یہ طرم خان کون تھا؟

آپ نے اکثر سنا ہوگا: ’فلاں بڑا طرم خان بنا پھرتا ہے،‘ لیکن کیا کبھی سوچا کہ یہ طرم خان کون تھا اور اس کی وجۂ شہرت کیا ہے؟

1857کی جنگِ آزادی کاایک منظر (پبلک ڈومین)

ایک محاورہ زبان زد عام ہے کہ ’بڑے طرم خان بنے پھرتے ہو یا پھر تم کون سے طرم خان ہو۔‘

ہم میں سے اکثر نے اردو کا یہ مشہور محاورہ سن رکھا ہے مگر شاید ہم یہ نہیں جانتے کہ طرم خان تھے کون اور ان کا کردار آخرکیسے لازوال ہو کر محاورے میں ڈھل گیا۔

اس محاورے کی کھوج ہمیں 1857 کی جنگ آزادی تک لے جاتی ہے جہاں ریاستِ حیدرآباد دکن کا نواب، جو ’نظام دکن‘ کہلاتا ہے، برطانیہ کا اتحادی ہے اور ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کوئی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

لیکن جب انگریز کے خلاف تحریک آزادی کے نعرے ہندوستان کے گلی کوچوں تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کی بازگشت نظام حیدر آباد کے درو دیوار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہاں بیگم بازار کا ایک عام سپاہی طورے باز خان نہ صرف باغیوں کی قیادت کرتا ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ چھ ہزار مظاہرین کو لے کر حیدر آباد میں برٹش ریذیڈنسی پر حملہ کر دیتا ہے۔ سب سے پہلے طورے باز نام پر کچھ بات ہو جائے۔

طورہ یا تورہ پشتو میں تلوار کو کہتے ہیں، یوں طورہ باز کا مطلب ہوا تلوار چلانے والا یا شمشیر زن۔ یہی طورہ باز/ طورے باز، طرے باز بنا، پھر طرم خان کے روپ میں ڈھل کر ایک لوک ہیرو بن گیا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور ایک گمنام سپاہی اساطیری کردار کیسے بنا، یہ کہانی جتنی عجیب ہے، اتنی ہی دلچسپ بھی ہے۔

 

جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچتے ہیں تو حیدرآباد کی مساجد، مندروں، گوردواروں اور چرچوں کی دیواروں پر اشتہارات سج جاتے ہیں، جن میں نہ صرف انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں نعرے درج ہیں بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ نظام بھی اس جنگ میں شریک ہو۔

حالانکہ نظام افضل الدولہ اپنے رفقا، سالارِ جنگ، امرا اور سرداروں کے ساتھ انگریزوں کی حمایت کا اعلان کر چکا تھا، مگر پھر بھی ریاست کے باشندوں نے اس جنگ میں ایک ایسی کہانی رقم کی جس نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ نظام کے نظام کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دیں۔

نظام دکن نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ 1800 میں ہی اتحادی ہونے کا معاہدہ کر ڈالا تھا، جس کا قلق ریاست کے باسیوں کو شروع دن سے ہی تھا۔ جب جنگ آزادی کے شعلے 1857 میں بھڑک اٹھے تونظام کی فوج میں انگریز افسروں کے خلاف بھی مزاحمت شروع ہوگئی۔ نظام کی فوج کے ایک رسالے کو بغاوت کچلنے کے لیے بلڈھانہ سے دہلی جانے کا حکم دیا گیا تو جمعدار چھیدا خان نے انکار کر دیا کیونکہ جمعدار چھیدا خان یہ قطعی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس بغاوت کو کچلنے میں مغلوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دے۔

چھیدا خان اپنے 15 دیگر ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد پہنچا تاکہ وہ نظام کو قائل کرسکے کہ اس جنگ میں شامل نہ ہو لیکن جیسے ہی وہ حیدر آباد پہنچا اسے نظام کے وزیر میر تراب علی خان نے گرفتار کرکے انگریزوں کے نمائندے کے آگے پیش کر دیا جس نے اسے اور ان کے ساتھیوں کو اپنی ہی کوٹھی میں قید کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب یہ خبر پھیلی توانگریز کے خلاف عوام میں نفرت پھیل گئی۔ اس موقعے پر طرے باز خان نے باغیوں کی قیادت سنبھال کر بیگم بازار میں، جہاں جمعدار چھیدا خان اور اس کے ساتھیوں کو قید کیا گیا تھا، اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ ہلہ بول دیا۔

اس موقعے پر مولوی اللہ الدین بھی اپنے ساتھیوں کے طرے باز خان کی حمایت میں پہنچ گئے، مگر نظام کا وزیر میر تراب علی خان انگریز میجر کتھبرٹ ڈیوڈسن کو پہلے ہی باغیوں کے حملے کی اطلاع دے چکا تھا جس کی وجہ سے انگریزوں نے جوابی اقدامات کی تیاری کرلی تھی۔

طرے باز خان اور مولوی اللہ الدین کے ساتھیوں نے انگریز ریزیڈنسی کی دیوار گرا دی اور دروازے کو توڑتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی دو طرفہ لڑائی شروع ہو گئی لیکن طرے خان کے ساتھیوں کے پاس ہلکے ہتھیار تھے جو انگریز کی تربیت یافتہ مدراس آرٹلری کے سپاہیوں کے مقابلے پر ناکارہ تھے۔ پھر بھی تمام رات گولیاں چلتی رہیں مقابلہ ہوتا رہا۔

بالآخر صبح کے چار بجے باغی پسپا ہو گئے لیکن انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ طرے باز خان اس نیت سے فرار ہوا کہ وہ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ پھر حملہ کرے گا۔

22 جولائی کو تراب علی خان کو خبر ملی کہ طرے باز خان ایک بار پھر انگریز ریزیڈنسی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے طرے باز خان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ طرے باز خان بھیس بدل کر روپوش ہو چکا تھا۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ طرے باز خان کی ایک پیدائشی شناختی علامت تھی کہ اس کی آنکھ کے قریب ایک تل تھا جس کی وجہ سے نظام کے کھوجیوں نے اشورخانہ کے قریبی جنگلات میں اسے ڈھونڈ نکالا۔

اس پر حیدر آباد کی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس دوران اس سے مولوی اللہ الدین اور دیگر باغیوں کے ٹھکانے پوچھے گئے اور نہ بتانے پر طرح طرح کی صعوبتیں دی گئیں مگر طرے باز خان نے کوئی راز نہ اگلا۔ اسے سزا دے کر عمر بھر کے لیے جزائر انڈیمان (کالا پانی) بدر کر نے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

مگر اس سے پہلے کہ اسے کالا پانی بھیجا جاتا وہ 18جنوری1857 کو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ خبر پا کر انگریز انتظامیہ میں ہل چل مچ گئی انہوں نے طرے باز خان کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار کے خطیرانعام کا اعلان کر دیا۔

نظام کے فوجی جگہ جگہ پھیل گئے۔ آخر کار 24 جنوری کو توپران کے جنگل میں تعلقدار مرزا قربان علی بیگ کی قیادت میں ایک فوجی دستے نے طرے باز خان کو ڈھونڈ کر مار دیا۔

اس کی لاش کو شہر میں لایا گیا اور انگریز ریزڈنسی کے سامنے برہنہ کرکے درخت سے لٹکا دیا گیا۔ اس طرح طرے باز خان ولد رستم خان آف بیگم بازار کی کہانی کا اختتام ہو گیا، لیکن اپنے پیچھے شجاعت و بہادری کی وہ مثال چھوڑ گیا جو آج بھی محاورہ بن کر تاریخ کے ابواب پر زندہ ہے۔

حیدر آباد میں بغاوت کو کچلنے کے بارے میں بمبئی کے انگریز گورنر نے گورنر جنرل کو لکھا کہ ’اگر نظام کی مدد حاصل نہ ہوتی تو انگریز جنوبی ریاستوں میں شکست کھا جاتا۔‘

حیدرآباد میں طرے باز خان کی بغاوت کو کچلنے میں 94 فوجی مارے گئے۔ طرے باز خان کو مارنے پر تعلق دار مرزا قربان علی کو پانچ ہزار روپے انعام دیا گیا اور اس کی تنخواہ میں دو سو روپے کا اضافہ کیا گیا، جبکہ اسے ترقی دے کر صدر تعلق دار بنا دیا گیا۔

نظام کو ’سٹار آف انڈیا‘ کے اعزاز سے نوازا گیا جبکہ ریاست کے ذمہ 50 لاکھ سے زائد کے واجبات معاف کر دیے گئے۔ نظام کواپنا سکہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا۔ میر تراب علی کو سالار جنگ کے اعزاز سے نوازا گیا۔

آج نہ نظام ہے نہ اس کی ریاست، لیکن طرے باز خان کا نام پہلے طرے خان اور پھر طرم خان بن کر اردو میں امر ہو چکا ہے۔

حیدرآباد میں جہاں انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی، عین اسی جگہ پر طرے باز خان اور دوسرے شہدائے آزادی کی یادگار بھی موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ