نئی تحقیق کے مطابق دوپہر کا وقت زبانی امتحان، ملازمت کے لیے انٹرویو حتیٰ کہ کسی مقدمے میں پیش ہونے کا بہترین وقت ہو سکتا ہے۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف میسینا کے محققین کے علم میں آیا کہ علی الصبح یا دوپہر کے وقت تاخیر کے ساتھ، کے مقابلے میں صبح کے وقت تھوڑی تاخیر کے ساتھ، طلبہ کے امتحان میں کامیاب ہونے کی شرح میں نمایاں فرق سامنے آیا۔
دوپہر 12 بجے طلبہ کے پاس ہونے کی شرح 72 فیصد تھی جب کہ صبح آٹھ بجے یہ شرح 54 فیصد اور شام چار بجے 51 فیصد رہی۔ صبح 11 بجے اور دوپہر ایک بجے پاس ہونے کی شرح قدرے کم، یعنی 67 فیصد تھی۔
پروفیسر کارمیلو ماریو ویکارِیو نے کہا کہ ‘ہم نے دیکھا کہ امتحانی نتائج دن کے مختلف اوقات میں منظم انداز میں بدلتے ہیں اور دوپہر کے وقت پاس ہونے کی شرح واضح طور پر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طلبہ کے پاس ہونے کے امکانات صبح تاخیر سے، صبح سویرے یا شام کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ رجحان دن میں کسی بھی وقت ہونے والے نوکری کے انٹرویو یا کسی بھی جانچ کے عمل پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔‘
یہ تحقیق 1243 کورسز کے لیے 680 ممتحنین کی جانب سے لیے گئے 104552 امتحانات کے نتائج پر مبنی تھی۔ محققین نے یونیورسٹی کے زبانی امتحانات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، جو زیادہ انفرادی ہوتے ہیں۔ ان امتحانات میں نہ صرف درست جواب پر نمبر دیے جاتے ہیں بلکہ جواب کے انداز پر بھی نمبر ملتے ہیں۔
اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جج مقدمے کی سماعت کے آغاز یا کھانے کے وقفے کے بعد ملزم کے حق میں فیصلہ کرنے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں۔
تاہم یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہو سکتا ہے کہ دن کے مختلف اوقات میں کس قسم کے مقدمات سنے جاتے ہیں۔
اگرچہ تحقیق میں اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی، لیکن اس میں کہا گیا کہ دوپہر کے وقت کارکردگی میں اضافہ اس ثبوت کے مطابق ہے کہ دماغی کارکردگی صبح کے وقت بہتر ہوتی ہے اور دوپہر کے بعد کم ہونے لگتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی توانائی میں کمی بھی ہو سکتی ہے اور اگر پروفیسرز فیصلے کے معاملے میں تھکن کا شکار ہوں تو وہ نمبر دینے میں زیادہ سختی کر سکتے ہیں۔
محققین نے یہ بھی کہا کہ اس کی وجہ طلبہ اور اساتذہ کے مختلف کرونو ٹائپس، یعنی جسم کی قدرتی نیند کے اوقات کے درمیان فرق بھی ہو سکتا ہے۔
’20 سال کی ابتدائی عمر کے افراد عموماً رات کو جاگنے کے عادی ہوتے ہیں جب کہ 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ صبح جلدی اٹھتے ہیں۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ جب پروفیسر سب سے زیادہ چوکس ہوں، طلبہ اس وقت دماغی طور پر کمزور ترین حالت میں ہوں۔‘
پروفیسر ویکارِیو کہتے ہیں کہ ان اثرات سے بچنے کے لیے طلبہ کو بہتر نیند، ذہنی آرام کے لیے وقفے اور امتحانات کو اپنی کمزوری کے اوقات سے ہٹ کر شیڈول کرنے سے فائدہ ہو گا۔
’اداروں کے لیے صبح کے سیشن تاخیر سے شروع کرنا یا اہم امتحانات کو صبح کے وقت تاخیر کے ساتھ لینا نتائج کو بہتر بنا سکتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ رجحان دن کے کسی بھی وقت ہونے والے ملازمت کے انٹرویو یا کسی بھی امتحانی عمل پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔
’ہم اس بات کو جاننے میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا دن کے اوقات پر انحصار کرتے ہوئے ملازمت پر رکھنے کے فیصلے بھی اپنی شفافیت یا نتائج میں فرق رکھتے ہیں۔‘
© The Independent