شاہ جہاں ممتاز محل کی جدائی کے غم میں زار و قطار رو پڑتے

17 جون 1631 کو چہیتی بیوی ارجمند بانو بیگم المعروف ممتاز محل کی اچانک اور غیر متوقع موت نے نہ صرف شاہی قلعے کی فضا سوگوار بنا دی بلکہ شاہ جہاں کو دم بخود کر دیا اور غالباً پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ زار و قطار رو پڑے۔

ابھی نیندر  ناتھ ٹیگو ر کی بنائی ہوئی مشہور پینٹنگ (پبلک ڈومین)

یہ سنہ 1631 کی بات ہے۔ شہاب الدین محمد خرم المعروف شاہ جہاں کو مغلیہ سلطنت کے تخت پر براجمان ہوئے ساڑھے تین سال سے کم عرصہ ہو چکا تھا۔

شاہ جہاں جنوبی ہندوستان کو فتح کرنے کے مقصد سے آگرہ سے برہان پور (مدھیہ پردیش کا ایک قصبہ) منتقل ہو چکے تھے، جہاں وہ دریائے تاپتی کے کنارے پر واقع شاہی قلعے میں قیام پذیر تھے۔

اُس زمانے میں برہان پور ’گیٹ وے آف دکن‘ یا ’باب دکن‘ کہلاتا تھا اور یہ جگہ شاہ جہاں کے لیے ایک لانچنگ پیڈ کی حیثیت رکھتی تھی۔

جنوبی ہندوستان میں شاہ جہاں کی فوجی مہم کامیابی سے جاری تھی۔ مختلف علاقہ جات کو فتح کرنے کا سلسلہ بڑی سرعت سے جاری تھا۔ مسلسل فتوحات بالخصوص ’باغی‘ خان جہاں لودھی کی ہلاکت سے شاہی قلعے میں جشن جیسا سماں تھا۔

17 جون 1631 کو چہیتی بیوی ارجمند بانو بیگم المعروف ممتاز محل کی اچانک اور غیر متوقع موت نے نہ صرف شاہی قلعے کی فضا سوگوار بنا دی بلکہ شاہ جہاں کو دم بخود کر دیا اور غالباً پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ زار و قطار رو پڑے۔

الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ ڈاکٹر بنارسی پرشاد سکسینہ اپنی کتاب ’ہسٹری آف شاہ جہاں آف دلی‘ میں لکھتے ہیں: ’برہان پور میں شاہ جہاں کی زندگی خوش حالی میں گزر رہی تھی۔ نظام شاہی قلعہ جات یکے بعد دیگرے قبضے میں آ رہے تھے۔‘

’خان جہاں لودھی کا تعاقب سرگرمی سے جا بجا کیا جا رہا تھا۔ بالآخر وہ سندھ میں گرفتار ہوئے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کامیابی کا دربار میں جشن عام منایا گیا، لیکن ایک فوری حادثے نے نہ صرف شاہ جہاں کی مسرت کم کر دی بلکہ ایک ایسا غم بن گیا جو عمر بھر ان کو یاد آتا رہا۔‘

ڈاکٹر سکسینہ لکھتے ہیں: ’17 جون 1631 کو ممتاز محل نے ایک بچی (گوہر آرا بیگم) کو جنم دیا۔ وہ وضع حمل کی تکلیف برداشت نہ کر سکیں۔ نڈھال ہونے لگیں۔ جہاں آرا بیگم (دختر) سے کہا کہ میرے بستر مرگ کے قریب شہنشاہ کو بلایا جائے۔‘

’شہنشاہ قریب ہی کے دوسرے کمرے میں تھے۔ جلدی سے اس کمرے میں آئے جہاں ان کی ملکہ تھیں۔ ممتاز محل نے آنکھیں کھولیں، بچوں کو شوہر کے حوالے کیا اور الوداع کہتے ہوئے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئیں۔ یہ سارا حادثہ اتنا جلدی ہوا کہ شاہ جہاں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور وہ زار و قطار رونے لگے۔‘

زیویئر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سروس رانچی (جھارکھنڈ) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اننت کمار اپنے مقالے ’مونومنٹ آف لو آر سمبل آف میٹرنل ڈیتھ: دا سٹوری بیہائنڈ دا تاج محل‘ میں لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں سے شادی کے 19 سال کے دوران ممتاز محل نے 14 بچوں کو جنم دیا، جن میں سے سات بچے بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔

’ممتاز محل 30 گھنٹوں تک درد زہ میں مبتلا رہیں۔ دایہ خاص ستی النسا اور خاندانی طبیب وزیر خان (حکیم علیم الدین) کی انہیں بچانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ ممتاز 39 سال کی عمر میں نفلی ہیمرج اور زچگی سے متعلق دیگر پیچیدگیوں کے باعث موت کی آغوش میں چلی گئیں۔ ممتاز کی موت بلاشبہ ایک میٹرنل ڈیتھ تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم چلا ہے کہ انہوں نے تقریباً ہر سال ایک بچے کو جنم دیا۔‘

ممتاز کی یاد آتی تو فوراً اشک بار ہو جاتے

راحت عزمی اپنی کتاب ’تاج محل‘ میں لکھتے ہیں کہ ممتاز محل کا یوم انتقال شاہ جہاں کی زندگی کا سب سے منحوس دن تھا۔ اس حادثے کے بعد وہ زندگی بھر ایک طرح سے تنہا رہے۔

ڈاکٹر بنارسی پرشاد سکسینہ لکھتے ہیں: ’ممتاز محل کے انتقال سے سارے دربار پر غم و اندوہ کی فضا طاری ہو گئی۔ ایک ہفتے تک شاہ جہاں جھروکے میں نہیں آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب زندگی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شدت احساس سے ان کے بال سفید ہو گئے۔‘

’دو سال تک وہ محفل رقص و سرور وغیرہ سے بیگانہ رہے۔ لباس فاخرہ کے استعمال سے بھی انہوں نے گریز کیا۔ عید اور دوسرے ایسے مواقع پر وہ زار و قطار اشک بار ہوتے۔ اپنی جملہ بیویوں میں سب سے زیادہ عزیز ممتاز محل کا ماتم کرتے رہے۔‘

’بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بار بار کہا کہ جو مقدس فرض مجھ پر عائد کیا گیا ہے، اگر خدا وند کریم کا عطیہ نہ ہوتا تو سلطنت اپنے لڑکوں میں تقسیم کر کے میں دنیا سے دست بردار ہو جاتا۔‘

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنی کتاب ’تاج محل (آگرہ)‘ میں لکھتے ہیں کہ جس قدر شاہ جہاں نے اپنی رفیقہ حیات کے انتقال کو محسوس کیا (مغل شہنشاہوں میں سے) کسی نے نہیں کیا۔

’آئندہ کے لیے عوام میں اس جذبہ اور سرگرمی سے وہ کبھی نہیں آئے جیسا کہ وہ اس سے پیشتر آتے تھے اور دلچسپی لیتے تھے۔ جب کبھی ان کے دل پر مرحومہ کی یاد آئی تو وہ فوراً اشک بار ہو جاتے۔‘

’دیر تک یہ ہوتا رہا کہ جب وہ محل میں اُس آرام گاہ میں جاتے جہاں ممتاز بیگم سکونت پذیر تھیں تو اس کو خالی دیکھ کر ان کے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے۔‘

’ممتاز محل کے انتقال کے وقت شاہ جہاں کی ریش میں مشکل سے بیس بال سفید تھے مگر اس وفات سے تھوڑے ہی عرصے میں ان کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہو گیا۔‘

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ شاہ جہاں نے ممتاز محل کے انتقال کے بعد بقیہ زندگی اکیلے گزاری اور کوئی شادی نہیں کی۔

وہ لکھتے ہیں: ’یہ تصور عام ہے کہ بادشاہ کی بے شمار بیویاں ہوتی ہیں مگر شاہ جہاں نے محض تین بیویوں پر قناعت کی اور انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بطور رنڈوے کے گزارا۔‘

’ممتاز کی عشقیہ شادی سے پیشتر قندھاری بیگم بنت مظفر حسین مرزا صفوی ان کے عقد میں تھیں جن کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ ممتاز سے شادی کے چار سال بعد شاہ جہاں نے ایک اور شادی شاہنواز خان کی بیٹی عزالنسا بیگم سے کی جن کے بطن سے ایک لڑا پیدا ہوا۔ یہ دونوں بچے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے اور ان دونوں بیویوں نے بھی شاہ جہاں کو تھوڑے ہی عرصہ میں داغ مفارقت دیا۔‘

’شاہ جہاں کو ممتاز سے بے حد عشق تھا، جس کی بڑی دلیل ہے کہ وہ قریب 40 سال کی عمر میں رنڈوے ہوگئے اور اس کے بعد انہوں نے 36 سال بغیر شادی رنڈوا رہ کر گزار دیے۔ وہ بادشاہ تھے اور انہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی۔ بہ آسانی شادیاں کر سکتے تھے مگر ممتاز کی محبت ہر حالت میں مانع رہی۔‘

بعض قلم کاروں نے دعویٰ کیا ہے شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے دوران سات تا 20 شادیاں کیں اور ممتاز محل کے انتقال کے بعد ان کی بہن سے شادی کی لیکن کسی بھی قابل اعتماد کتاب یا دستاویز سے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوتی۔

مورخ ڈاکٹر آر پی ترپاٹھی اپنی کتاب ’رائز اینڈ فال آف دا مغل امپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ ممتاز محل کے انتقال سے شاہ جہاں کا دل ٹوٹ گیا اور کم از کم وقتی طور پر ان کی جنوبی مہم میں دلچسپی نہیں رہی۔

’شاہ جہاں نے مارچ 1632 کو برہان پور سے اپنا ڈیرا اٹھا لیا اور واپس شمال کی طرف روانہ ہوئے۔‘

تاہم ڈاکٹر بنارسی پرشاد سکسینہ لکھتے ہیں: ’شاہ جہاں کی شمال کی طرف واپسی دو خاص وجہوں سے ہوئی۔ پہلی یہ تھی کہ شدید قحط نے ان کے جملہ ذرائع مجروح کر دیے۔ ان کے آدمیوں کو بے چین کر دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی وفات کا اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ دکن سے بیزار ہو گئے۔ اب وہاں قیام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ انسانی کمزوری اس موقع پر غالب آئی ورنہ شاذ و نادر ہی انہوں نے معاملات کو نامکمل چھوڑا ہوگا۔‘

جنگی مہمات میں بھی ممتاز شاہ جہاں کے ساتھ

مورخین کے مطابق شاہ جہاں کی ممتاز محل سے بے انتہا محبت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جیتے جی ان کی مفارقت برداشت نہیں کی اور سبھی جنگی مہمات میں ممتاز شاہ جہاں کے ساتھ رہیں۔

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ’شاہ جہاں ممتاز محل کی مفارقت و جدائی کو کبھی برداشت نہیں کرتے۔ یعنی جنگ و مہم کے موقع پر دور دراز علاقوں میں جہاں شاہ جہاں جاتے وہ ان کے ہمراہ رہتیں۔‘

’دکن وغیرہ اور وہ تمام تخت نشینی کے جھگڑوں میں ان کے ہمراہ تھیں کیوں کہ ان کی رفاقت شاہ جہاں کے لیے فیضان کا باعث تھی۔ اس بادشاہ کی طبیعت پر ان کو پورا اختیار حاصل تھا۔‘

’اکثر اوقات وہ قانون کے انتہائی احکام، سزا وغیرہ میں دخل دے کر بادشاہ کو ترحم و عفو پر مجبور کرتیں۔ چناں چہ بہت سے لوگوں کی جان انہوں نے اکثر موقعوں پر بچائی جو ان کے ممنونِ احسان تھے۔‘

راحت عزمی لکھتے ہیں: ’دکن کی مہمات کے دوران شاہ جہاں کو اپنی دور اندیش اور صائب الرائے بیگم کے مشوروں سے ان کو سر کرنے میں کچھ دقت نہیں ہوئی اور سیاسی معاملات میں بھی وہ شاہ جہاں کی مدد کرتی رہیں۔‘

سعید احمد مارہروی نے اپنی کتاب ’مرقع اکبرآباد‘ میں لکھا ہے کہ جب نور جہاں بیگم کے جوڑ توڑ سے شاہ جہاں اور جہانگیر کی باہمی رنجش نے طول کھینچا اور شاہ جہاں کو مجبوراً باغی ہونا پڑا اور صحرا نووردی کی نوبت پہنچی تو ممتاز محل بھی شوہر کی رفاقت میں ساتھ تھیں۔‘

ممتاز محل کے اختیارات

کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں کی حکمرانی کے عہد میں ممتاز محل واحد ایسی خاتون تھیں جنہیں حکومتی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت حاصل تھی۔

ڈاکٹر سکسینہ لکھتے ہیں: ’شاہ جہاں کا روزانہ کا معمول تھا کہ حرم میں خاصہ تناول فرمانے کے بعد قیلولہ کرتے۔ جب بیدار ہوتے تو ممتاز محل وہ فہرست پیش کرتیں جو ان کی دایہ خاص ستی النسا خانم قابل امداد غربا کی تیار کرتی۔ شہنشاہ ہر عرضی کو فرداً فرداً دیکھتے اور احکام صادر فرماتے۔ غریب و محتاج لڑکیوں کے لیے جہیز کا سامان فراہم کیا جاتا اور کبھی کبھی ان کی شادیاں بھی طے کر دی جاتیں، یتیموں اور بیواؤں کو گزر اوقات کے لیے روپے بھی دیے جاتے۔‘

’شاذ و نادر ہی محل سے کوئی سائل خالی ہاتھ واپس جاتا۔ اس طرح کثیر رقم روزانہ کار خیر و امداد میں صرف ہوتی۔‘

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے لکھا ہے کہ ممتاز محل کے انتقال کے بعد عورتوں کی درخواستیں شاہ جہاں کے سامنے پیش کرنے کا فریضہ ان کی چہیتی بیٹی جہاں آرا بیگم نے سنبھالا۔

’شاہ جہاں کے دربار میں چار مہریں ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم جو مہر تھی وہ فرامین جاگیر کے لیے استعمال ہوتی۔ یہ مہر ممتاز بیگم کی تحویل میں رہتی تھی۔ وقت ضرورت اسے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

’جب شاہ جہاں سریر آرائے سلطنت ہوئے تو یہ مہر صدر اعظم آصف خان (ممتاز محل کے والد) کی تحویل میں آ گئی تھی مگر جب انہیں دکن کی مہم پر بھیجا گیا تو یہ مہر ملکہ ممتاز محل کی تحویل میں آ گئی اور ان کی وفات تک انہی کے پاس رہی۔‘

ممتاز محل کون تھیں؟

27 اپریل 1593 کو آگرہ میں جنم لینے والی ممتاز محل عہد شاہ جہاں کے صدر اعظم ابوالحسن آصف خان کی بیٹی اور ملکہ نور جہاں کی بھتیجی تھیں۔

ممتاز محل کے دادا مرزا غیاث بیگ سنہ 1577 میں ایران سے ہندوستان آئے اور یہاں شہنشاہ اکبر کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے۔

منصور حیدر راجہ نے اپنی کتاب ’تاریخ تخت طاؤس‘ میں لکھا ہے کہ ممتاز محل کا سلسلہ نسب شیخ شہاب الدین سہروردی کے توسط سے حضرت ابوبکر تک جا پہنچتا ہے۔

راحت عزمی اپنی کتاب میں ممتاز محل کے خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’ارجمند بانو بیگم اعتماد الدولہ مرزا غیاث بیگ طہرانی کی پوتی، نور جہاں کی بھتیجی اور یمین الدولہ آصف خان اور دیوانجی بیگم کی بیٹی تھیں۔‘

’ممتاز محل کے پردادا خواجہ محمد شریف ایران کے صوبہ خراسان کے حکمران بیگلربیگ کے وزیر تھے۔ دادا مرزا غیاث بیگ اکبر اعظم کے عہد میں ’دیوان بیوتات‘ اور جہانگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت کے وزیر اعظم تھے۔‘

’ممتاز محل کے والد یمین الدولہ آصف خان جہانگیر کے زمانے میں مختلف کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں مرزا غیاث بیگ کے انتقال کے بعد ان کی جگہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔‘

’ممتاز محل کے دو چچا اعتقاد خان اور ابراہیم خان مغلیہ سلطنت کے ذمہ دار عہدوں پر فائز تھے۔ اسی طرح ان کے خاندان کے بہت سے افراد اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور سلطنت کے وفادار ہونے کی بنا پر اعلیٰ عہدوں پر کارگزار رہے۔‘

ممتاز محل کی تعلیم و تربیت سے متعلق تاریخ میں کوئی خاص تفصیل نہیں ملتی، تاہم معین الدین اکبر آبادی نے اپنی کتاب ’تاریخ آگرہ‘ میں لکھا ہے کہ ’جب ممتاز محل سن شعور کو پہنچیں اور لکھنے پڑھنے کے قابل ہوئیں تو ان کے باپ دادا نے ان کے فہم و فراست کو دیکھ کر انہیں اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی۔‘

پہلی ملاقات سے شادی تک

بعض مورخین کے مطابق شاہ جہاں کی ارجمند بانو بیگم سے پہلی ملاقات سنہ 1607 میں قلعہ آگرہ میں لگنے والے مینا بازار میں ہوئی۔

ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ’مینا بازار عام طور پر دارالخلافہ آگرہ کے قلعہ میں لگا کرتے تھے جہاں شاہی خاندان کے مرد اور خواتین مل کر حصہ لیتی تھیں۔ اس طرح کے ایک مینا بازار کے موقع پر اچانک شہزادہ خرم یعنی شاہ جہاں کی ارجمند بانو بیگم سے آنکھیں چار ہوئیں اور وہ فوراً ان کی محبت میں گرفتار ہوئے۔‘

’جب جہانگیر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً ممتاز کے والدین سے شادی کے لیے درخواست کی۔ اُس وقت شہزادہ خرم اور ارجمند بانو بیگم بالترتیب 16 اور 14 سال کے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان کی منگنی ہوئی تو جہانگیر نے خود منگنی کی رسم ادا کرتے ہوئے اپنی بہو کی انگشت میں منگنی کی انگشتری پہنائی۔ پانچ سال بعد سنہ 1612 میں شادی کی رسم نہایت تزک و احتشام سے منائی گئی۔‘

راحت عزمی لکھتے ہیں: ’ارجمند بانو کا مہر پانچ لاکھ باندھا گیا۔ اس شادی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ جہانگیر بذات خود عقد کے موقع پر موجود تھے۔‘

’چوں کہ آصف جان اور خرم دونوں ہی شان و شوکت کے دلدادہ تھے، روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔ سارے شہر میں بڑی چہل پہل اور رونق تھی۔ شہنشاہ کے شایان شان بارات کا اہتمام کیا گیا۔ جب بارات دلہن کے گھر سے چلی تو خود جہانگیر بارات کے آگے آگے تھے۔‘

’ارجمند بانو دلہن بن کر شاہی محل میں آئیں اور بہت جلد اپنے عمدہ کردار، طور طریق، نشست و برخاست، ادب شناسی، اعلیٰ ظرفی، شاہی مزاج دانی، خدمت گزاری اور دادودہش و پرستاری سے محل کے ’طبقہ نسواں‘ میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ جہانگیر بہو کی سعادت مندی سے بے حد خوش تھے۔‘

’یہ شادی خرم کے حق میں بہت مبارک ثابت ہوئی۔ ممتاز محل نازک مزاج، شہزادے کی طبیعت کے عین مطابق تھیں۔ اپنے حسن صورت اور حسن سیرت، فطری نفاست، سنجیدگی و متانت، بذلہ سنجی و ظرافت کے علاوہ خوش خلقی، دقیقہ رسی، معاملہ فہمی، خوش سلیقگی و شائستگی کی وجہ سے بہت جلد خرم کے دل و دماغ پر چھا گئیں۔‘

’ارجمند بیگم تاریخ میں ممتاز، مہد علیا، ممتاز الزمانی، قدسیہ بیگم اور عالیہ بیگم کے ناموں سے معروف ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور نام یا خطاب ممتاز محل ہے جو انہیں شاہ جہاں نے سنہ 1628 میں مغلیہ سلطنت کے تخت پر براجمان ہونے کے فوراً بعد دیا۔‘

شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں کہ ان کے والد کا بحیثیت مغل شہنشاہ پہلا اعلان یہ تھا کہ انہوں نے ارجمند بانو بیگم کو ’ممتاز محل‘ کا خطاب دیا۔

’انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ممتاز محل کو دس لاکھ روپے جبکہ نور جہاں بیگم کو دو لاکھ روپے سالانہ وظیفہ دیا جائے گا۔‘

مغلیہ سلطنت کے درباری مورخین عنایت خان اور معتمد خان بخشی نے بھی اپنی تصانیف ’شاہ جہاں نامہ‘ اور ’اقبال نامہ جہانگیری‘ میں شہنشاہ کے ممتاز محل سے محبت کے بارے میں لکھا ہے۔

تاج محل کی تعمیر

راحت عزمی اپنی کتاب ’تاج محل‘ میں لکھتے ہیں کہ ممتاز محل کی میت کو برہان پور میں دریائے تاپتی کے دوسرے کنارے ’باغ زین آباد‘ میں عارضی طور پر دفن کیا گیا تھا۔

’شاہ جہاں کا معمول تھا کہ ہر جمعے کو وہ فاتحہ خوانی کے لیے ممتاز محل کی قبر پر جایا کرتے تھے۔‘

ممتاز محل کی باقیات تقریباً چھ ماہ بعد آگرہ لائے گئے اور تاج محل کے لیے خریدی گئی زمین میں عارضی طور پر دفن کیے گئے۔

اس عارضی قبر کی چوکھنڈی آج بھی تاج محل کے باغ میں موجود ہے۔ کچھ عرصہ بعد لاش کو تاج محل میں ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیا گیا۔

ڈاکٹر بنارسی پرشاد سکسینہ لکھتے ہیں: ’شہزادہ شجاع، وزیر خان اور ستی النسا ملکہ کی دایہ خاص کی زیر نگرانی لاش ابتدا دسمبر 1631 میں آگرہ لائی گئی۔ یہاں جمنا کے کنارے اس زمین پر دفن کی گئی جو کبھی راجہ مان سنگھ کی ملکیت تھی۔‘

’مان سنگھ کے پوتے جے سنگھ سے شاہ جہاں نے برائے نام قیمت دے کر خرید لی۔ 17 سال کے اندر یہاں اس کی قبر پر ایک ایسا شاندار مقبرہ بنایا گیا جو ایک وفادار شوہر کی وفادار بیوی سے محبت کی دائمی یادگار ہے۔‘

سعید احمد مارہروی نے لکھا ہے کہ جب تاج محل کی تعمیر کے واسطے جگہ پسند کی گئی تو جے سنگھ نے بلا معاوضہ اس زمین کو نذر کرنا چاہا مگر شاہ جہاں نے اس امر کو منظور نہیں کیا اور اس کے معاوضے میں خالصہ سے ایک وسیع قطعہ مرحمت فرمایا۔

’عام طور پر مشہور ہے کہ ممتاز محل نے مرتے وقت شاہ جہاں سے وصیت کی تھی کہ میری قبر پر ایسی عالیشان عمارت تعمیر کی جائے جو تمام دنیا میں بے نظیر ہو، لیکن اس وصیت کا ذکر نہ شاہی تاریخ ’پادشاہنامہ عبدالحمید لاہوری‘ میں ہے نہ کسی اور مستند تاریخ میں نظر سے گزرا۔‘

’جہاں تک قیاس کیا جاتا ہے، یہ خیال آتا ہے کہ شاہ جہاں کو فطرتاً عمدہ عمدہ تعمیرات کرانے کا دلی شوق تھا۔ انہوں نے اپنی پیاری بیگم سے اپنی محبت کا اظہار اس بے نظیر عمارت کے ذریعے سے کیا ہے۔‘

’پادشاہنامہ میں تحریر ہے کہ کل عمارت 50 لاکھ روپے کے صرف سے تعمیر ہوئی ہے۔‘

منصور حیدر راجہ بھی ’تاریخ تخت طاؤس‘ میں لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں تزک و احتشام کے ساتھ زندگی بسر کرنے، عمارتیں بنوانے اور باغات لگانے کے بے حد شوقین تھے۔

بپن شاہ اپنے مقالے ’تاج محل – اے ٹرو سٹوری --- واز اٹ اے لو میموریل آر موسولیم؟‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ ایک جھوٹی کہانی ہے کہ شاہ جہاں نے تاج محل کی تعمیر کرنے والے کاریگروں کے ہاتھ کاٹ دیے۔‘

’جب ان کا انتقال ہوا تو تاج محل کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی۔ یہ اورنگ زیب تھے جنہوں نے تاج محل کی تعمیر کا باقی کام مکمل کروایا تھا۔‘

تابندہ بتول اپنی کتاب ’شالیمار سے تاج محل تک (سفر نامہ بھارت)‘ میں لکھتی ہیں: ’اس مقبرے کی تعمیر 22 برس میں مکمل ہوئی۔ اس کا نقشہ ترکی نژاد استاد عیسیٰ کا بنایا ہوا تھا۔‘

’اس میں جودھ پوری سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ جس چبوترے پر تاج محل تعمیر کیا گیا وہ 18 فٹ اونچا اور 313 فٹ مربع ہے۔ تاج محل کے ہر کونے پر ایک نہایت خوبصورت متناسب مینار ہے جس کی بلندی 133 فٹ ہے۔‘

’ساری عمارت پر پچی کاری کی گئی ہے اور اس کی اہم تعمیری جزیات کو عقیق یمنی، یشب، مرجان اور عقیق سلیمانی سے مرصع کیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ