جب ہٹلر کے قتل کی مبینہ سازش پر سومیندر ٹیگور کو گرفتار کر لیا گیا

سومیندر ناتھ خوش قسمت تھے کہ ان کی گرفتاری گورنگ کی سربراہی میں خطرناک نازی خفیہ ریاستی پولیس گیسٹاپو کے قیام سے چند دن پہلے ہوئی۔

22 دسمبر، 2019 کو بنکاک میں ایک شخص جرمن نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کی تصویر والی شرٹ پہنے ہوئے (اے ایف پی/ ملادن اینڈونو)

1933 جرمن تاریخ کے ایک انتہائی تاریک دور کا آغاز تھا۔ جنوری کے آخر میں، نازی پارٹی کے رہنما ایڈولف ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا گیا۔

اس حوالے سے انڈین جریدے سکرول انڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چند ہفتوں بعد، جرمن پارلیمنٹ، رائک سٹاگ کو آگ لگا دی گئی، جس کے نتیجے میں سول آزادی پر قدغنیں لگ گئیں۔

آتش زنی کا الزام براہ راست کمیونسٹوں پر لگایا گیا تھا۔ ہٹلر کی حکومت کے ایک طاقتور وزیر ہرمن گورنگ نے دعویٰ کیا تھا کہ آگ لگنے سے پہلے ہوائی جہازوں نے برلن میں کمیونسٹ لٹریچر بکھیر دیا تھا۔

ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے کمیونسٹ سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ نازیوں کے اقتدار کے حصول میں یہ ایک اہم لمحہ تھا۔ جیسا کہ انہیں امید تھی، اس سے مقامی کمیونسٹوں کے ساتھ محاذ آرائی قائم ہوگئی، لیکن انہیں عالمی کمیونسٹوں کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خوف تھا۔

انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر جرمن پولیس نے ہمسایہ ممالک سے آنے والی گاڑیوں کی تلاش شروع کر دی۔ 22 اپریل 1933 کی صبح، انہوں نے آسٹریا کے ٹائرول سے باویریا میں اطالوی پرچم سمیت داخل ہونے والی ’ریمسٹنگ ام چیمسی‘ کار کو روکا۔

اس گاڑی میں ایک مسافر سوار تھا جسے جرمن میڈیا نے ’بڑے قد‘ والا قرار دیا تھا اور اس کا ڈرائیور ویجیسیک نامی ایک بے وطن جرمن روسی تھا۔

باویریا کی پولیس نے اس لمبے قد والے شخص کو ہٹلر کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

جرمن پریس میں ان کی شناخت ایک برطانوی سبجیکٹ کے طور پر کی گئی تھی جس کا نام ’ٹیگوری‘ تھا۔

میڈیا رپورٹس نے میونخ میں برطانوی قونصل خانے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔

میونخ میں برطانوی قونصل جنرل ڈونلڈ گینر نے جرمنی میں برطانیہ کے سفیر ہوریس رمبولڈ کو لکھا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ جس شخص کو گرفتار کیا گیا وہ سومیندر ناتھ ٹیگور تھے جو 1901 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے ان کے پاس برٹش انڈین پاسپورٹ نمبر 511 تھا جو 11 مارچ، 1927 کو کلکتہ سے جاری ہوا تھا۔

’خاص طور پر جب میونخ کے اخبارات میں انہیں بڑے قد کا بتایا گیا اور اس قونصلیٹ جنرل میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق مذکورہ شخص کی اونچائی چھ فٹ ہے۔

’میں نے باویریا کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ مجھے اس شخص کی شناخت اور اس کی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے۔‘

نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے پوتے سومیندر ناتھ ٹیگور انگریزوں کے دوست نہیں تھے۔

وہ طویل عرصے سے نوآبادیاتی حکام کے لیے دلچسپی کا حامل شخص تھا، اور گینر نے اپنے خط میں مزید کہا کہ اس کمیونسٹ کا نام ’انڈین بلیک لسٹ‘ میں آتا ہے۔

یورپ میں انقلابی
1901  میں ٹیگور خاندان میں پیدا ہونے والے سومیندر ناتھ نے کلکتہ کے پریزیڈنسی کالج سے معاشیات کی تعلیم حاصل کی۔

وہ محنت کش طبقے کی حالت زار کے بارے میں فکرمند تھے اور یونیورسٹی سے ہی سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے۔

مزدوروں اور کسانوں کی پارٹی کے رکن کی حیثیت سے، انہوں نے بنگال میں پٹسن مل کے مزدوروں کو کامیابی سے متحرک کیا، جس سے وہ انگریزوں کی نظروں میں آ گئے۔

انہیں معلوم تھا کہ جلد یا بدیر انہیں نوآبادیاتی حکام کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا وہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد چند ہفتوں میں ہی ہندوستان چھوڑ کر یورپ چلے گئے۔

یورپ میں سفر کے دوران، انہوں نے برلن اور پیرس جیسے شہروں میں ساتھی کمیونسٹوں کے ساتھ بات چیت کی۔

1928 میں ماسکو میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی چھٹی عالمی کانگریس میں، ہندوستانی وفد کے رکن کی حیثیت سے، انہوں نے ہندوستان میں کسانوں کی جدوجہد اور مقامی شہری اشرافیہ کے کردار کے بارے میں کہا: ’ہندوستانی سرمایہ دار طبقے نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی رویہ نہیں اپنایا۔‘

انہوں نے کبھی بھی قابل قبول آئینی تحریک کی حدود عبور نہیں کی، اور نازک وقت میں، تحریک کو دھوکہ دیا۔

جو ہندوستانی قومی تحریک سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کے جاگیرداری سے قریبی روابط ہیں، لہٰذا وہ عوام کو بیدار نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی پوزیشن کو کمزور کیے بغیر زرعی اصلاحات نہیں لا سکتے۔

لہٰذا، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہندوستان میں زرعی انقلاب کو مکمل کرنے کے لیے عوام کو متحرک کریں گے اور ان کی رہنمائی کریں گے۔

نازیوں کی حراست میں
26 اپریل، 1933 کو ایسوسی ایٹڈ پریس نے غلطی سے خبر دی کہ ’عالمی شہرت یافتہ شاعر، سر رابندر ناتھ ٹیگور کے بیٹے‘ کو ہٹلر کے قتل کی مبینہ سازش کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹائرولین فرنٹیئر گارڈز نے جرمن پولیس کو اطلاع دی تھی، جنہیں کار میں ’بہت زیادہ مشکوک سامان‘ ملا تھا۔

متعدد بین الاقوامی اخبارات نے اے پی کی رپورٹ شائع کی، جن میں سے ایک امریکہ میں ایوننگ سٹار تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے فوراً بعد واشنگٹن اخبار کو ہندوستانی فیمنسٹ مایا دیوی گنگولی کا ایک خط موصول ہوا، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ سومیندر ناتھ رابندر ناتھ ٹیگور کے بیٹے نہیں تھے۔

عظیم شاعر کی ایک دوست، جنہوں نے اخبار کو بتایا کہ ان کے بیٹے، جس کا نام رتیندر ناتھ ٹیگور ہے، 40 سال کی عمر میں ہیں۔ نیوز سروس نے مشتبہ شخص کی عمر 21 سال بتائی تھی۔

گنگولی نے لکھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ شاعر اور ان کے بیٹے کی ساکھ کا دفاع کرنا میری ذمہ داری ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ آپ کے غیر چیلنج شدہ بیان سے غیر منصفانہ طور پر بدنام نہ ہوں۔‘

اے پی کی رپورٹ کی بدولت گرفتاری کی خبر ہندوستان تک پہنچی اور 27 اپریل کو سومیندر ناتھ کی والدہ چارو بالا نے شملہ میں ہندوستانی حکومت کے فارن اینڈ پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ کو ایک ٹیلی گرام بھیجا:

’میرے بیٹے سومیندر کو میونخ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اگر آپ مہربانی سے اس کی موجودہ صورت حال معلوم کر سکیں اور ہندوستانی اور برطانوی حکومتوں کی جانب سے ضروری نمائندگی کر سکیں تو میں مشکور ہوں گا۔ براہ کرم مجھے صورت حال سے آگاہ رکھیں۔ میرا پتہ آٹھ دوارکا ناتھ ٹیگور لین، جوراسنکو ہے۔‘

برطانوی قونصل جنرل نے اس معاملے کی پیروی کی۔ گینر نے 27 اپریل کو لکھے گئے ایک مسودہ نوٹ میں لکھا ہے کہ ’انہیں چانسلر کی زندگی کے خلاف مبینہ سازش کے سلسلے میں کمیونزم کی سرگرمیوں کے شبے میں پولیس ہیڈ کوارٹر میونخ میں حراست میں رکھا گیا ہے لیکن جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، کوئی واضح الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔

میں نے باویریا کی حکومت سے درخواست کی ہے نامزد شخص ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہے۔‘

اگلے ہی دن باویریا کی پولیس نے سومیندر ناتھ کو رہا کر دیا، جو پیرس کی حفاظت کے لیے میونخ سے روانہ ہوئے تھے۔

یہ واضح نہیں کہ آیا برطانوی مداخلت کے نتیجے میں سومیندر ناتھ کی فوری رہائی ہوئی تھی یا نہیں، لیکن اس کا ایک کردار ہوسکتا تھا کیونکہ دونوں ممالک کے مابین جنگی دور میں خوشگوار سفارتی تعلقات تھے۔

سومیندر ناتھ کی رہائی کے بعد برلن میں برطانوی سفیر رمبولڈ نے یہ معاملہ جرمن وزیر خارجہ کونسٹینٹین وان نیورتھ کے سامنے اٹھایا، جنہوں نے کہا کہ اس ہندوستانی کو ’غلط معلومات پھیلانے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

گینر مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے سومیندر ناتھ سے بات کرنا چاہتا تھا، لیکن تب تک یہ کمیونسٹ کارکن پیرس پہنچ چکا تھا۔

سومیندر ناتھ خوش قسمت تھے کہ ان کی گرفتاری گورنگ کی سربراہی میں خطرناک نازی خفیہ ریاستی پولیس گیسٹاپو کے قیام سے چند دن پہلے ہوئی تھی۔ اگر یہ بعد میں ہوا ہوتا، تو صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس نے اس طرح کے کمیونسٹ سے کیسے نمٹنا ہے۔

ستمبر 1933 میں پیرس میں فاشسٹ مخالف ایک بڑی ریلی میں سومیندر ناتھ نے میونخ میں اپنے تجربات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے ہٹلر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے خوف ناک اور جھوٹے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ برلن میں میری تمام سرگرمیوں سے واقف جرمن پولیس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ میرا سیاسی عقیدہ انفرادی دہشت گردی کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن

میری گرفتاری کی وجہ وہی تھی جو ریخاسٹاگ آتشزدگی کے معاملے میں یا برلن پر ہوائی جہاز کی اڑان کے معاملے میں تھی۔ اس کا مقصد اشتعال انگیزی تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نازی اخبارات نے جب میری گرفتاری کی خبرو دی تو انہوں نے واضح طور پر اس کی اشتعال انگیز نوعیت کا انکشاف کیا۔

انہوں نے مجھے ہرکولین شخص قرار دیا اور کہا کہ جس گاڑی میں میں سفر کر رہا تھا اس میں بہت سا مشکوک مواد ملے تھے، جبکہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں ملا، کیونکہ وہاں بالکل کچھ بھی نہیں تھا۔

’نازیوں کی طرف سے تیار کردہ اشتعال انگیزیوں کے ان طویل سلسلے کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے۔

ہٹلر ازم نے جرمن عوام کی حالت پہلے ہی خراب کر دی ہے اور فاشسٹ حکمرانی میں جرمن عوام کی حالت بد سے بدتر ہونے کا یقین ہے۔‘

ہندوستان واپسی
سومیندر ناتھ 1934 میں ہندوستان واپس آئے اور ایک سیاسی پارٹی قائم کی جو آخر کار ہندوستان کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی بن گئی۔ 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک انہیں انگریزوں نے کئی بار گرفتار کیا۔

انہوں نے اپنی زندگی کے دوران بہت کچھ لکھا، جس میں ہندوستانی نشاۃ ثانیہ میں راجا رام موہن رائے کے کردار اور رابندر ناتھ ٹیگور کے فلسفے اور جمالیات پر کتابیں شامل ہیں۔

وہ 1974 میں اپنی وفات تک سیاست میں سرگرم رہے۔ ایک پرعزم کمیونسٹ ہونے کے باوجود وہ باقاعدگی سے اپنے نظریاتی ہم عصروں کی اندھا دھند پیروی کرنے سے انکار کرتے تھے۔

مثال کے طور پر وہ جوزف سٹالن کے سخت ناقد رہے اور جب کوریا کی جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے لکھا کہ ’سوشلزم یا جمہوریت کے لیے لڑنے والے کسی بھی ملک کے لوگوں کے لیے سٹالنسٹ توسیع پسندی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا امریکہ اور برطانیہ کی سامراجی توسیع پسندی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ