان کے تیس خطوط و فرامین ملے ہیں۔ ان تمام فرامین و خطوط میں سلطان نے سنہ ہجری کے ساتھ سنہ مولودی بھی استعمال کیا ہے جو اُن کی خاص ایجاد ہے۔ یہ تمام خطوط و فرامین سرخ کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں اور ان میں اکثر خطوط کے لوح پر سلطان کی مہر موجود ہے۔

’ان خطوط میں بخلاف دوسرے خطوط کے جن میں سلطان کا نام پہلے لکھا جاتا تھا۔ سلطان نے سرنگیری کے سوامی کا نام اور القاب پہلے لکھا ہے اور اپنے نام کے ساتھ کوئی خطاب یا القاب استعمال نہیں کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے خطوط میسور کی تیسری جنگ کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں اور بعض خطوط سرنگیری کے سوامی کے خطوط کے جواب میں لکھے گئے ہیں۔‘

محمد الیاس ندوی لکھتے ہیں کہ جب سوامی شنکر گرو اچاریہ پونا کے مرہٹہ سردار پرسرام بھاؤ کے پاس اپنی لوٹی ہوئی اشیا کا مطالبہ کرنے کے لیے گئے اور ان کی واپسی میں دیر ہو گئی تو ٹیپو سلطان نے خط لکھا کہ آپ فوراً واپس آ جائیں اس لیے کہ آپ کی ہماری سلطنت میں موجودگی سے خدا کی رحمتیں برستی ہیں اور فصلیں اچھی ہوتی ہیں۔

محمود خان محمود بنگلوری سوامی اچاریہ کے پونا دورے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’سوامی جی نے پونا میں پرسرام سے ملاقتیں کیں، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اس لیے ان کو وہاں زیادہ عرصہ لگ گیا۔ اس پر سلطان نے انہیں ایک خط لکھا جس کا متن کچھ یوں ہے:

’آپ جگت گرو ہیں۔ آپ دنیا کی بھلائی کے لیے ہمیشہ عبادت میں رہتے ہیں۔ جس ملک میں آپ جیسی مقدس ہستی موجود ہو اس ملک میں خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ بارش اچھی اور فصلیں عمدہ ہوتی ہیں۔ آپ کو ایک غیر ملک میں اس قدر عرصہ ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اپنا کام جلد انجام کو پہنچا کر اپنے ملک میں واپس آ جائیں۔

’1798 میں سوامی جی نے اطلاع دی کہ وہ پونا سے واپس آنے والے ہیں۔ اس کے جواب میں سلطان نے اپنے افسروں کے نام حکمنامہ جاری کیا کہ راستے میں سوامی جی کو تمام ضروریات فراہم کرتے ہوئے ان کے تمام اعزاز و مراتب کا لحاظ رکھا جائے۔ اس کے بعد ایک اور خط میں سلطان نے سوامی جی سے درخواست کی کہ وہ اپنا درشن دیں۔‘

محب الحسن ’ہسٹری آف ٹیپو سلطان‘ میں مندر سے برآمد ہونے والے خطوط کے بارے میں مزید لکھتے ہیں: ’یہ تمام خطوط پُرتعظیم لب و لہجہ میں لکھے گئے ہیں جس سے ایک مقدس شخصیت کے لیے احترام کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ان خطوط سے اس مہمل خیال کی بھی واضح تردید ہوتی ہے کہ ٹیپو اپنی ہندو رعایا پر ظلم کرتا تھا۔ اگر وہ متعصب ہوتے تو ایک پجاری کو نہ تو وہ ’جگت گرو‘ لکھتے اور نہ مورتی تیار کرنے کے لیے اور ہندو مذہبی تقریب کے لیے روپیہ اور سامان ہی فراہم کرتے۔

’اس سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوامی کے ساتھ اور مندر کے لیے جو فیاضی انہوں نے برتی تھی اس کا مقصد ایک ایسے وقت میں اپنی ہندو رعایا کی دلجوئی کرنا اور ان کا سرگرم تعاون حاصل کرنا تھا جبکہ وہ ہر طرف سے دشمنوں سے گھرا تھا۔ لیکن اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ مندر میں دلچسپی اور سوامی سے موانست صرف جنگ ہی کے دنوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا سلسلہ انتزاع سلطنت کے وقت تک جاری رہا۔‘

مندروں کو تحفے اور عطیات

ٹیپو سلطان نے اپنے عہد حکمرانی کے دوران صرف سرنگیری کے مندر کو نہیں بلکہ اپنی سلطنت میں قائم دوسرے مندروں کو بھی عطیات اور قیمتی تحائف سے نوازتے رہے۔

محب الحسن لکھتے ہیں: ’تعلقہ ننجن گڑھ کے ایک موضع کلالی کے (لکشمی کنتا) مندر میں چاندی کے چار پیالوں، ایک پلیٹ اور اگالدان کے کتبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ٹیپو نے مندر کی نذر کیا تھا۔ اسی طرح میل کوٹ کے نارائن سوامی مندر میں بھی کچھ جواہرات اور چاندی کے برتن ہیں جن پر کندہ عبارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ٹیپو نے نذر کے طور پر بھیجے تھے۔

’ٹیپو نے 1785 میں اسی (نارائن سوامی مندر) مندر کو بارہ ہاتھی اور 1786 میں ایک نقارہ بھی نذر کیے تھے۔ سلطان نے ایک مرصع پیالہ، جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جواہرات جڑے تھے، ننجن گڑھ کے سری کنیشور مندر کو پیش کیے تھے۔

‘سری رنگا پٹنم کے رنگناتھ مندر میں بھی چاندی کے سات پیالے اور ایک کافور دان ہے، جن کی کندہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹیپو سلطان نے تحفہ کے طور پر پیش کیے تھے۔ ننجن گڑھ کے مندر ننجا ندیشور میں ایک لنگ ہے جسے ’بادشاہ‘ یا ’پادشاہ لنگ‘ کہتے ہیں اور اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیپو کے حکم سے نصب کیا گیا تھا۔‘

میسور آرکیولاجیکل ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ برائے سال 1917 میں بھی ننجن گڑھ کے لکشمی کنتا مندر اور میل کوٹ کے نارائن سوامی مندر کو ٹیپو سلطان کی طرف سے دیے گئے تحائف کا ذکر کیا گیا ہے۔

مالابار (ریاست کیرلا کا علاقہ) کے گروایور پر قبضہ کے دوران جب ٹیپو سلطان کی فوج میں شامل مسلمان سپاہیوں نے وہاں کے مندر کو آگ لگا کر نقصان پہنچایا تو انہوں نے اطلاع ملنے پر نہ صرف ملوث سپاہیوں کو سزا دی بلکہ مندر کی مرمت بھی کروائی۔

اس واقعے کے بارے میں محمود خان محمود بنگلوری لکھتے ہیں: ’مالابار میں گروایور کا مندر بہت پرانا اور مشہور ہے۔ مالابار کے ہندوؤں کا اگر اس کو کعبہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ ہزاروں خوش اعتقاد اس کی زیارت کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔

‘کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے مشہور دیوتا اوتار کرشن جی مہاراج کے والد واسدیو نے وشنو کی یہ مورت اپنی پرستش کے لیے ایک خواب دیکھ کر بنائی تھی اور گرو برہسپتی اور وایو نے جنوبی ہند میں ایک مناسب مقام تلاش کر کے یہ مورت نصب کی اور اس لیے اس کا نام گروایور قرار پایا۔

’ٹیپو سلطان جب مالابار کو فتح کرتے ہوئے گروایور کے قریب پہنچے تو اس مندر کے پجاری بہت گھبرائے اور انہوں نے دیوتا کی بیش قیمتی مورت کو ریاست ٹراونکور کے ایک مشہور مندر میں بھیج دیا۔

’ٹیپو سلطان تو گروایور کے قریب ہی ایک مقام پر رک گئے اور اپنی فوجیوں کو گروایور فتح کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے سپاہیوں نے گروایور کو فتح کر لیا اور چونکہ اُن دنوں مسلمانوں کی مرہٹوں سے لڑائیاں ہو رہی تھیں اس لیے بعض مسلمان سپاہیوں نے از راہ انتقام اس مندر کو جلا کر خاک کر دینا چاہا۔

’چنانچہ چند سپاہیوں نے مندر کی دیواروں پر گھی چھڑک کر آگ لگا دی۔ عمارت تھوڑی ہی جلنے پائی تھی کہ ٹیپو سلطان کے افسروں کو اپنے بادشاہ کے احکام کا خیال آ گیا اور انہوں نے جلدی جلدی آگ بجھا کر مندر کے تین برہمنوں کو ٹیپو سلطان کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر شورش پسند سپاہیوں کی شکایت کریں۔

‘ٹیپو سلطان نے جس وقت پجاریوں سے یہ سنا کہ اُن کے چند شریر سپاہیوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور رات ہی رات سفر طے کر کے گروایور پہنچے۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے تحقیقات شروع کی۔

’جن مسلمان سپاہیوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی تھی ان کو سخت سزا دی۔ مندر کو درست کرایا اور حکم دیا کہ اس شہر سے جو کچھ آمدنی ہو وہ سرکاری خزانے میں داخل کرنے کی بجائے ہمیشہ اس مندر کو بخش دی جائے۔ جب ٹیپو سلطان کو معلوم ہوا کہ پجاریوں نے میرے خوف سے مندر کی مورتی کو ٹراونکور بھیج دیا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ دیوتا کی مورت کو فوراً واپس منگا کر اس مندر میں نصب کیا جائے۔’

محب الحسن نے لکھا ہے کہ 1780 میں جب ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے کرناٹک پر حملہ کیا تو کانجی ورم میں انہوں نے گوپور مندر کی بنیاد رکھی تھی، لیکن وہ اسے مکمل نہیں کرا سکے تھے۔

’تیسری اینگلو میسور جنگ کے زمانے میں جب ٹیپو اس مقام پر گئے تو مندر کی تکمیل کے لیے دس ہزار ہون کا عطیہ دیا۔ اس جگہ اپنے قیام کے دوران میں رتھ کے تہوار میں بھی انہوں نے حصہ لیا اور اس موقع پر جو آتشبازیاں چھوڑی گئی تھیں اس کے اخراجات بھی برداشت کیے۔‘

برطانوی مورخ لیوس رائس نے ‘میسور گزیٹر’ میں ہندوؤں کے مندروں و مٹھوں اور مسلمانوں کی مساجد اور درگاہوں کے رکھ رکھاؤ کے لیے ٹیپو سلطان کی طرف سے دیے جانے والے سالانہ عطیات کی تفصیلات شامل کی ہیں۔

عطیات کی تفصیلات کے مطابق ہندوؤں کے مندروں کو سالانہ 19 لاکھ 39 ہزار 59 پگوڈے (سکے) جبکہ برہمنوں کے مٹھوں اور مسلمانوں کی مساجد اور درگاہوں کو سالانہ بالترتیب بیس بیس ہزار پگوڈے دیے جاتے تھے۔

لیوس رائس کے مطابق یہ تفصیلات ٹیپو سلطان کے وزیر خزانہ پورنیا نے ‘میسور کمیشن’ کو فراہم کی تھیں جو سرنگا پٹم کے سقوط کے بعد سلطنت کی تقسیم اور انتظام کے لیے مقرر ہوا تھا۔

ڈاکٹر سی کے کریم اپنی کتاب ’کیرلا انڈر حیدر علی اینڈ ٹیپو سلطان‘ میں لکھتے ہیں کہ صرف کیرلا کے جنوبی ضلع کے ایک تعلقہ کے 60 مندروں کو سلطان نے سرکاری خزانے سے سالانہ عطیات جاری کیے تھے نیز گور یاریا کے مندر کو ہی 613 ایکڑ قابل کاشت زمین بطور انعام دی تھی۔

مالابار کے مندروں و برہمنوں کو جو زمین بغیر سرکاری لگان کے ٹیپو سلطان نے دی تھیں اس کی تفصیلات محب الحسن نے اپنی کتاب میں کچھ اس طرح پیش کی ہیں: ‘کالی کٹ کے قصبہ امسوم کے تریکنٹیشور وٹاکوام کنعاؤ مندر کے لیے 195 ایکڑ، چیلم برا تعلقہ اراند کے مانور مندر کے لیے 73 ایکڑ، پونانی کے گورو یادر مندر، تروانچکسولم مندر اور نمودری پد مندر کے لیے بالترتیب 504 ایکڑ، 212 ایکڑ اور 135 ایکڑ زمین دی گئی ہے۔‘

مسجد کی تعمیر کے لیے ہندو سوامیوں سے اجازت

محمد الیاس ندوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے اپنے محل کے قریب مسجد اعلیٰ تعمیر کرنے کے لیے باضابطہ طور پر سری رنگناتھ مندر کے سوامیوں کی اجازت حاصل کی تھی۔

’بچپن میں ایک درویش کی طرف سے ان کے حق میں کی گئی پیشن گوئی کے پورا ہونے کے بعد جب سلطان تخت میسور کا وارث بنے تو انہوں نے اس درویش سے کیے گئے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے محل کے قریب مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا۔

‘چونکہ محل کے قریب سری رنگناتھ کا مندر پہلے سے موجود تھا اس لیے اسی سے متصل مسجد کی تعمیر کے لیے انہوں نے سب سے پہلے ہندو سوامیوں اور عوام سے اس کی اجازت حاصل کی۔

’ان کی مرضی کے بغیر اس جگہ مسجد کی تعمیر کو وہ صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ ان سے اجازت ملنے کے بعد انہوں نے اس جگہ مسجد اعلیٰ کی بنیاد رکھی۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی طاقت کے بل بوتے پر بادشاہ ہونے کی وجہ سے ان کی اجازت کے بغیر ہی اس جگہ پر مسجد بنا سکتے تھے۔‘

ٹیپو سلطان کے ہندو وزیر اور افسر

ٹیپو سلطان نے اپنے والد حیدر علی کی طرح ہندوؤں کو اعلیٰ عہدوں پر مامور کیا تھا۔ ہندو برہمن پورنیا سلطان کی ہلاکت تک پوری سلطنت کے وزیر خزانہ اور اختیارات کے اعتبار سے وزیر اعظم میر صادق کے بعد سلطان کے نائب دوم اور دیوان سلطنت تھے۔

کرشنا راؤ افسر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ لالہ مہتاب رائے سبقت ٹیپو سلطان کے ذاتی منشی اور خاص معتمد تھے۔ وہ اردو اور فارسی زبان کے شاعر بھی تھے۔ ٹیپو سلطان کے بادشاہوں کے نام اکثر خطوط لالہ مہتاب نے ہی لکھے ہیں۔

انچے شمیا ڈاک اور پولیس محکموں کے وزیر تھے۔ ان کے بھائی نرسنگا راؤ کے پاس سرنگا پٹم میں متعدد اہم عہدے رہے ہیں۔ سری نواس راؤ اور اپا جی رام ٹیپو سلطان کے معتمد خصوصی تھے جنہیں اہم سفارتی مشنوں پر بھیجا جاتا تھا۔

سرنگا پٹم اور بنگلور کے قلعے سلطنت میں خاص وقعت اور حیثیت رکھتے تھے اور ان کے استحکام پر سلطنت کا دار و مدار تھا۔ ان قلعوں کے قلعہ دار کشن راؤ اور شتاب رائے تھے۔

مولچند اور سوجان رائے مغل دربار میں ٹیپو سلطان کے وکیل تھے۔ ہری سنگھ میسور کی سوار فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ سیواجی کے ہاتھ میں تین ہزار سواروں کی کمان تھی اور 1791 میں بنگلور کے محاصرے کے وقت وہ بڑی دلیری سے لڑے تھے۔

محب الحسن کے مطابق ٹیپو سلطان کے بہت سے عامل اور مال کے افسر ہندو تھے۔ فوج میں ہندوؤں کو اہم عہدے دیے گئے تھے۔ ایک برہمن کو کورگ کا فوجدار مقرر کیا گیا تھا۔ ایک دوسرے برہمن کو کوئمبٹور کا آصف مقرر کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ