حضرت محل انگریزوں کے خلاف ڈٹ گئیں

1857 کی جنگ آزادی میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی حصہ لیا جن میں حضرت محل کا نام سب سے نمایاں ہے۔

(وکی پیڈیا)

1857 کی جنگ آزادی کا آغاز تو انگریزی فوج کے سپاہیوں نے کیا تھا مگر بعد میں اس میں وہ والیانِ ریاست بھی شامل ہو گئے جن کی ریاستیں اُن کی وفات کے بعد کمپنی کی حکومت نے ضبط کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ باغیوں میں اودھ کے تعلق دار اور کسان بھی شامل ہو گئے جنہیں کمپنی کی حکومت سے شکایات تھیں۔

مردوں کے ساتھ ساتھ اس جنگ میں عورتوں نے بھی حصہ لیا۔ ان عورتوں میں کانپور کی عزیزن بی بی شامل تھیں۔ گرفتاری کے بعد اس پر مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا دی گئی۔

لکھنو کے قریب ایک محاذ پر جب انگریزوں سے لڑائی ہو رہی تھی تو ایک اونچے درخت سے کسی نے گولیاں چلا کر کئی انگریزی فوج کے سپاہیوں کو مارا۔ اس پر ایک انگریز افسر نے اُس مقام پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں درخت سے ایک عورت کی لاش نیچے گری۔ گولیاں چلانے والی یہ عورت تھی جس کے پاس کارتوس ختم ہو چکے تھے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا نام اودا دیوی تھا اور ان کا تعلق لکھنو کے ایک پارسی خاندان سے تھا۔

جنگ میں لکھنو کی طوائفوں نے بھی مالی مدد کی تھی جس کی وجہ سے جنگ کے بعد انگریزی حکومت نے ان کی جائیدادیں ضبط کر لی تھیں۔ نئی تحقیق کے مطابق دلت ذات کے مردوں اور عورتوں نے بھی جنگ میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ لیکن خصوصیت سے دو عورتوں نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے تاریخ میں شہرت حاصل کی۔ لکشمی بائی جو جھانسی کی رانی تھیں وہ لڑتے ہوئے ماری گئیں اور دوسری حضرت محل تھیں۔ جن کا کردار بھی نہایت اہم رہا۔

حضرت محل کی پیدائش فیض آباد کے ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ اپنی غربت کی وجہ سے ان کے ماں باپ نے انہیں فروخت کر دیا اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے یہ واجد علی شاہ کے حرم میں پہنچ گئیں۔ ان کا اصل نام تو محمدی خانم تھا لیکن واجد علی شاہ کو اپنے حرم کی خواتین کو خطابات دینے کا بڑا شوق تھا، لہٰذا انہیں ’مہک پری‘ کا خطاب ملا۔

کچھ عرصہ گزرا تو ان کے ہاں ایک بیٹے برجیس قدر کی پیدائش ہوئی اور جس کو واجد علی شاہ کا جانشین ہونا تھا تو انہیں ’افتخار النسا‘ کا خطاب دیا گیا جس کے بعد یہ ’حضرت محل‘ کے خطاب سے مشہور ہوئیں۔

1856 میں جب اودھ کی سلطنت پر کمپنی کی حکومت نے قبضہ کر لیا اور واجد علی شاہ کو کلکتہ میں جلاوطن کر دیا تو حضرت محل لکھنو میں ہی مقیم رہیں۔ یہاں تک کہ 1857 میں انگریزوں کے خلاف ایک بڑی بغاوت پھوٹ پڑی۔

حضرت محل نے بھی بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیٹے برجیس قدر کی بادشاہت کا اعلان کیا اور انگریزی فوجوں سے مقابلے کے لیے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے نانا صاحب اور مولوی احمد اللہ شاہ سے رابطے قائم کیے۔

انگریزی فوج نے پہلے دہلی کا محاصرہ کر کے شہر پر قبضہ کیا پھر اُس کے بعد اُن کی فوج لکھنو کی جانب روانہ ہوئی۔ حضرت محل نے کئی محاذوں پر اُن سے جنگیں لڑیں مگر جب انہیں پے در پے شکستیں ہوئیں تو ہتھیار ڈالنے کے بجائے جلاوطنی کو ترجیح دی کٹھمنڈو میں اپنے وفادار ساتھیوں کے ہاں پناہ لی۔

خاص بات یہ ہے کہ نیپال سے وہاں کے وزیرِ اعظم جنگ بہادر انگریزوں کی مدد کے لیے آئے تھے اور جنگ کے بعد وہ ایک سو گاڑیوں میں لوٹ کا مال بھر کے لکھنو سے واپس گئے۔ پہلے تو انہوں نے حضرت محل کے نیپال میں داخلے پر اعتراض کیا لیکن بعد میں اجازت دے دی۔

جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ حضرت محل سیاست اور ڈپلومیسی کے معاملات میں بھی گہری رائے رکھتی تھیں۔ اس کا اندازہ اُن کے اُس اعلان سے ہوتا ہے جو اُنہوں نے ملکہ وکٹوریہ کے جواب میں لکھا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1857 کی جنگ آزادی کے خاتمے کے بعد 1858 میں ملکہ وکٹوریہ نے اپنا یہ بیان جاری کیا تھا:

’کمپنی کا راج اب ختم ہوا، اس کی جگہ حکومت ہندوستان کی باگ ہم نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ہماری انگریزی رعایا کے قتل میں حصہ لینے کے مجرم ہیں، باقی جو لوگ بھی ہتھیار رکھ دیں گے اُن سب کو معاف کر دیا جائے گا۔ ہندوستانیوں کی گود لینے کی رسم آئندہ سے جائز سمجھی جائے گی اور گود لیے لڑکے کو باپ کی جائیداد اور گدی کا مالک مانا جائے گا۔

’کسی کے مذہبی عقیدوں یا مذہبی رسم و رواج میں کسی طرح کی مداخلت نہ کی جائے گی۔ ہندوستان والیان ریاست کے ساتھ کمپنی نے اس وقت تک جتنے عہدنامے کیے ہیں ان کی سب شرطوں پر آئندہ ایمانداری کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس کے بعد کسی ہندوستانی رئیس کی ریاست یا اس کا کوئی حق نہ چھینا جائے گا۔‘

اس کے جواب میں حضرت محل نے کمپنی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھا:

’موجودہ حالات میں کچھ ایسے ناسمجھ اور بیوقوف لوگ ہیں جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ انگریزی حکومت نے ہندوستان کے لوگوں کی غلطیوں اور جرائم کو معاف کر دیا ہے۔ یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کیونکہ یہ اُن کی روایت رہی ہے کہ غلطی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی وہ اُسے معاف نہیں کرتے۔۔۔

’یہ بات اعلامیے میں درج ہے کہ ہندوستان کا ملک جس پر کمپنی کا اقتدار تھا اب اُس پر ملکہ کی حکومت ہے، اور یہ کہ مستقبل میں ملکہ کے احکامات کی تعمیل ہو گی اور ہماری رعایا کو کمپنی کے قوانین پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے معاہدے، کمپنی کے ملازمین پر، گورنر جنرل پر اور عدلیہ کی انتظامیہ پر اس لیے کہ یہ سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔ لوگ کس پر اعتبار کریں کیونکہ لوگوں کے فائدے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمپنی نے جو بھی معاہدے کیے ملکہ وہ تمام معاہدے تسلیم کرے گی۔ لوگوں کو بڑے دھیان سے اس فریب کو سمجھ لینا چاہیے۔ کمپنی نے ہندوستان کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور اگر اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس میں لوگوں کے لیے کیا نیا ہے؟‘

حضرت محل نے اپنی بقیہ زندگی کٹھمنڈو میں گزاری اور 1879 میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ انہیں کٹھمنڈو کی جامع مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔

1887 میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر انگریزوں نے حضرت محل کے بیٹے برجیس قدر کو معاف کر دیا اور انہیں ہندوستان لوٹنے کی اجازت دے دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ