جب من موہن ڈیسائی نے قادر خان کو سکرپٹ پھاڑنے کی دھمکی دی

نوجوان قادر خان جیسے جیسے ہدایت کار من موہن ڈیسائی کو مکالمے سناتے گئے ویسے ویسے ان کی بے چینی بڑھتی گئی۔

قادر خان کی بنیادی شہرت بطور اداکار ہے مگر انہوں نے کئی کامیاب فلموں کے مکالمے بھی لکھے (Bollywood Hungama: CC BY 3.0)

من موہن ڈیسائی گلی میں بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے، شاٹ مارنے کے لیے تیار ہی تھے کہ ان کی نگاہ دور سے آتے قادر خان پر پڑی۔ 

ناگواری کے ساتھ انہوں نے بلا اور مضبوطی سے تھاما اور گیند پر زور دار ضرب لگاتے ہوئے زیر لب موٹی سے گالی دے کر کہا، ’پھر آ گیا یہ!‘۔

اتنی دیر میں قادر خان، ہدایت کار من موہن ڈیسائی کے مقابل آ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’سر ایسے مجھے گالی نہ دیں۔‘

من موہن ڈیسائی ایک دم گڑ بڑا گئے، جھٹ جھوٹ کا سہارا لے کر کہا، ’نہیں نہیں، میں نے گالی تو کوئی نہیں دی۔‘

قادر خان بولے، ’سر میں ہونٹوں کی جنبش سے جان سکتا ہوں کہ دور کھڑا شخص کیا بول رہا ہے۔‘

من موہن ڈیسائی نے قادر خان کی بات کو نظر انداز کرکے دریافت کیا کہ ’کچھ لکھ کر لائے ہو یا پھر کچھ پوچھنے آئے ہو؟‘

من موہن ڈیسائی نے یہ سوال اس لیے کیا تھا کیونکہ کل ہی ان دونوں کی ملاقات ہوئی تھی، جس میں قادر خان کو ایک فلم کے مکالمے لکھنے کا کہا گیا تھا۔ قادر خان نے بھی برجستہ کہا، ’کیا یہاں کرکٹ کھیلتے ہوئے آپ کو سناؤں؟‘

من موہن ڈیسائی نے حیرت سے پوچھا کہ ’کیا تم لکھ کر لے آئے ہو؟‘

قادر خان نے سر کے اشارے سے مثبت جواب دیا، جس پر من موہن ڈیسائی نے بلا ایک جانب پھینکتے ہوئے انہیں ساتھ گھر چلنے کا اشارہ کیا۔

من موہن ڈیسائی ان دنوں فلم ’روٹی‘ بنانے کی تیاری کر رہے تھے جو 1959 میں آنے والی ہالی وڈ فلم ’فیس آف اے فیوجیٹو‘ سے متاثر تھی۔

1974 کا سال تھا جب راجیش کھنہ کے سپر سٹار ہونے کا سورج امیتابھ بچن کی وجہ سے دھیرے دھیرے غروب کی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہ ’روٹی‘ کے شریک پروڈیوسر تھےاور چاہتے تھے کہ ان کی مقبولیت اور شہرت برقرار رہے۔

اب ہدایت کار من موہن ڈیسائی کی پریشانی تو یہ تھی کہ فلم کے مکالمے انہوں نے معروف اردو شاعر اختر الایمان سے لکھوائے تھے لیکن ادبی مصروفیات کی بنا پر وہ فلم کو مکمل نہیں کر پا رہے تھے۔

صورت حال یہ تھی کہ من موہن ڈیسائی جلد از جل فلم کی تکمیل کے خواہش مند تھے، اسی لیے ’روٹی‘ کے کچھ مناظر اور کلائمکس لکھنے کے لیے انہیں رائٹر درکار تھا جو مل نہیں رہا تھا۔

ایک دن نریندر بیدی جو رائٹر راجندر سنگھ بیدی کے بیٹے ہیں۔ ان کے سامنے اپنی بپتا سنائی تو نریندر بیدی نے انہیں بتایا کہ ان کی فلم ’جوانی دیوانی‘ کے مکالمے ایک نئے نوجوان قادر خان نے لکھے ہیں، ہو سکے تو ایک دفعہ ان سے ملاقات ضرور کرلیں ممکن ہے کہ ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔

من موہن ڈیسائی کے پروڈکشن مینیجر نے قادر خان سے رابطہ کرکے ملاقات کا وقت طے کیا۔

37 برس کے قادر خان بخوبی واقف تھے کہ من موہن ڈیسائی خاصے منہ پھٹ ہدایت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایک منظر میں پرفیکشن کے قائل ہیں، جبھی ذہن میں ان کے ہر سوال کا جواب تیار کرکے ان سے ملنے پہنچے۔ جنہوں نے بیٹھتے ہی کہا، ’دیکھ بھئی۔ میں ’میاں بھائی‘ سے بہت پریشان ہوں۔‘

من موہن ڈیسائی کا اشارہ مسلمان سکرپٹ رائٹرز کی جانب تھا۔ انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’یہ میاں بھائی لوگ سکرپٹ میں محاورے اور شعر و شاعری لکھ کر لے آتے ہیں۔

’مجھے یہ سب نہیں چاہیے۔ مجھے مکالموں میں عام بول چال چاہیے۔ اگر گالی لکھ سکتے ہو تو لکھو۔ میں فلماؤں گا۔ یاد رکھنا۔ اگر اچھا لکھے گا تو میں سر پر بٹھاؤں گا ورنہ سکرپٹ پھاڑ کر پھینک دوں گا۔‘

من موہن ڈیسائی نے فلم کی پوری کہانی سنائی اور قادر خان کو کلائمکس لکھنے کے ٹاسک کے ساتھ ساتھ فلم کے لکھے ہوئے پہلے سے مکالمے درست کرنے کا کہا۔

قادر خان نے اسے مشن سمجھ کر اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے پوری رات جاگ کر نہ صرف کلائمکس لکھا بلکہ پہلے سے لکھے ہوئے مکالموں کی بھی نوک پلک سنواری۔

من موہن ڈیسائی نے گھر میں آنے کے بعد ملازم کو مشروبات لانے کا حکم دیتے ہوئے قادر خان کو صوفے پر بٹھایا اور انتظار کیے بغیر بولے، ’ہاں اب سناؤ۔ کیا لکھ کر لائے ہو؟‘

قادر خان نے مکالمے سنانے شروع کیے۔ تو ایک ایک مکالمے پر من موہن ڈیسائی کا رنگ بدلتا جا رہا تھا۔ قادر خان کا تعلق چونکہ سٹیج سے رہا تھا تو وہ ہر مکالمے کو اس کی فنی ضروریات کے مطابق ادا کر رہے تھے۔

اِدھر من موہن ڈیسائی کبھی اس صوفے پر تو کبھی اس صوفے پر۔ ان کے تاثرات اس بات کی عکاسی کر رہے تھے کہ انہیں قادر خان کے لکھے ہوئے مکالموں نے چونکا دیا ہے۔

اسی دوران انہوں نے اپنی اہلیہ جیون پربھا کو بلایا اور کہا، ’ارے دیکھو تو سہی یہ کیا لکھ کر لایا ہے۔ اس نے تو میری حالت خراب کر دی۔ یہ تو جادوگر ہے۔

یہ تو لگتا ہے مجھے گھول کر پی گیا ہے۔ ایسا رائٹر تو میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ کیا شاندار کلائمکس کے مکالمات لکھے ہیں۔‘

ان جملوں نے قادر خان کے اندر بلا کا اعتماد بھر دیا۔ اب ایک بار پھر قادر خان من موہن ڈیسائی کی فرمائش پر مکالمے سنا رہے تھے۔ دونوں کو یہ اس قدر پسند آئے کہ انہوں نے کوئی 10 بار انہیں سنا۔

قادر خان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ من موہن ڈیسائی نے پھر کہا، ’دیکھ بھائی، میں زیادہ رقم نہیں دے سکتا لیکن تم ویسے کتنا معاوضہ لیتے ہو؟‘

قادر خان نے انتہائی معصومیت سے کہا، ’فی الحال تو میں نے ایک فلم کے لیے 25 ہزار روپے لیے ہیں۔‘

من موہن ڈیسائی بولے، ’ارے ہٹ۔ میں تمہیں ایک لاکھ 21 ہزار روپے دوں گا!‘

یہ رقم اس زمانے میں کسی بھی سکرپٹ رائٹر کے لیے خطیر تصور کی جاتی تھی، جس کا اعلان من موہن ڈیسائی نے کیا۔ صرف یہی نہیں من موہن ڈیسائی کمرے میں گئے اور بطور انعام قادر خان کو ٹی وی کا تحفہ بھی دے دیا۔

من موہن ڈیسائی کی ’روٹی‘ جب 11 اکتوبر، 1974 کو سینیما گھروں میں پہنچی تو زبردست کاروبار کیا۔

یوں اس نے راجیش کھنہ کے کیریئر کو بھی سہارا دیا لیکن اس سے زیادہ من موہن ڈیسائی اور قادر خان کی جوڑی کا یہ ملاپ آنے والے دنوں میں کئی سپر ہٹ فلموں کا باعث بن گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبھی ’پرورش،‘ ’دھرم ویر،‘ ’امر اکبر انتھونی،‘ ’سہاگ،‘ ’نصیب،‘ ’دیش پریمی‘ اور ’قلی‘ جیسی فلموں کے لیے قادر خان نے نہ صرف مکالمے لکھے بلکہ کہانیاں بھی لکھیں۔

اداکاری، جو ان کا اولین شوق تھا، اسے بھی کسی نہ کسی طرح پورا کرتے رہے۔ بطور ہدایت کار من موہن ڈیسائی کی آخری فلم ’گنگا جمنا سرسوتی‘ میں بھی قادر خان نے اپنے قلم کا جادو دکھایا۔

قادر خان اس بات کا اعتراف کرتے کہ درحقیقت من موہن ڈیسائی جیسے ذہین، باریک بینی کے ساتھ گہرے مشاہدے والے باصلاحیت کامیاب ہدایت کارکے ساتھ کام کر کے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔

ان کے لیے یہ آسانی بھی ہو گئی کہ دیگر ہدایت کاروں نے بھی ان سے فلمیں، مکالمے اور اداکاری بھی کرائی۔

وہ سمجھتے تھے کہ من موہن ڈیسائی کو مطمئن کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور وہ اس اعتبار سے خوش قسمت رہے کہ دوسری ملاقات میں ہی انہوں نے من موہن ڈیسائی کے من میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم