یونانی معاشرے میں عورت نامکمل انسان تھی

ارسطو کا خیال تھا کہ عورت نامکمل انسان ہے، اس قول کا اثر نہ صرف یونانی معاشرے پر بلکہ تمام یورپ پر ہوا۔

سخت پابندیوں کی وجہ سے یونانی عورتیں اپنی ذہنی صلاحیت کا اظہار نہیں کر سکتی تھیں (پکسابے) 

ارسطو کا خیال تھا کہ عورت کی پیدائش نامکمل حمل کے نتیجے میں ہوئی تھی اس لیے وہ ناقص العقل اور ادھوری ہے۔ ارسطو ہی نہیں، دوسرے یونانی مفکروں کے نزدیک بھی عورت تمام برائیوں کی جڑ تھی۔ یونانی مفکرین کے اس نظریے نے نہ صرف یونان، بلکہ آگے چل کر عیسائی دنیا میں بھی عورت کے بارے میں ان خیالات کو مستحکم کیا۔

آٹھویں صدی قبل مسیح میں یونان میں شہری ریاستوں کا ظہور ہوا۔ ان میں خاص طور پر ایتھنز اور سپارٹا کی ریاستیں اپنی علیحدہ علیحدہ خصوصیات کی وجہ سے مشہور تھیں۔ اس لیے ان دونوں ریاستوں کے ماحول میں عورت کی حقیقت بھی مختلف تھی۔ ایتھنز میں فلسفی، ڈراما نگار، سیاست دان، مجسمہ تراش اور دوسرے ماہرین تھے۔

ان لوگوں نے اپنے نظریات اور افکار کے ذریعے یونان کے معاشرے میں عورت کی حیثیت کا تعین کیا۔

عورت کے کمتر درجے کی وجہ سے یونان کی جمہوریت میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اسے شہریت کا حق تھا، نہ وہ ووٹ دے سکتی تھی نہ اسمبلی میں شریک ہو سکتی تھی، نہ جائیداد کی وارث ہو سکتی تھی اور نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو سکتی تھی۔

اسے بازار جانے اور سودا سلف خریدنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ گھر میں مردانہ اور زنانہ حصے ہوا کرتے تھے۔ مکان کا بالائی حصہ عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ مرد نیچے کے حصے میں رہتے تھے۔ اگر وہ دوستوں کی دعوت کرتا تو اس کے لیے نچلی منزل کا ایک کمرہ مخصوص ہوتا تھا۔ عورت کو یہ بھی اجازت نہیں تھی کہ اگر مرد گھر پر نہ ہو اور کوئی مہمان آئے تو وہ اس سے بات چیت کر سکے۔ عورت کو کسی دعوت میں یا محفل میں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ صرف چند تہواروں اور رشتہ دار کی تدفین کے موقعے پر وہ نکلتی تھی۔

یہ وہ مواقع ہوتے جب وہ کسی غیر مرد کو دیکھ سکتی تھی۔ عورت پر سخت پابندیاں تھیں مگر اس کے باوجود ایسے حادثات ہو جاتے تھے کہ جب عورت کسی مردسے پوشیدہ طور پر ناجائز تعلقات پیدا کر لیتی تھی۔ اگر راز فاش ہو جاتا تو شوہر کو حق تھا کہ وہ دونوں کو قتل کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایتھنز کی زندگی میں ایک ایسا موقع آیا تھا کہ جب عورتوں کو گھر سے باہر نکل کر ایک مجلس میں شرکت کرنی پڑی تھی۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب ایتھنز کے سیاسی لیڈر پیریکلیز (وفات: 429 ق م) نے ان فوجیوں کی شہادت پر خطاب کیا تھا جو ایتھنز کی جانب سے لڑتے ہوئے پیلی پونیشینز جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس موقعے پر ایک طرف مرنے والے فوجیوں کے تابوت تھے بیچ میں ایتھنز کے باشندے اور دوسری جانب وہ عورتیں جن کے رشتے دار مارے گئے تھے۔

یونان کے مشہور مورّخ تھیوسیڈی ڈیز (وفات: تقریباً 400  ق م) نے پیریکلیز کی ان تقریروں کا حوالہ دیا ہے جو اس نے مرنے والے فوجیوں کی حب الوطنی اور بہادری پر کی تھیں۔ یقیناً یہ موقع بڑا اُداس اور غمگین رہا ہو گا اور عورتوں پر اس کا جذباتی اثر بھی ہوا ہو گا۔

اب ہم اس سے ذرا الگ ہٹ کر عورت کی زندگی میں جو شادی کا ایک اہم دن آتا ہے اس کا ذکر کریں گے۔ یونان میں ہر شادی لڑکی اور لڑکے کے خاندان والوں کی مرضی سے ہوا کرتی تھی۔ اس میں لڑکی اور لڑکے سے کوئی رائے نہیں لی جاتی تھی۔ شادی کی کوئی مذہبی رسم نہیں ہوا کرتی تھی نہ ہی اسے رجسٹر کیا جاتا تھا۔ رخصتی کے وقت لڑکی کو جہیز دینے کی رسم تھی۔ توقع کی جاتی تھی کہ عورت زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرے گی۔ وہ بھی اگر لڑکے ہوں تو فخر کی بات ہوتی تھی۔ مستقل بچے پیدا کرنے کی وجہ سے عورت کی زندگی کا دورانیہ مرد کے مقابلے میں کم ہو جاتا تھا۔

ان پابندیوں کی وجہ سے یونانی عورتیں اپنی ذہنی صلاحیت کا اظہار نہیں کر سکتی تھیں اس لیے ادب، آرٹ، موسیقی، اور دوسرے فنون میں ان کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ سوائے سیفو (وفات: 570 ق م) کے نام پر جس کی عشقیہ شاعری کو دبا دیا گیا تھا مگر اب محققین اسے سامنے لا رہے ہیں۔

لیکن طوائفوں کو آزادی تھی۔ ان میں سے ایک جو تاریخ میں مشہور ہوئی وہ اسپیشیا ہیں جو اپنی خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے مشہور ہوئیں ۔ سقراط (وفات: 399 ق م) بھی اس کی تقریروں سے متاثر ہوتا تھا۔ بعد میں وہ پیریکلیز کے ایک بچے کی ماں بھی بنی۔

دوسری جانب یونانی ڈراموں میں عورت کا کردار اہم نظر آتا ہے۔ اگرچہ سٹیج پر مرد عورت کا کردار ادا کرتے تھے۔ عورتوں کو اس کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مثلاً یوری پیڈیز (وفات: تقریباً 406 ق م) کے ڈرامے میں میڈیا نامی عورت مرد کی بے وفائی پر بچوں کو قتل کر دیتی ہے۔ ایک اور ڈرامے میں اینٹی گنی بادشاہ کے حکم کی نافرمانی کرتی ہے جس نے حکم دیا تھا کہ اس کے باغی بھائی کو دفن نہ کیا جائے۔ اس پر وہ دلیل دیتی ہے کہ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے اور بادشاہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے بھائی کو دفن کر دیتی ہے جس پر اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ ان کرداروں میں عورت جرأت مند، بہادر اور روایات کے خلاف لڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔

یونان میں دیوتاؤں کے ذریعے بھی عورت کی قوت کا اظہار ہوتا ہے جیسے ہیرا، ایتھینا اور ایفروڈائٹی وغیرہ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پدرسری نظام میں ارتقائی طور پر عورت کی آزادی کو ختم کر کے مرد کی بالادستی کو قائم کیا۔

ایتھنز کے برعکس سپارٹا میں عورتوں کو کافی آزادی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ مرد فوجی تربیت کی وجہ سے بیرکوں میں رہتے تھے اور گھر کا اور جائیداد کا انتظام عورتیں سنبھالتی تھیں۔

اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے عورتیں کھیلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ صحت مند اولاد پیدا کریں۔ وہ پردے کی پابند نہ تھیں اور گھر کے باہر کے کام کاج بھی کرتی تھیں اور آپس کی محفلوں میں شریک بھی ہوتی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دو قسم کے ماحول اور حالات نے معاشرے میں عورت کی حیثیت کا تعین کیا۔ لیکن آنے والے حالات میں یورپ میں عہد وسطیٰ کا معاشرہ ایتھنز سے زیادہ متاثر ہوا اور اس میں عورتیں پابندیوں کا شکار ہوئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین