ہندوستان جہاں ستی کی رسم پاکیزگی کی علامت تھی

جب شمالی ہندوستان میں ذات پات کی سختی آئی تو اس کا اثر عورت کی ذات پر بھی ہوا۔ برہمن ذات بااثر ہوتی چلی گئی اور مذہبی رسومات پر اُن کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ اُنہوں نے عورتوں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی اور اُنہیں بھجن گانے کی اجازت بھی نہ رہی۔

ستی کو ہندوستانی معاشرے میں انتہائی باعزت اور مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا (مصور: محمد رضا)

میجسٹریٹ نے عورت کو قائل کرنے کی بڑی کوشش کی، اسے روپے پیسے کا لالچ بھی دیا لیکن اس کا جواب ایک ہی تھا: ’اگر تم مجھے میرے پتی کی چتا کے ساتھ جل مرنے نہیں دو گے تو میں تمہاری عدالت ہی میں خود کو پھندا ڈال لوں گی۔‘

یہ ایک ہندو بیوہ کے الفاظ ہیں جس کی ستی کی رسم کا احوال انگریز عورت فینی پارکس نے لکھا ہے، جو اپنے خاوند کی ملازمت کے دوران 19ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان میں مقیم رہی۔

چونکہ خاوند کے مرنے کے بعد اور ستی کی رسم تک بیوائیں کچھ کھا پی نہیں سکتی تھیں اس لیے انگریز میجسٹریٹ نے 48 گھنٹوں تک چتا جلانے کی رسم ملتوی کیے رکھی تاکہ عورت کچھ کھا کر ستی سے بچ جائے، لیکن اس نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔

بالآخر جب خاوند کی چتا کو آگ لگائی گئی تو وہ اس کے اندر گھس گئی۔ تاہم جب اس کے کپڑوں کو آگ لگی تو وہ چتا سے کود گئی۔ اس کے رشتہ داروں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈالنا چاہا مگر میجسٹریٹ اور پولیس نے انہیں روک دیا اور عورت کو ہسپتال لے گیا۔ عورت کی جان تو بچ گئی لیکن رشتہ داروں نے اس کا مکمل بائیکاٹ کر لیا کہ وہ ستی ہونے سے بھاگ کر ناپاک ہو گئی ہے۔

یہ وہ معاشرہ تھا جو انگریزوں نے آمد کے بعد ہندوستان میں دیکھا۔ لیکن اس معاشرے کی داغ بیل ماقبل از تاریخ زمانے میں پڑی تھی اور یہ اس دوران ہزاروں سال کے عمل سے گزرا تھا۔

جب 1500 قبل مسیح میں آریا ہندوستان آنا شروع ہوئے  تو وہ اپنے ساتھ پدرسری کا نظام لے کر آئے۔ لیکن ابھی تک اس کی بنیادیں مستحکم نہیں تھیں اور عورتوں کو کافی آزادی تھی۔ وہ لکھ پڑھ سکتی تھیں۔ مذہبی رسومات میں حصہ لیتی تھیں۔ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آریاﺅں کی پہلی کتاب رِگ وید جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پنجاب میں لکھا گیا۔ اس میں جہاں فلسفیوں اور رَشیوں کے اشلوک ہیں وہیں عورتوں کے بھی 15 اشلوک شامل ہیں جس سے اُن کے علم اور مذہبی معلومات کا پتہ چلتا ہے۔

لیکن جب شمالی ہندوستان میں ذات پات کی سختی آئی تو اس کا اثر عورت کی ذات پر بھی ہوا۔ برہمن ذات بااثر ہوتی چلی گئی اور مذہبی رسومات پر اُن کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ اُنہوں نے عورتوں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی اور اُنہیں بھجن گانے کی اجازت بھی نہ رہی۔ مندروں میں دیوداسیوں کو رکھنے کا رواج قائم ہوا۔ یا تو برہمن خوبصورت لڑکیوں کو خریدتے تھے یا ماں باپ بطور منت اپنی لڑکیوں کو دیو داسیاں بنا دیتے تھے۔

شادی کے بعد عورت کے لیے لازمی تھا کہ وہ شوہر کی وفادار رہے اور اُس کے لیے جانشین پیدا کرے۔ شوہر کی جائیداد میں نہ تو عورت کو وراثت میں کچھ ملتا تھا اور نہ ہی وہ جائیداد کا انتظام سنبھال سکتی تھی۔ لڑکے کا ہونا اس لیے ضروری تھا کیونکہ باپ کے مرنے کے بعد وہی اُس کی چِتا کو آگ لگاتا تھا۔ اس لیے ہندو رشیوں نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ لڑکا پیدا کرنے کے لیے نیوگ کی رسم کے تحت کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلقات پیدا کرے تاکہ لڑکے کی پیدائش ہو۔

شادی کے بعد عورت مرد کی ملکیت ہو جاتی تھی۔ اگر شوہر وفات پاجاتا تو اُس پر اُس کے بھائیوں کا حق ہو جاتا تھا۔ عورت کی ملکیت کا اظہار مہابھارت کی داستان سے بھی ہوتا ہے۔ جب پانڈوﺅں نے اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کو جوئے میں ہار دیا تھا۔

جیسے جیسے پدرسری کا نظام پھیلتا گیا اُسی طرح سے عورت پر پابندیاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ اُس کے لیے پاک باز ہونا باعصمت ہونا اور کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلقات نہ رکھنا لازم ہو گیا۔

رامائن میں جب جنوبی ہندوستان کے راجہ راون نے سیتا کو اغوا کیا اور اُسے ہنومان کی مدد سے واپس لایا گیا تو رام کو اس کی پاک بازی پر شک تھا۔ سیتا نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے خود کو جلتی ہوئی آگ سے گزارا لیکن جب اس پر بھی رام کا شک دُور نہیں ہوا تو اُس نے دیوتاﺅں سے دعا کی کہ وہ اُس کی بے گناہی ثابت کریں۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت زمین پھٹی اور وہ اُس میں سما گئی۔ اب سیتا ہندو سماج کی پاک باز عورت ہے۔

ابتدائی زمانے میں ہندوستان میں ستی کا رواج نہیں تھا۔ شوہر کے مرنے پر بیوی اُس کی لاش سے ایک بار لپٹ کر علیحدہ ہو جاتی تھی۔ بیوہ کو دوسری شادی کا بھی اختیار تھا۔ لیکن جب گپتا عہد میں ہندو مذہب کا احیا ہوا۔ منوشاستر اور مذہبی قوانین پر کتابیں لکھی گئیں تو ہندو مذہب کو قدامت پرست شکل دے دی گئی۔

ستی کا رواج سب سے پہلے راجپوتانہ کے جنگجو قبائل سے شروع ہوا۔ ابتدا میں عورت کو مجبور تو نہیں کیاجاتا تھا مگر روایت ایسی تھی کہ عورتیں خود بھی جلنے پر تیار ہو جاتی تھیں۔ بعد میں یہ رسم پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور طبقہ اعلیٰ سے نچلے طبقوں پر آگئی چونکہ راجہ اور مہاراجہ کئی بیویاں رکھتے تھے اس لیے مختلف واقعات میں تین سے لے کر 50 عورتیں ستی ہوئی ہیں۔ اکبر نے ستی پر پابندی لگا دی تھی اور حکم دیا تھا کہ علاقے کے مغل عہدیدار کی اجازت کے بعد عورت کو ستی نہ کیا جائے۔بعض موقعوں پر اُس نے خود جا کر ستی ہوتی ہوئی عورتوں کو بچایا۔

اگر عورت ستی نہیں ہوتی تھی تو بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی نہیں کر سکتی تھی۔ اُسے ہمیشہ سادہ لباس میں رہنا ہوتا تھا۔ اُسے منحوس سمجھا جاتا تھا۔ شادی بیاہ اور کسی خوشی کے موقع پر اُسے شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ بچوں کی شادی کا رواج بھی ہو گیا تھا۔ اگر باپ کے مرنے پر ماں ستی ہو جائے تو چھوٹی عمر میں لڑکی کی شادی کر دی جاتی تھی۔ کبھی کبھی یہ افسوس ناک واقعہ بھی ہوتا تھا کہ چھوٹی عمر میں شادی ہوئی اور اگر لڑکا مر گیا تو لڑکی بیوہ ہو جاتی تھی اور تاعمر اس کی دوسری شادی نہیں ہو سکتی تھی۔

انگریزی عہد میں جب ہندو مذہب میں اصلاحی تحریکیں چلیں تو ان مسائل پر توجہ دی گئی۔ راجہ رام موہن رائے نے برہمو سماج کے ذریعے ستی کے خلاف مہم چلائی۔ بیوہ عورتوں کی شادی پر زور دیا اور چھوٹی عمر کی شادیوں کو ختم کرانے کی کوششیں کیں۔ اگرچہ قدامت پرستوں نے ان کی سخت مخالفت کی۔ مگر 1829 میں انگریزی حکومت نے ستی پر پابندی عائد کر دی۔ آزادی کے بعد اگرچہ یہ قانون موجود ہے۔مگر اب بھی کبھی کسی دور دراز علاقے میں ستی کا واقعہ پیش آجاتا ہے۔

اس مطالعے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عورت اب بھی ہندو معاشرے میں آزاد نہیں ہے۔ جہیز نہ لانے پر اُس کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ اگر لڑکی کی پیدائش ہو تو اُس کا الزام بھی اُسے ہی دیا جاتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ عورتوں میں سیاسی اور سماجی شعور بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے برابر جدوجہد کر رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ