جب ہم نے زرعی مافیا پر چھاپہ مارا

چھاپہ مارنے کے لیے میں نے اپنے دو گن مینوں اور دو قابل اعتماد کانسٹیبلوں کو منتخب کیا تھا کیونکہ اگر ذرا بھی انفارمیشن افشا ہوتی تو ساری محنت ضائع چلے جانے کا اندیشہ تھا۔

ماڈل تھانوں کے قیام سے جہاں لوگوں میں پولیس  پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوا، وہاں عوام کی توقعات میں بھی بہت اضافہ ہو چکا تھا(فائل فوٹو: اےا یف پی)

 2001 کی بات ہے۔ ایک روز میں تھانے میں بیٹھا معمول کی ڈاک دیکھ رہا تھا تو ایک خط کے متن نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔

خط تحریر کرنے والے محب وطن شہری نے ایک ایسے مافیا کی نشاندہی کی جو اسی ماڈل تھانے کی حدود شیخ فاضل میں سرگرم تھا۔

یہ مافیا شیخ فاضل میں ایک خفیہ جگہ پر کثیر تعداد میں مشہور برانڈ کی کھادوں، بیجوں اور زرعی ادویات کی نقل تیار کر کے جعلی ناموں سے مارکیٹ میں پھیلا رہا تھا، جب کہ محکمہ زراعت کا عملہ اور مقامی پولیس اس کاروبار سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے تھے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب حکومت پنجاب نے ہر تحصیل میں دو تھانوں کو ماڈل تھانے بنانے اور ان تھانوں میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے خصوصی طور پر بھرتی کیے گئے انسپکٹروں کو ایس ایچ او لگانے کا حکم دیا تھا۔

اس طرح ہمیں بھی بورےوالا کے ایک ماڈل تھانے کا ایس ایچ او تعینات کر دیا گیا۔ ماڈل تھانوں کے قیام سے جہاں لوگوں میں پولیس پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوا، وہاں عوام کی توقعات میں بھی بہت اضافہ ہو چکا تھا۔

ہماری کوشش تھی کہ اہل علاقہ کے ساتھ جس قدر ممکن ہو سکے رابطہ بحال رکھا جائے تاکہ ’کمیونٹی پولیسنگ‘ کے ذریعے جرائم کی موثر روک تھام کو ممکن بناتے ہوئے کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

ہم نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ترغیب دی کہ وہ اپنے علاقے میں وقوع پذیر ہونے والی غیر قانونی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور ایک مہذب شہری ہونے کے ناطے ان غیر قانونی دھندوں کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ ان عناصر کے خلاف بروقت کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

پولیس اور عوام کے مابین پائے جانے والے اعتماد کے فقدان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے لوگوں کو یہاں تک کہا کہ وہ بے شک اپنا نام ظاہر نہ کریں لیکن جرائم اور جرائم پیشہ عناصر سے متعلقہ معلومات ہم تک ضرور پہنچائیں۔

نتیجتاً اہل علاقہ کی جانب سے خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ شروع شروع میں محرر صاحب خطوں کو کھول کر میرے ’ڈاک پیڈ‘ میں رکھ دیتے لیکن جلد ہی میں نے انہیں ’انفارمیشن لیک‘ ہونے کے خدشے کے پیش نظر خط کھولنے سے منع کر دیا۔ چنانچہ اب میں خطوط کو خود کھولتا اور جن میں کچھ اہم معلومات ہوتیں انہیں الگ فائل میں رکھ کر اپنے ٹیبل کی دراز میں رکھ دیتا۔

اسی طرح کا ایک خط کھول کر مجھے اس مافیا کے بارے میں خبر ملی جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا۔

بہت سی زرعی فصلوں کے بیج، کھاد اور زرعی ادویات فروخت کرنےوالے مقامی دوکاندار محض لالچ کی خاطر اس مافیا کا آلۂ کار بن کر سادہ لوح کسانوں کو انتہائی غیر معیاری، ناقص اور فصلوں کے لیے مضر ترین اثرات رکھنے والے نقلی بیج، کھاد اور زرعی ادویات فروخت کر رہے تھے جب کہ محکمہ زراعت کے اندر موجود چند کالی بھیڑیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

نتیجتاً فصلوں کو بیماریوں سے بچانے اور زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کی جانے والی کھادیں اور زرعی ادویات فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بن رہی تھیں۔

ان جعلی کھادوں اور جعلی زرعی ادویات کے ذریعے کاشت کاروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا تھا۔ ایک طرف زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی تھی تو دوسری جانب قابلِ کاشت زمین کی زرخیزی بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔

خود کاشت کار کا بیٹا ہونے کے ناطے بھی میرے تھانے کی حدود میں ایسے گروہ کی موجودگی میرے لیے نہایت شرمندگی کا باعث بن رہی تھی، کیوں کہ مجھے اس بات کا قوی یقین تھا کہ اس طرح کا مکروہ دھندہ محکمہ زراعت کے مقامی عملے اور متعلقہ تھانے کی ملی بھگت کے بغیر اس قدر فعال انداز میں نہیں چل سکتا۔

چنانچہ میں نے اس مافیا کے خلاف ایکشن لینے اور انہیں کیفرکردار تک پہچانے کا فیصلہ کر لیا۔

میں نے مخبران مامور کر دیے تھے جو مجھے صبح شام صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے۔

ابتدائی موصولہ اطلاعات کے مطابق جعلی زرعی ادویات اور کھادیں تیار کرنے والے گروہ کا سربراہ امجد جٹ نامی شخص تھا جو مقامی اور سیاسی طور پر کافی بااثر تھا، یعنی سادہ لفظوں میں ان کی پہنچ بہت اوپر تک تھی۔ میرے تجربے کے مطابق ایسے شخص پر ہاتھ ڈالا جائے تو پکا ہی ڈالا جائے تب اس کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے، ورنہ یہ چکنی مچھلی کی طرح صاف نکل جاتے ہیں۔

اب میرے لیے اولین ترجیح شیخ فاضل میں اس خفیہ جگہ کا سراغ لگانا تھا، جہاں یہ جعلی کھاد اور زرعی ادویات تیار کی جا رہی تھیں تاکہ میں ملزمان کو ٹھوس ثبوت اور شواہد کے ساتھ گرفتار کر سکوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے مخبر زرعی ادویات کے ڈیلروں سے بھی معلومات ذخیرہ کر کے مجھے فراہم کر رہے تھے۔

بالآخر میرے دو مخبر اس خفیہ جگہ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئے جہاں کثیر تعداد میں جعلی کھاد اور زرعی ادویات تیار کی جا رہی تھیں۔

جعلی کھاد اور ادویات کی تیاری کا پلانٹ، موضع 409 ای بی شیخ فاضل میں ایک بڑے احاطے میں لگایا گیا تھا جہاں علی الصبح ٹریکٹر ٹرالیوں کے ذریعے تیار شدہ جعلی مال کو بورےوالا، چیچہ وطنی، ساہیوال و دیگر علاقوں میں بھجوایا جاتا۔

جگہ کا علم ہونے کے بعد تاخیر بلاجواز تھی، چنانچہ میں نے سارے حالات و واقعات ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈاکٹر جمیل احمد کے گوش گزار کیے اور ان سے اس جعلی کھاد فیکٹری پر چھاپہ مارنے کی اجازت طلب کی۔

انہوں نے مہربانی فرماتے ہوئے نہ صرف مجھے اجازت مرحمت فرمائی بلکہ ریڈ کے لیے اضافی نفری کے طور پر ایلیٹ پولیس فورس کی ایک گاڑی بھی میرے ساتھ مامور فرما دی۔

ہم نے غورو خوض کے بعد علی الصبح نماز فجر کے بعد اس خفیہ جگہ پر چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا۔

اس ریڈ کے لیے میں نے اپنے دو گن مینوں اور دو قابل اعتماد کانسٹیبلوں کو منتخب کیا تھا کیونکہ اگر ذرا بھی انفارمیشن افشا ہوتی تو ساری محنت ضائع چلے جانے کا اندیشہ تھا اور اس بات سے میں ڈی پی او صاحب کو بھی مطلع کر چکا تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے میرے ساتھ ایلیٹ فورس کی گاڑی مامور کی تھی تاکہ اس مافیا کے خلاف کارروائی میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

میں نے ریڈ کرنے سے قبل اس جگہ کی مکمل ریکی کروا لی تھی اور موصولہ معلومات کی روشنی میں ایک رف نقشہ اور ریڈ کا سٹریٹیجک پلان بھی مرتب کر لیا تھا۔ پلان کے مطابق ہم نے صبح چھ بجے اس جگہ کو محاصرے میں لے کر عین اس وقت ریڈ کر دیا جب ملزمان جعلی کھاد ٹرالیوں پر لوڈ کر رہے تھے۔

اس احاطے کے باہر موجود ملزمان کے مامور کردہ دو گن مینوں کو ہم پہلے سے ہی غیر مسلح کر کے حراست میں لے چکے تھے، اور ان کی بندوقیں بھی ہمارے قبضے میں تھیں۔

ہم نے پورے احاطے کی تلاشی لی اس دوران جعلی کھاد کی تیار شدہ سینکڑوں بوریوں کے ساتھ ساتھ احاطے سے ملحقہ ایک کمرے سے بہت بڑی تعداد میں معروف بانڈز سے ملتے جلتے ناموں والی زرعی ادویات کی خالی بوتلیں، اور پیکنگ کا سامان بھی برآمد ہو چکا تھا۔ جعلی کھاد اور ادویات کی ترسیل میں مصروف چار، پانچ افراد کو تو ہم حراست میں لے چکے تھے لیکن مرکزی ملزم چوہدری امجد جٹ کی گرفتاری تاحال ممکن نہ ہو سکی۔

ہم نے برآمد شدہ جعلی مال اور زیر حراست ملزمان کو بذریعہ سرکاری گاڑی تھانے پہنچایا اور ڈی پی او صاحب کو ساری تفصیلات معہ برآمدگی سے آگاہ کیا۔

ڈی پی او صاحب نے ریڈ کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ دو گھنٹے بعد ماڈل تھانے آ کر خود پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے اور میڈیا کے سامنے اس مافیا کے کالے کارناموں کو بے نقاب کریں گے۔

ڈی پی او صاحب نے ڈی ایس پی لیگل سے مشاورت کے بعد ڈسٹرکٹ زراعت افسر سے رابطہ کیا اور انہیں اس کیس اور موقعے سے برآمد ہونے والی جعلی کھاد کی سینکڑوں بوریوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں بطور مدعی اس کیس کی پیروی کا مشورہ دیا۔

ڈسٹرکٹ زراعت افسر نے فوراً بورےوالا تحصیل کی سطح کے ایک افسر کو اس کیس کی پیروی کے لیے مامور کر دیا۔ چنانچہ متعلقہ دفعات کے تحت، اس گروہ کے سرغنہ چوہدری امجد جٹ سمیت پانچ افراد پر مقدمہ درج کر دیا گیا۔

ٹھیک دس بجے دن ڈی پی او صاحب نے ماڈل تھانے میں پریس کانفرنس کی اور میڈیا کو اس علاقے میں گذشتہ کئی ماہ سے متحرک جعلی زرعی ادویات و کھادیں بنانے والے گروہ کے کالے کارناموں سے آگاہ کیا۔

میڈیا نمائندگان کو موقعے سے برآمد شدہ کھاد کی بوریاں اور مختلف معروف برانڈز کے جعلی سٹیکرز بھی دکھائے گئے تاکہ اس مافیا کے کالے کرتوتوں کو پوری طرح بے نقاب کیا جا سکے۔

ڈی پی او ڈاکٹر جمیل صاحب نے ریڈنگ پارٹی کو شاباش دیتے ہوئے ان کے لیے سرٹیفیکیٹس اور نقد انعام کا اعلان کیا۔

گروہ کا سرغنہ چوہدری امجد جٹ جو عدالت کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری پر تھا، عدالت نے کیس میں ٹھوس شواہد اور پولیس کی درخواست کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ضمانت قبل از وقت گرفتاری منسوخ فرما دی اور انہیں کمرۂ عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

اس مقدمے کے حوالے سے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں تا کہ ملزمان کی تفتیش کے مطابق جہاں جہاں یہ جعلی مال بیچا گیا ہے اسے برآمد کیا جا سکے۔

اس مقدمہ کی تفتیش کئ ماہ تک جاری رہی اور جعلی زرعی ادویات اور کھادیں مسلسل برآمد ہوتی رہیں۔

اس گروہ کی گرفتاری کو جہاں اہل علاقہ نے خوب سراہا، وہاں مارکیٹ کے اندر اس جعل ساز گروہ کا سامان فروخت کرنے والے ڈیلرز نے ممکنہ گرفتاریوں کے خوف کے پیش نظر، فوری طور پر ان جعلی ادویات اور کھادوں کے سٹاک کو اپنی اپنی دکانوں سے غائب کروا دیا۔

پولیس کے خلاف جلوس تو لوگ اکثر نکالتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اہل علاقہ نے پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے جلوس نکالا اور ان کے حق میں نعرے لگائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی