جب حیدرآباد دکن کے آخری صدر اعظم بھارت سے کراچی فرار ہوئے

پھر جب حیدرآباد میں تعینات چیف سویلین ایڈمنسٹریٹر ڈی ایس باکھلے نے سردار پٹیل کو بتایا کہ ’لائق علی فرار ہو گئے ہیں‘ تو آخرالذکر نے اولالذکر کو اس ’ہزیمت ناک لاپرواہی‘ پر خوب ڈانٹ پلائی۔

14 نومبر 1903 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے میر لائق علی کا 24 اکتوبر1971 میں انتقال ہوا لیکن تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہوئی(تصویر:پبلک ڈومین)

7 مارچ 1950 بروز منگل بھارت اور پاکستان سے شائع ہونے والے متعدد اخبارات میں یہ سنسنی خیز خبر شائع ہوئی کہ حیدرآباد دکن کے آخری صدر اعظم میر لائق علی اپنی رہائش گاہ بیگم پیٹ (جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا) سے فرار ہو کر کراچی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اس سنسنی خیز خبر کا بنیادی سورس (ذریعہ) ریڈیو پاکستان کی ایک خبر تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حیدرآباد دکن کے صدر اعظم میر لائق علی نے دارالحکومت کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی ہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ ریڈیو پاکستان نے جس تقریب میں لائق علی کی شرکت کا انکشاف کیا تھا وہ انہی کے خیر مقدم و استقبال کے لیے منعقد کی گئی تھی۔

پاکستان میں اس وقت تعینات بھارتی ہائی کمشنر سیتا رام کو پہلے ہی کہیں سے لائق علی کی کراچی آمد کی اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے حیدرآباد دکن پر فوجی حملے کے منصوبہ ساز سردار ولبھ بھائی پٹیل (بھارت کے پہلے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ) سے ٹیلیفونک رابطہ قائم کیا۔

سیتا رام نے علیک سلیک کے بعد ولبھ بھائی پٹیل سے پوچھا: ’کیا لائق علی کی نظر بندی ختم کی گئی ہے کہ وہ یہاں کراچی آ پہنچے ہیں؟‘

اس خبر سے پٹیل سخت پریشانی میں مبتلا ہوئے کہ کیسے ایک زیر حراست شخص، جو عالمی شہرت کا حامل ہو، بھارتی پولیس فورس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو چکمہ دے کر اتنی آسانی سے کراچی فرار ہو سکتا ہے۔

سردار پٹیل سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے فوراً حیدرآباد میں تعینات اپنے افسروں کو ٹیلیفون کیا اور ان سے جاننا چاہا کہ لائق علی کہاں اور کیسے ہیں۔ حقیقت سے نابلد افسروں نے انہیں جواب دیا کہ موصوف پچھلے چند ہفتوں سے علیل ہیں اور اپنی رہائش گاہ پر ہی نظر بند ہیں۔

سردار پٹیل نے کسی برہمی کا اظہار کیے بغیر حکم دیا کہ پولیس کا کوئی سینیئر افسر جا کر لائق علی کی مزاج پرسی کرے۔ جب پولیس کے انسپکٹر جنرل رینک کے ایک افسر بیگم پیٹ میں لائق علی کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انہیں وہاں کمرے میں پلنگ پر لائق علی کی جگہ ایک تکیہ رکھا ہوا ملا اور ان کے اہل خانہ و ملازم گھر سے غائب تھے۔

پھر جب حیدرآباد میں تعینات چیف سویلین ایڈمنسٹریٹر ڈی ایس باکھلے نے سردار پٹیل کو بتایا کہ ’لائق علی فرار ہو گئے ہیں‘ تو آخرالذکر نے اولالذکر کو اس ’ہزیمت ناک لاپرواہی‘ پر خوب ڈانٹ پلائی۔

اسی دوران حیدرآباد دکن میں میر لائق علی کے فرار کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا۔

کہیں افواہ تھی کہ ’صدر اعظم‘ ایک بڑی دیگچی میں بیٹھ کر گھر سے فرار ہو گئے، کہیں یہ افواہ پھیلی تھی کہ وہ برقعہ پہن کر گھر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور کہیں یہ افواہ تک تھی کہ وہ ایک خصوصی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر پاکستان چلے گئے۔

فرار کی کہانی سامنے لانے والے مسلمان افسر

بھارتی حکومت نے میر لائق علی کے کراچی فرار ہونے کے واقعہ کی تفتیش کے لیے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک کو حیدرآباد روانہ کیا۔ حیدرآباد پہنچنے پر آئی جی پی جیٹلے اور کمشنر سٹی پولیس ایس این ریڈی کو ان کے ساتھ تعینات کیا گیا۔

ان تینوں نے بھارتی حکومت کے احکامات پر مقامی کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ یا سی آئی ڈی کے مسلمان افسر فضل رسول خان ناغڑ کو بھی تفتیشی ٹیم میں شامل کر لیا جنہوں نے کچھ ہی گھنٹوں میں پتہ لگایا کہ لائق علی کس طرح اپنی رہائش گاہ سے فرار ہو کر کراچی پہنچے۔

اپنے زمانے میں حیدرآباد دکن کے شرلاک ہومز کہلائے جانے والے فضل رسول کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’سراغ رسانی اور تفتیش‘ کو ان کے بیٹے محمد مرتضیٰ علی خان نے سنہ 1981 میں حیدرآباد دکن سے شائع کرایا ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی ڈی کے افسر فضل رسول کو لائق علی کے فرار کی پوری کہانی ان (لائق علی) کی ہمشیرہ شوکت النسا بیگم اور ان کے صاحبزادے فصیح الدین، دیگر عزیز و اقارب اور ڈرائیوز سے معلوم ہوئی۔

کتاب میں لکھا ہے: ’بھارتی حکومت نے یہ معلوم کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کی کہ آخر لائق علی اتنے کڑے پہرے سے کس طرح بچ کر نکل گئے۔ حیدرآباد میں شک کی بنا پر بہت سی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، نظام حیدرآباد کی حکومت کے وزرا و عہدیدار جو اپنے گھروں پر نظر بند تھے کو سینٹرل جیل منتقل کیا گیا، لائق علی کے رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور ان سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو نظر بند کر دیا گیا۔

'جب بی این ملک اور ان کی ٹیم تین دن تک لائق علی کے فرار ہونے کے طریقہ کار کا انکشاف نہ کر سکی تو بھارتی حکومت نے ہدایت دی کہ مقامی سی آئی ڈی عہدیدار فضل رسول خان کو بھی شریک تفتیش کیا جائے۔ شاید میرا ذکر کے ایم منشی (ایجنٹ جنرل آف انڈیا ان حیدرآباد سٹیٹ) کی اُن رپورٹس میں تھا جو وہ بھارتی حکومت کو پیش کیا کرتے تھے۔

’بہرحال میں نے اندرون تین گھنٹے تفتیش مکمل کر لی۔ لائق علی نے فرار ہونے کے لیے کوئی غیر معمولی یا محیر العقول طریقہ استعمال نہیں کیا تھا۔ ہر قدم پر ان کے گرفتار ہونے کا امکان موجود تھا۔ ان کی قسمت نے ان کا ساتھ دیا وہ بچ کر نکل گئے۔‘

لائق علی کے فرار کا منصوبہ

فضل رسول خان ناغڑ کی کتاب ’سراغ رسانی اور تفتیش‘ میں لکھا ہے کہ 1948 میں بھارت کے حیدرآباد دکن پر فوجی حملے کے بعد جب لائق علی کو نظر بند کیا گیا تو شروع شروع میں ان پر نگرانی کافی سخت رکھی گئی۔

’درمیان میں لائق علی نے حکومت سے کہا کہ نظر بند وہ ہیں نہ کہ ان کے اہل خانہ کہ ہر آنے جانے والے اور ہر گاڑی کی سختی سے تلاشی لی جاتی ہے۔ اس شکایت کے بعد پابندیوں میں نرمی لائی گئی اور کچھ عرصہ بعد تو ان سے کاروباری اصحاب، جن سے لائق علی کے بحیثیت صنعت کار تعلقات تھے، کو ملنے کی اجازت بھی دی جانے لگی۔

’نظام حکومت کے تمام نظر بند وزرا کی طرح لائق علی اور ان کے متعلقین کو بھی یہ توقعات تھیں کہ 26 جنوری 1950 کو بھارت کے دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی جب بھارت کے خودمختار جمہوریہ ہونے کا اعلان کر دیا جائے گا تو اس وقت نظر بندوں کی رہائی کے احکامات بھی دیے جائیں گے۔

’26 جنوری بھی آئی، دستور بھی نافذ ہو گیا اور حیدرآباد ریاست نے بھی باضابطہ طور پر انڈین یونین میں شرکت کر لی لیکن نظر بندوں کی رہائی کے احکامات صادر نہ ہوئے۔ لائق علی اور ان کے پاکستان میں رہنے والے ہمدردوں کو مایوسی ہوئی۔

’نظر بندوں کی رہائی کے احکامات صادر نہ ہونے کے بعد لائق علی کے فرار ہونے کے منصوبے پر کام شروع ہوا اور ان کے قریبی ساتھی ایڈووکیٹ عبدالقوی کے ایک پاکستانی دوست نے بھارت آنا جانا شروع کیا اور سفر کے کاغذات کی ہوائی اڈوں پر کس طرح جانچ ہوتی ہے اور کیا کیا امور کی جانچ کی جاتی ہے دیکھنا شروع کیا اور ماہ فروری 1950 کے شاید آخری ہفتے میں وہ ضروری کاغذات کے ساتھ بھارت آئے۔‘

فضل رسول کے مطابق فرار ہونے سے دو تین ہفتے پہلے لائق علی کی اہلیہ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت بنگلے کے اندر اور باہر یہ افواہ پھیلائی کہ لائق علی سخت علیل ہو گئے ہیں۔

’اس طرح نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں سمیت سب کو لائق علی کی علالت کا علم ہو گیا۔ ہر روز ان کی بیگم موٹر گاڑی میں صبح اور شام ڈاکٹروں کو لائق علی کی طبیعت کی اطلاع دینے کی غرض سے جاتی آتی رہیں۔ اس گاڑی کے شیشوں پر پردے لگے رہتے تھے۔ آتے جاتے اس گاڑی کو نہ تو روکا جاتا اور نہ تلاشی لی جاتی تھی۔ باہر آنے جانے کا سلسلہ 10 سے 12 دن سے زیادہ جاری رہا۔

’فرار کے مقررہ دن سے ایک روز پہلے لائق علی کی بڑی بیٹی عالیہ انہی کی گاڑی میں شام کے وقت اپنی پھوپھی شوکت النسا کے گھر جا کر پھوپھی سے کہہ کر آئی کہ کل دن کے 10 بجے وہ اپنے مکان پر ایک گاڑی تیار رکھیں اور اس گاڑی کے ڈرائیور کا نہایت ہی اعتماد اور بھروسہ کا آدمی ہونا ضروری ہے۔

’اس سے دو تین روز پہلے بنگلے میں لائق علی کے کسی عزیز کے یہاں شادی ہونے کی خبر پھیلائی جا چکی تھی۔ ان کے بچے شادی کے متعلقہ رسوم میں آتے جاتے رہے اور بنگلے سے پکانے کے بڑے برتن (بشمول دیگچیاں) بھی ایک روز لاری میں روانہ کیے گئے تھے۔‘

لائق علی کا غلام احمد بن کر بمبئی سے کراچی کا سفر

فضل رسول خان ناغڑ کے مطابق: ’یکم مارچ 1950 کو خادمہ نے بلند آواز میں کوئی نو یا ساڑھے نو بجے صبح ڈرائیور کو آواز دی کہ بیگم صاحبہ کو دوائیاں لانے کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔

’اس روز بیگم کی بجائے خود لائق علی گاڑی میں سوار ہو کر گھر سے نکل گئے۔ ان کی گاڑی ان کی بہن شوکت النسا بیگم کے مکان پر جا کر رکی۔ مکان کے احاطے میں شوکت النسا کے صاحبزادے فصیح الدین، جو نظام سٹیٹ ریلوے میں ملازم تھے، کی گاڑی لائق علی کی بیٹی عالیہ کی حسب خواہش تیار کھڑی تھی اور ڈرائیور بھی موجود تھا۔ لائق علی گاڑی سے اترے اور گاڑی کو فوراً واپس کر دیا تاکہ بنگلے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو شبہ نہ ہو۔

’شوکت النسا نے اپنے بھائی لائق علی کو پانی پلایا۔ دونوں کے درمیان باتیں ہوئیں۔ پھر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ لائق علی بھانجے فصیح الدین کی گاڑی، جس کے شیشوں پر پردے لگے ہوئے تھے، سوار ہوئے اور بہن کے گھر سے روانہ ہو گئے۔ یہ گاڑی ایڈوکیٹ عبدالقوی کے گھر پر جا کر رکی جہاں پردے لگی ہوئی ایک اور گاڑی پہلے ہی سے کھڑی تھی۔

’لائق علی، ایڈوکیٹ عبدالقوی اور ان کی اہلیہ اب اس گاڑی میں سوار ہوئے جو گلبرگہ کی طرف روانہ ہوئی۔ اس سے قبل ہی لائق علی کے ایک عزیز نے سکندرآباد سے بمبئی جانے والی ریل گاڑی میں ایک فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ ریزرو کرا لیا تھا۔

’لائق علی اور ان کے ساتھیوں کی گاڑی گلبرگہ جا کر درگاہ شریف کے سامنے رکی۔ وہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور ریل گاڑی کے وقت سے چند منٹ پہلے گلبرگہ کے ریلوے سٹیشن پر آئے۔ عبدالقوی نے ڈرائیور کو کچھ دیر کے لیے روک لیا کیوں کہ ریل گاڑی اس روز 20 منٹ یا نصف گھنٹہ تاخیر سے چل رہی تھی۔

’ریل گاڑی کے آجانے کے بعد عام لوگوں کی طرح یہ تینوں اپنے ریزرو کمپارٹمنٹ کو کھول کر اس میں داخل ہوئے اور گلبرگہ سے روانہ ہو کر صبح چھ بجے کے قریب ان کی ٹرین بمبئی پہنچ گئی۔ سٹیشن پر کسی بڑے کاروباری کی گاڑی اس پارٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس گاڑی سے یہ تینوں اس کاروباری شخص کے یہاں گئے اور ناشتہ کیا۔

’وقت مقررہ پر لائق علی گاڑی کے ذریعے ہوائی اڈے پر سفر کے ضروری کاغذات کے ساتھ پہنچ گئے۔ غلام احمد کے نام سے ان کے لیے ہوائی جہاز میں سیٹ ریزرو کرائی جا چکی تھی۔ وہ اس نام سے اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔

’دوسری جانب 2 مارچ 1950 کو لائق علی کے بچے اچھے کپڑے پہن کر اپنے رشتہ دار کے یہاں شادی میں شرکت کرنے جانے کے نام سے اپنے بنگلے سے نکلے اور ایک مہاجر ملازمہ کے ہمراہ نامپلی سٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہو کر بمبئی کے لیے روانہ ہو گئے۔ ان کی سیٹیں بھی پہلے ہی سے ریزرو کی جا چکی تھیں اور اگلی صبح بمبئی پہنچ گئے جہاں ایڈووکیٹ عبدالقوی ان کے منتظر تھے۔

’3 مارچ 1950 کو بیگم لائق علی نے پہلے سے تیار کیے ہوئے نوٹوں کی گڈیاں جن پر ملازمین کے ناموں کی چٹھیاں الگ الگ گڈی پر لگا کر رکھی تھیں اپنے پرانے خادم علی بن احمد باغزال، جو عرب شہری تھا، کے حوالے کیں اور ان سے تاکید کی کہ 5 مارچ کو وہ ان نوٹوں کی گڈیوں کو جس جس کے نام کی ان پر چٹھی لگی ہے اسی ملازم کو دینا شروع کر دیں۔

’وہ بھی اپنی گاڑی میں خادمہ کے ساتھ نکلیں اور اپنے بھائی کے بنگلے گئیں۔ بھائی سے ملیں اور وہاں سے سیدھا ہوائی اڈے پر پہنچ گئیں۔ دوپہر کے وقت بمبئی پہنچیں اور اپنے بچوں سے جا ملیں۔ یہ سب عبدالقوی کی سرکردگی میں دوسرے روز یعنی 4 مارچ کو ایس ایس سابرمتی جہاز سے اپنے سمندری سفر پر روانہ ہو گئے اور بالآخر کراچی پہنچے۔

’لائق علی کی بھارت سے فرار کی خبر بھارت میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ انہیں پاکستان پہنچنے کے بعد جیسی رازداری برتنی چاہیے تھی ویسی نہیں برتی اور ایک تقریب میں حصہ لینے پہنچے جس کی وجہ سے ان کے فرار ہونے کی خبر سامنے آئی۔

’لائق علی کے فرار ہونے کے بعد جب ان کے عرب ملازم نے نوٹوں کی گڈیاں تقسیم کرنا شروع کیں تو ملازمین انعامات لے کر بنگلے سے یکے بعد دیگرے غائب ہونے لگے۔ اسی وقت نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں کو لائق علی کے فرار ہونے کا شبہ ہو چکا تھا لیکن اب سب سے پہلے جو بھی اطلاع دیتا وہی پھنس جاتا اس لیے خوف سے کسی نے بھی اطلاع نہیں دی۔

’لائق علی کی حراست سے فرار میں مدد دینے کے الزام میں ان کی ہمشیرہ شوکت النسا بیگم، عرب ملازم اور دیگر کئی اشخاص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت میں وکلا نے ایک قانونی عذر اٹھایا کہ لائق علی کی حراست یا نظر بندی ہی جائز نہ تھی اس لیے ملازمین پر فرار میں مدد دینے کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ تاہم ابتدا میں عدالت نے اس عذر کو تسلیم نہ کیا۔

’پھر عدالت میں بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریاست حیدرآباد دکن کے دستور العمل تحفظ امن عامہ کے تحت لائق علی کی نظر بندی 26 جنوری 1950 تک ہی جائز تھی۔ چوں کہ حیدرآباد کا دستور العمل کالعدم ہو چکا ہے لہٰذا ان کی نظر بندی قانوناً جائز نہیں تھی۔ عرب ملازم علی بن احمد باغزال دوران تفتیش جیل میں فوت ہو گئے جبکہ باقی سب کو رہا کر دیا گیا۔‘

حیدرآباد دکن میں 1940 اور 1950 کی دہائی میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی معلومات رکھنے والے بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لائق علی کی فرار میں سب سے بڑا ہاتھ ایڈووکیٹ عبدالقوی کا تھا جو پاکستان کے مسلسل رابطے میں تھے۔

ان کے مطابق جن جعلی سفری دستاویزات میں لائق علی کو غلام احمد بنایا گیا تھا ان کو پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس یا آئی ایس آئی نے تیار کروایا تھا۔

مورخ و مصنف نریندر لوتھر میر لائق علی کی ڈرامائی فرار کے متعلق لکھتے ہیں: ’ہم میں سے اکثر نے سنہ 1666 میں چھترپتی شیواجی کی اورنگزیب کی قید سے (پھلوں کی ٹوکری میں چھپ کر) ڈرامائی فرار کے بارے میں سنا ہی ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ایسا پرانے زمانے میں ہی ممکن تھا۔

’لیکن سنہ 1950 میں حیدرآباد کے آخری صدر اعظم کے ڈرامائی فرار کا قصہ بھی اتنا ہی دلچسپ ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کو عمدہ انداز میں بنایا گیا اور جس پر شاندار طریقے سے عمل درآمد ہوا۔ صدر اعظم کی فرار نے بھارتی حکومت کو شرمندہ اور باقی دنیا کو حیران کر دیا تھا۔‘

پاکستان کے وفادار

میر لائق علی کی پاکستان فرار ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی پاکستان کے تئیں محبت اور وفاداری تصور کی جاتی ہے۔ انہیں محمد علی جناح نے سنہ 1947 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کیا تھا نیز انہی کی اجازت سے انہوں نے اسی سال کے آخر میں حیدرآباد دکن کے صدراعظم کا عہدہ قبول کیا تھا۔

رمن راج سکسینہ اپنی کتاب ’تذکرہ دربار حیدرآباد‘ میں رقم طراز ہیں: ’یکم دسمبر 1947 کو میر لائق علی نے بحیثیت صدر اعظم اپنے عہدے کا حلف لیا۔ میر لائق علی کا نام مجلس (مجلس اتحاد المسلمین) نے اپنے نمائندے کے طور پر پیش کیا تھا جو غلام محمد وزیر (وزیر مالیات پاکستان) کے انکار کے بعد سب سے موزون ملکی امیدوار سمجھے گئے تھے۔

’عہدہ وزارت قبول کرنے سے پہلے لائق علی نے محمد علی جناح سے اجازت حاصل کی اور مسٹر جناح نے صرف ایک سال کے لیے اس عہدہ کو قبول کرنے کا مشورہ دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’زوال حیدرآباد اور پولیس ایکشن‘ کے مصنف محمد مظہر الدین لکھتے ہیں: ’میر لائق تقسیم ہند کے بعد مجلس اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے کر اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

’پاکستان کی صنعتی ترقیات اور کراچی کی بندرگاہ کی توسیع و تعمیر نو کی ذمہ داریوں کے پیش نظر قائد اعظم لائق علی کی خدمات کو حیدرآباد کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن پھر حالات کے مدنظر اور نظام حیدرآباد کی خواہش و اصرار پر اجازت دے دی۔‘

معروف مصنف و تجزیہ نگار اے جی نورانی اپنی کتاب ’دا ڈسٹرکشن آف حیدرآباد‘ میں لکھتے ہیں: ’غلام محمد، جو ریاست (حیدرآباد دکن) کے وزیر خزانہ رہ چکے تھے، بطور صدر اعظم نظام میر عثمان علی خان کی پہلی چوائس تھے، لیکن جناح انہیں پاکستان کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے فارغ نہ کرنے پر مصر تھے۔ وہ (غلام محمد) بعد میں پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے۔

’میر لائق علی کے نام کی تجویز سامنے آنے پر جناح نے نظام حیدرآباد کو 18 نومبر 1947 کو ایک پیغام بھیجا کہ موصوف (لائق علی) پاکستانی حکومت کے ساتھ کیے گئے عہد وفا کے پیش نظر یہ پیش کش قبول کرنے پر تذبذب کا شکار ہیں۔‘

لائق علی نے اپنی کتاب ’دا ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لکھا ہے: ’میں نے یہ پیش کش اس متفقہ شرط پر قبول کی کہ حیدرآباد دکن کا بھارت کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی صورت میں الحاق نہیں کیا جائے گا۔‘

اے جی نورانی لکھتے ہیں کہ نظام حیدرآباد نے ایک ایسے شخص (لائق علی) کو اپنی حکومت کا سربراہ بنا کر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے منتخب کیا تھا جو پاکستان کے وفادار بھی تھے اور اس ملک کے نزدیک بھی۔

محمد علی جناح نے 11 ستمبر 1947 کو برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کو ایک خط لکھا جس انہوں نے اپنی عمر سے 27 سال کم عمر کے میر لائق علی کو اپنا ذاتی دوست قرار دیا۔

اے جی نورانی کا ماننا ہے کہ ایسا شاذ و نادر ہی دیکھا گیا کہ محمد علی جناح نے کسی کے بارے میں اتنی گرم جوشی سے لکھا ہو۔

خط کا متن کچھ یوں ہے: ’یہ خط لکھنے کا مقصد آپ کو میر لائق علی سے متعارف کرانا ہے۔ وہ میرے ذاتی دوست ہونے کے علاوہ حیدرآباد کی صنعتی دنیا کی ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں اور اب وہ پاکستان کی صنعتی ترقی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

’ان کا شمار برصغیر کی صنعتی و تجارتی دنیا کے قابل ترین سربراہوں میں ہوتا ہے اور وہ اس وقت حیدرآباد کی بڑی صنعتوں کے نظام کی سربراہی و نگرانی کر رہے ہیں۔

’میں سوچتا ہوں کہ آپ اپنا تھوڑا سا وقت نکال کر ان سے ملیں گے۔ وہ 16 ستمبر کو منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہمارے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کریں گے اور انہیں راستے میں کچھ دنوں کے لیے برطانیہ میں رکنے کو کہا گیا ہے۔

’ان کا تعلق حیدرآباد سے ہے اور وہ ہز ایکزالٹڈ ہائی نس دا نظام کی نگاہوں میں انتہائی قدر و عزت رکھتے ہیں۔

’لہٰذا ان کو آپ سے ملنے کا موقع مل سکتا ہے تاکہ وہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تجارتی امور پر بات چیت کر سکے کیوں کہ انہیں پاکستان کی تجارتی صنعتی ترقی میں نمایاں رول ادا کرنا ہے۔‘

تاہم اے جی نورانی کے مطابق: ’لائق علی نے (حیدرآباد کے لیے) برطانوی حکومت کی مدد حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ وہ برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری ارنسٹ بیون سے ملے، لیکن جناح کی طرف سے ایک تعارفی خط بھیجے جانے کے باوجود وہ ونسٹن چرچل سے مل نہ سکے۔‘

محمد مظہر الدین لکھتے ہیں کہ سنہ 1947 میں بھارت اور حیدرآباد کے درمیان ایک سال کے لیے مشروط سٹینڈ سٹل اگریمنٹ یا معاہدہ انتظام جاریہ طے پایا۔

’اس معاہدے سے ایک دن قبل نظام حیدرآباد نے ایک فرمان مورخہ 28 نومبر 1947 کے ذریعے حیدرآباد کے ایک نامور انجینئر و صنعت کار میر لائق علی کو صدارت عظمیٰ پر فائز کر دیا۔‘

جنت البقیع میں مدفون

14 نومبر 1903 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے میر لائق علی کا 24 اکتوبر1971 میں انتقال ہوا لیکن تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہوئی۔

’سقوط حیدرآباد‘ کے مصنفین ڈاکٹر عمر خالدی و ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’میر لائق علی نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں حاصل کی۔

’وطن واپسی کے بعد حیدرآباد میں کئی صنعتیں قائم کیں، جو بڑی کامیابی سے چلیں۔ ان صنعتوں میں سرپور پیپر مل اور حیدرآباد کنسٹرکشن کمپنی نے بڑی شہرت حاصل کی۔‘

محمد مظہر الدین کے مطابق لائق علی نے ہی حیدرآباد میں برصغیر کی سب سے بڑی فیکٹری ’نظام شوگر فیکٹری‘ کے نام سے قائم کی تھی۔

’میر لائق علی نہ صرف حیدرآباد اور برصغیر ہند میں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی ایک بڑے صنعت کار اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ماہر کی حیثیت سے کافی مشہور تھے۔‘

’سقوط حیدرآباد‘ کے مصنفین لکھتے ہیں کہ کراچی پہنچ کر میر لائق علی نے حیدرآبادی مہاجرین کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔

’حیدرآباد ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت کئی رفاہی ادارے اور ایک ہسپتال قائم ہوا۔ حیدرآبادی مہاجرین کے لیے حیدرآباد کالونی آباد کی۔

’متعدد کارخانے قائم کیے۔ افسوس کہ یہ کارخانے کامیابی سے نہ چل سکے۔ کراچی میں لائق علی نے حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے مشیر کی حیثیت سے بھی وقتاً فوقتاً کام کیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ