انتخاب جیت کر عہدہ سنبھالنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی معاملات کو غیر معمولی طور پر سنگ دلانہ انداز میں سیاسی بنا چکے ہیں۔
تقریباً روزانہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔
انہوں نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت ان تمام قانونی فرموں سے وفاقی سکیورٹی کلیئرنس واپس لے لی گئی جنہوں نے ماضی میں ان کے خلاف کام کیا۔
جب زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں ان سے اختلاف کرنے کی جرات کی تو ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد منقطع کر دی۔
اسی طرح انہوں نے جنرل مارک اے ملی، ہلیری کلنٹن اور کملا ہیرس جیسے نمایاں ناقدین کی سکیورٹی بھی ختم کرا دی۔
ٹرمپ کی مسلسل سیاسی انتقام کی حکمت عملی نے امریکی سیاست اور کاروباری دنیا میں بہت زیادہ خوف پیدا کر دیا جس کے نتیجے میں خود پر قابو رکھنے سمیت چیلنج کرنے سے کترانے لگے ہیں۔
ٹرمپ نے اب تعلیمی حلقوں کو بھی اپنے نشانے پر لے لیا۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی کو دھمکی دی کہ اگر اس نے تعلیمی شعبوں سے ایک کو ’بیرون نگران‘ کے حوالے نہ کیا تو اس کی 40 کروڑ ڈالر کی وفاقی فنڈنگ روک دی جائے گی۔
انہوں نے رابرٹ کینیڈی جونیئر کو، جو طویل عرصے سے ویکسین مخالف مؤقف کے باعث سائنسی برادری کی تنقید کا نشانہ بنتے آئے، محکمہ صحت و انسانی خدمات کی سربراہی سونپ دی ۔
اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کی طرف سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ روک دی۔
معاملات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ 31 مارچ کو 1900 سرکردہ محققین نے کھلا خط لکھ کر ٹرمپ انتظامیہ پر ’امریکی سائنس پر بڑا حملہ‘ کرنے کا الزام عائد کیا۔
یہ حملے صرف امریکہ تک محدود نہیں۔ موجودہ دور میں ماہرین کے خلاف ایسی مہمات روس، ترکی اور ہنگری جیسے ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاسی انتقام کو پرتشدد رخ اختیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
1989 میں ایران کے خامنہ ای نے مصنف سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔
ماہرین کو اکثر آمرانہ حکمرانوں کی جانب سے سب سے پہلے خاموش کرایا جاتا ہے، خصوصاً تعلیمی اور سائنسی دنیا میں۔ میں اپنی تازہ ترین کتاب میں اس کی ایک انتہائی سنگین مثال کا جائزہ لیتا ہوں۔
ایڈولف ہٹلر کی اس انتقامی مہم کا جو اس وقت کے سب سے مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے خلاف چلائی گئی۔
ہٹلر سیاسی، فنونِ لطیفہ اور سائنسی دنیا میں اختلاف کرنے والوں کو ڈھونڈ کر ان کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں کرتے تھے اور آئن سٹائن اس کا بھرپور نشانہ بنے۔
جب 1933 میں ہٹلر جرمنی کے چانسلر بنے، اس وقت تک آئن سٹائن نوبیل انعام جیت چکے تھے اور اپنی سائنسی دریافتوں، جن میں مشہور زمانہ مساوات e = mc² بھی شامل ہے، کی بدولت عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھو چکے تھے۔
اسی سال جرمنی میں ایک کتابچہ شائع ہوا جس کا عنوان تھا Juden sehen Dich an یعنی ’یہودی تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ یہ کتابچہ نازی پروپیگنڈے کے سربراہ جوزف گوئبلز کی منظوری سے شائع ہوا۔
اس میں جرمنی کے چند معروف ترین یہودیوں کی سوانح عمریاں شامل تھیں، جن میں البرٹ آئن سٹائن پر دو صفحات اور ان کی دو تصاویر بھی شامل تھیں۔ ہر نام کے ساتھ ایک لفظ Ungehängt چھاپا گیا تھا جس کا مطلب ہے ’ابھی تک پھانسی نہیں ہوئی۔‘
یہ کوئی خالی دھمکی نہیں تھی۔ 30 اگست، 1933 کو، جرمن یہودی فلسفی تھیوڈور لسنگ جن کا نام مذکورہ کتابچے میں شامل تھا، کو چیکوسلواکیہ کے شہر ماریئن بیڈ (آج کے چیک جمہوریہ کا مارینسکے لازنے) میں ان کے اپارٹمنٹ میں دو نازیوں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
یہ جرمنی کی سرحدوں سے باہر نازی سیاسی قتل کی ابتدائی وارداتوں میں سے پہلی تھی۔
لیسنگ کے قتل کی خبر دنیا بھر میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ ان میں دی نیو یارک ٹائمز بھی شامل تھا، جس نے یہ خبر اپنے صفحہ اول پر شائع کی۔
سرخی تھی ’لسنگ، جرمن پناہ گزین، پراگ میں قتل، بیرون ملک دیگر افراد پر حملوں کا خدشہ۔‘
لسنگ کے قتل کے ایک ہفتے بعد آئن سٹائن کو معلوم ہوا کہ نازیوں نے ان کا نام بھی ہٹ لسٹ میں شامل کر لیا۔ پورے یورپ کے اخبارات نے صفحہ اول پر خبر شائع کی کہ ہٹلر اس مشہور سائنس دان کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔
لندن سے شائع ہونے والے ڈیلی ٹریبیون نے اس خبر کو اس سرخی کے ساتھ شائع کیا: آئن سٹائن کے سر کی قیمت مقرر‘۔
اخبار نے یہاں تک بتایا کہ اس قتل کے لیے کتنی رقم رکھی گئی یعنی ایک ہزار پاؤنڈ جو آج کے حساب سے چار لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ بنتی ہے۔
جان کے ڈر سے آئن سٹائن نے کشتی کے ذریعے برطانیہ کا رخ کیا اور مشرقی برطانیہ کے علاقے ایسٹ اینگلیا میں چند دن قیام کیا۔
خوف زدہ نظر نہ آنے کی خواہش میں انہوں نے فوٹوگرافروں کو اجازت دی کہ وہ ان کی ایسی تصویریں لیں جن میں وہ چھپے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں۔
کرسی پر کتاب پڑھتے ہوئے، جب کہ قریب ہی دو افراد بندوقیں تھامے پہرہ دے رہے ہوں۔
بعد ازاں وہ اپنی اہلیہ ایلسا کے ہمراہ ایک اور کشتی کے ذریعے امریکہ روانہ ہو گئے اور پرنسٹن، نیو جرسی میں ایک گھر میں رہائش اختیار کر لی۔
اگلی دہائی کے دوران ہٹلر نے بارہا اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا حکم دیا۔ جون 1934 میں انہوں نے ایس اے (نازی نیم فوجی تنظیم) پر انتقامی حملہ کرایا، جس کی وفاداری پر انہیں شک تھا۔
اس تطہیر کو بعد میں نائٹ آف دی لانگ نائیوز کہا گیا، جس میں کم از کم 80 افراد کو پھانسی دی گئی۔ ان میں ایس اے کے سربراہ ارنسٹ روم بھی شامل تھے۔
10 سال بعد 20 جولائی، 1944 کو ہٹلر پر قاتلانہ حملے کی کوشش کے بعد انہوں نے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے اس سے بھی زیادہ خونریز انتقام کا انتخاب کیا۔ ایک ایسا سبق جسے وہ جلد بھلا نہ سکیں۔
کرنل کلاوس فان شٹافن برگ نے کئی فوجی ساتھیوں کی مدد سے ہٹلر کے خلاف ایک سازش کی قیادت کی۔ ہٹلر نے انہیں گرفتار کرا کے مروا دیا۔
ان کے بھائی برتھولڈ کو، جو اس سازش میں شریک تھے، بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا، لیکن انتقام یہیں ختم نہیں ہوا۔
شٹافن برگ کی اہلیہ کو ریوینس بروک کے حراستی کیمپ میں جلا وطن کر دیا گیا۔ ان کے بچوں کو خصوصی مراکز میں قید کر دیا گیا اور ان کے کئی بالغ رشتہ داروں کو بھی گرفتار کر کے جلا وطن کیا گیا۔
دیگر سازشیوں کے اہل خانہ کو بھی اسی طرح کی سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
صورت حال کو اور سنگین بنانے والی بات یہ تھی کہ آئن سٹائن نے امریکی جنگی مہم کے لیے فنڈز جمع کرنے کی غرض سے اپنے مشہور سائنسی مسودات نیلام کیے، اور یہ سب کچھ عوامی سطح پر کیا۔
آئن سٹائن اب ایس ایس اور گسٹاپو سے ایک سمندر کی دوری پر پرنسٹن، نیو جرسی میں مستقل رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ ان کے قریبی اہل خانہ بھی نازی حکومت کی پہنچ سے باہر تھے۔
ان کی اہلیہ ایلسا، سوتیلی بیٹی مارگٹ، بہن ماجا اور بڑے بیٹے ہانس البرٹ سب امریکہ میں محفوظ تھے جبکہ ان کی پہلی بیوی میلیوا اور چھوٹے بیٹے ایڈورڈ سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھے۔
تاہم نازیوں کے زیرِ قبضہ یورپ میں آئن سٹائن کے ایک قریبی عزیز اب بھی موجود تھے اور وہ تھے رابرٹ آئن سٹائن۔
رابرٹ اور البرٹ آپس میں سگے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ جرمنی کے شہر میونخ میں ساتھ پلے بڑھے اور 11 سال تک ایک ہی گھر میں رہے۔ ان کے تعلقات بھائیوں جیسے تھے۔
ان کے والد، ہرمن اور جیکب آئن اسٹائن، 1880 کی دہائی میں میونخ میں مشترکہ کاروبار چلاتے تھے۔ وہ بیئر ہالز، ٹاؤن سکوائرز اور کیفے وغیرہ کو بجلی فراہم کرتے تھے۔
ابتدا میں کاروبار کامیاب رہا، لیکن جب انہوں نے اسے حد سے زیادہ وسعت دینے کی کوشش کی اور ایک بڑا ٹھیکہ ہاتھ سے نکل گیا اور وہ دیوالیہ ہو گئے۔
آئن سٹائن خاندان میلان منتقل ہو گیا اور وہاں سے دوبارہ کاروبار کا آغاز کیا، مگر کمپنی ایک بار پھر ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد دونوں خاندان الگ ہو گئے۔ ہرمن میلان میں ہی رہے جب کہ جیکب نے جینیوا کا رخ کیا۔
جب البرٹ جرمنی چلے گئے اور جلد ہی اپنی پہچان بنانے لگے تب رابرٹ اٹلی میں ہی رہے، جہاں انہوں نے انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی۔
انہوں نے اپنی دو بیٹیوں اور تین بھانجیوں کے ساتھ فلورنس کے باہر خوبصورت ولا میں رہائش اختیار کی۔ وہاں وہ ایک دیہی علاقے میں کاروبار کرتے جو انگور کی بیلوں، زیتون کے درختوں اور آڑو کے باغات سے بھرا ہوا تھا۔
اپنے مشہور کزن کی طرح رابرٹ بھی سائنسی مزاج کے مالک تھے لیکن وہ زیادہ معروف نہیں تھے۔ مقامی پادری، دکان دار اور کچھ قریبی کسان جانتے تھے کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔
زیادہ تر وہ خاموشی سے اپنی زمین سنبھالتے اور کسی سے الجھنے سے گریز کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ اگست 1944 میں مقیم تھے، جب نازی کمان کے اعلیٰ حلقوں سے حکم جاری ہوا کہ انہیں تلاش کیا جائے تاکہ انہیں البرٹ آئن سٹائن کی طرف سے مخالفت کی سزا دی جا سکے۔
چوں کہ آئن سٹائن نے نازی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا اور اگر وہ دنیا کے اس مشہور سائنس دان کو قتل نہیں کر سکتے تھی تو اس نے اس سے اگلا قدم اٹھانا تھا یعنی اٹلی میں موجود ان کے سگے چچا زاد کو نشانہ بنانا۔
لیکن جب تین اگست، 1944 کو جرمن فوج کا بھاری ہتھیاروں سے لیس دستہ رابرٹ کے گھر پہنچا، تو وہ انہیں وہاں نہیں ملے۔ چناں چہ انہوں نے وحشیانہ طور پر ان کی اہلیہ اور دونوں بیٹیوں، لچے اور چیچی، کو قتل کر دیا۔
چند ہفتے بعد البرٹ کو ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں ان کے اطالوی خاندان کے اس سانحے کی اطلاع دی گئی۔
یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پر کس طرح ردعمل کا اظہار کیا کیوں کہ اس بارے میں کوئی ریکارڈ باقی نہیں بچا۔
البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ان کی بہن ماجا نے کیسا محسوس کیا۔ وہ اس وقت البرٹ کے ساتھ ہی رہتی تھیں، جب یہ خبر ملی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سانحہ ان کے ڈراؤنے خوابوں کا سبب بننے لگا اور وہ خود کو ’شکستہ‘ محسوس کرتی تھیں۔
یہی کہانی میں نے اپنی کتاب دا آئین سٹائن وینڈٹا میں بیان کی ہے۔ یہ اس تاریک حقیقت کا احوال ہے کہ کس طرح سیاسی دشمنی ذاتی انتقام میں بدل سکتی ہے۔
یہ آج کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اس دہشت کی وارننگ جس کا سبب آمرانہ حکومتیں اس وقت بنتی ہیں جب انہیں روکا نہ جائے۔
چاہے وہ ولادی میر پوتن کے مخالف الیکسی نوالنی کی موت ہو، جو آرکٹک کے ’پولر وولف‘ قید خانے میں ’چہل قدمی‘ کے بعد جان سے گئے۔
وہ یہاں 30 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے یا 2018 میں اعصابی نظام کو مفلوج کر دینے والے زہر کی مد سے کیا جانے والا سکریپل خاندان پر حملہ، جس میں وہ بمشکل بچ پایا۔ روسی صدر کا مخالف ہونا جان لیوا خطرہ بن چکا ہے۔
دوسرے مقامات پر اختلاف رکھنے والے شاید اپنی جان سے نہ جائیں، لیکن ہم یہ ضرور دیکھ چکے ہیں کہ وہ اپنی ملازمت اور آزادی بھی کھو سکتے ہیں۔
ایک بار جب یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو انتقام کے اس چکر کو روکنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
بدلہ، پرتشدد انتقامی کارروائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور یہ صرف روس تک محدود نہیں۔
سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ، ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی متعدد کوششیں اور امریکی کیپیٹل پر حملہ۔ یہ تین تازہ مثالیں ہیں۔
اسی لیے آئن سٹائن نام والے خاندان کے افراد کو نشانہ بنانے کی داستان کبھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے۔
تھامس ہارڈنگ کی کتاب ’دا آئن سٹائن وینڈٹا‘ شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب پینگوئن مائیکل جوزف نے شائع کی۔ اس کی قیمت 22 پاؤنڈ ہے۔
آپ تھامس ہارڈنگ کو X / ٹوئٹر پر فالو کر سکتے ہیں: @thomasharding۔
© The Independent