ایئربلو حادثے کے 15 سال: ’جہاز میں کوئی خرابی نہیں تھی‘

جہاز کے سبھی آلات درست کام کر رہے تھے، تو پھر یہ رن وے پر اترنے کی بجائے 15 کلومیٹر دور پہاڑوں سے کیسے جا ٹکرایا؟

آج سے ٹھیک 15 سال قبل، 28 جولائی 2010 کی صبح، ایئر بلیو کی پرواز 202 کراچی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ ایک معمول کی اندرونِ ملک پرواز ہونی چاہیے تھی۔ معمول کی سہی، لیکن یہ پرواز معمولی نہیں تھی۔ اپنی منزل سے صرف چند لمحے دور، ایئربس اے 321 طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرایا اور 152 افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر گیا۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جہاز میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی۔ اس کے سبھی آلات درست کام کر رہے تھے، تو پھر یہ رن وے پر اترنے کی بجائے 15 کلومیٹر دور اس وادی میں کیسے آن پہنچا؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں پرواز کو شروع سے دیکھنا ہو گا۔

طیارے نے کراچی کے ہوائی اڈے سے صبح سات بج کر 51 منٹ پر اڑان بھری۔ اس میں 146 مسافر اور عملے کے چھ ارکان سوار تھے۔

جہاز کو تجربہ کار کپتان پرویز اقبال چوہدری چلا رہے تھے جب کہ ان کے ساتھ معاون ہواباز منتجب احمد تھے۔ حادثے کی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کپتان کراچی سے اسلام آباد کا سارا راستہ اپنے جونیئر کو جھاڑ پلاتے رہے، ان کی تضحیک کرتے رہے اور پورا ایک گھنٹے تک غرور بھرے لہجے میں ان کو لیکچر دیتے رہے۔

رپورٹ کے مطابق اس سے کاک پٹ میں ایک ’تناؤ بھرا اور غیر موزوں ماحول‘ پیدا ہو گیا۔ فرسٹ آفیسر ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے ’اعتماد سے محروم‘ ہو کر کپتان کی ضوابط کی خلاف ورزی اور غلطی کی بروقت نشان دہی نہ کر سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترنا آسان نہیں۔ ایئرپورٹ کے قریب ہی پہاڑ ہیں، اس لیے یہاں اترنے کا ایک مقرر کردہ طریقۂ کار ہے۔ پہلے پائلٹ کو آلات کی مدد سے رن وے 30 پر آنا ہوتا ہے، اس کے بعد خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر رن وے 12 پر اترنا ہوتا ہے۔

اس دوران اسے کم از کم 2,510 فٹ بلندی پر اور آٹھ کلومیٹر کے محفوظ دائرے میں رہنا ہوتا ہے تاکہ پہاڑوں سے دور رہا جائے۔

مگر کپتان چوہدری نے خطرناک راہ اپنائی۔ انہوں نے خراب موسم، بادلوں اور کم حدِ نگاہ کے باوجود آلات کے بغیر خود رن وے 12 دیکھنے پر اصرار کیا۔

کپتان نے کنٹرول ٹاور سے بار بار دائیں جانب سے مڑنے کی اجازت مانگی جو مسترد ہوتی رہی۔ اس نے جہاز کو غیر محفوظ راستے پر ڈال دیا جو کہ پہاڑ کے قریب جا رہا تھا۔ یہ راستہ محفوظ فضائی زون سے باہر مارگلہ پہاڑوں کے اندر جا رہا تھا۔

وہ طیارے کو مقررہ بلندی سے نیچے غیر محفوظ بلندی تک لے آیا، جب کنٹرولر نے خبردار کیا، تو کپتان نے کہا، ’جو وہ کہتا ہے، کہتا رہے۔‘

آخری 70 سیکنڈ

یہ طیارہ جدید حفاظتی نظام سے لیس تھا، جو زمین سے ٹکراؤ سے بچاتا ہے۔ یہ نظام بالکل درست کام کر رہا تھا۔

حادثے سے 70 سیکنڈ قبل پہلی وارننگ آئی TERRAIN AHEAD یعنی آگے زمین ہے۔

اگلے ایک منٹ میں، سسٹم نے21  بار خبردار کیا، جن میں 15 بار ’پُل اپ‘ یعنی جہاز کو اوپر اٹھانے کی ہنگامی کال شامل تھی۔

اب فرسٹ آفیسر کو بھی خطرے کا اندازہ ہو گیا۔ وہ بار بار کپتان کو خبردار کرتا رہا:

’سر، سامنے پہاڑ ہے، بائیں مڑیں۔‘

’سر، زمین قریب آ رہی ہے۔‘

’سر، اوپر اٹھیں، بائیں مڑیں۔‘

اور آخر میں: ’سر ہم نیچے جا رہے ہیں۔۔۔‘

مگر اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا اور کپتان کے بھی ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے، جب اس نے بائیں مڑنے کی کوشش کی، تو غلطی کر بیٹھا۔ اس نے ناب گھمائی، لیکن اسے کھینچ کر فعال نہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طیارہ بائیں مڑنے کی بجائے دائیں جانب یعنی سیدھا مارگلہ پہاڑ کی طرف گھوم گیا۔

کپتان حیرت سے چیخا، ’یہ بائیں کیوں نہیں مڑ رہا یار؟‘

عام طور پر ایسے موقعے پر فرسٹ آفیسر کنٹرول سنبھال لیتا ہے، مگر اسے کپتان نے پہلے ہی اتنا دبا لیا تھا کہ وہ بروقت عمل کرنے میں ناکام رہا اور اس سارے واقعے میں صرف تماشائی بن کر رہ گیا۔

آخر کار نو بج کر 41 منٹ پر ایئر بلیو کی پرواز 202  مارگلہ سے جا ٹکرائی۔ عملے اور مسافروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔

وادی میں جگہ جگہ جہاز کے ٹکڑے جلتے رہے اور بعض جگہوں پر جھاڑیوں کو بھی آگ لگ گئی۔ اس کے بعد سے اگلے کئی دن تک اس وادی میں جہاز کے ملبے  کے ٹکڑے، مسافروں کا سامان، سوٹ کیسوں سے گرنے والے کپڑے اور دوسری چیزیں بکھری ہوئی ملیں۔

ہوائی کمپنی نے حادثے کے مقام سے تھوڑی دور اسلام آباد کی دامنِ کوہ سڑک پر ایک یادگار بنا دی ہے، جس میں حادثے کا شکار ہونے والے 110 مردوں، 29 خواتین اور سات بچوں کے نام درج ہیں۔ 

تحقیقاتی رپورٹ سے واضح ہے کہ یہ حادثہ فنی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ انسانی غفلت، اپنی غلطی نہ ماننے، ضد اور عملے کے آپس میں رابطے کے فقدان کا نتیجہ تھا، جس نے ایئر بلو کی پرواز 202 کو اس وادی میں تباہی سے دوچار کر کے 152 خاندانوں کو ایسے زخم دے دیے جو کبھی نہیں بھریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق