جب دادا صاحب پھالکے کو نسوانی کردار کے لیے کوئی عورت نہ ملی

برصغیر میں فلمی صنعت کے باوا آدم کہلانے والے دادا صاحب پھالکے کی کہانی جنہوں نے ہندوستان کی پہلی فلم بنانا چاہی تو ہیروئن کے کردار کے لیے طوائفوں تک نے انکار کر دیا۔

دادا صاحب نے کل 95 فلمیں بنائیں مگر ان کا آخری دقت کسمپرسی کی حالت میں گزرا (پبلک ڈومین)

یہ 1911 کے کرسمس تہوار کے ایام کی بات ہے۔ ہندوستانی سینیما کے بانی کہلائے جانے والے دھنڈی راج گووند پھالکے المعروف دادا صاحب پھالکے اپنی بیوی سرسوتی بائی پھالکے کے ہمراہ پونے سے بمبئی آئے ہوئے تھے۔

ان دنوں سینڈہرسٹ روڈ پر خوبصورتی سے سجائے گئے ایک شامیانے میں حضرت عیسیٰ کی زندگی پر مبنی فلم ’دا لائف آف کرائسٹ‘ دکھائی جا رہی تھی۔

دادا صاحب پھالکے بھی اپنی بیوی کو ساتھ لے کر یہ فلم دیکھنے چلے آئے۔ فرسٹ کلاس کے ٹکٹ کی قیمت آٹھ آنہ تھی۔ شامیانہ عیسائیوں اور یورپیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ناظرین حضرت عیسیٰ کے مصائب اور انہیں مصلوب دیکھ کر رو رہے تھے۔

دادا صاحب پھالکے کو یہ فلم اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے بھی ایسی ہی دھارمک (مذہبی) فلمیں ہندوستان میں بنانے کا ارادہ کر لیا۔

واپسی پر انہوں نے سرسوتی بائی سے پوچھا، ’کیا ہم حضرت عیسیٰ پر بنی اس فلم کی طرح بھگوان رام اور کرشن کی زندگی پر فلمیں نہیں بنا سکتے؟‘ یہ سن کر سرسوتی کا منہ لٹک گیا اور خاموشی اختیار کر لی۔

دراصل ان دنوں فلمیں بنانا صرف غیر ملکیوں کا مشغلہ سمجھا جاتا تھا اور ہندوستانیوں کے لیے فلمیں بنانے کا فن سیکھنا ’راکٹ سائنس‘ سیکھنے جیسا تھا۔

انگلینڈ کا دورہ

پریم پال اشک اپنی کتاب ’ہمارا سینیما‘ میں لکھتے ہیں کہ فلم ’دا لائف آف کرائسٹ‘ سے پیدا ہونے والے شوق کے نتیجے میں دادا صاحب پھالکے نے فلم سازی سے متعلق ادب اور مشینوں پر لکھی گئیں کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔

اس دوران مشہور برطانوی فلم میکر سیسل ہیپ ورتھ کی کتاب ’انیمیٹڈ فوٹوگرافی: اے بی سی آف سینیماٹوگرافی‘ ان کے ہاتھ لگ گئی اور انہوں نے اس کتاب سے عملی طور پر فائدہ اٹھایا۔

’دادا صاحب پھالکے نے جرمنی میں رہ کر مصوری، فوٹوگرافی اور بلاک سازی میں مہارت حاصل کر لی تھی اس لیے انہیں اس کتاب کو سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس کتاب کے مطابق فلم سازی کے تجربے کرنے شروع کر دیے۔‘

ڈی پی مشرا اپنی کتاب ’گریٹ ماسٹرز آف انڈین سینیما: دا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ونرز‘ میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1912 میں عملی طور پر فلم سازی کے میدان میں اترنے کے لیے پھالکے نے اپنا بیمہ کرایا۔

’اپنے ایک دوست کے پاس قرض کے عوض اپنی بیمہ پالیسی گروی رکھی۔ پیسے حاصل ہوتے ہی ضروری ساز و سامان اور فلم بنانے کے لیے درکار تکنیکیں سیکھنے کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انگلینڈ میں سیسل ہیپ ورتھ دادا صاحب پھالکے کے لیے ایک انمول وسیلہ ثابت ہوئے اور موصوف (دو ماہ بعد) ایک ولیمسن کیمرہ، ڈیولوپ اور پرنٹ کرنے کا ساز و سامان، ایک پرفوریٹنگ مشین اور دیگر خام مال لے کر ہندوستان واپس آئے۔‘

پریم پال اشک لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے دادا صاحب پھالکے نے ایک 500 فٹ لمبی دستاویزی فلم انکراچی ودھ (گروتھ آف اے پی پلانٹ یا مٹر کے بیچ کا وکاس) بنائی اور ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔

انیس امروہوی اپنی کتاب ’وہ بھی کیا زمانہ تھا‘ میں دادا صاحب پھالکے کی فلم ’انکراچی ودھ‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’انہوں نے ایک گملے میں مٹر کا ایک بیچ بویا اور ہر دن کے حساب سے ایک تصویر اتارتے چلے گئے۔

’بعد میں سب تصویروں کو جوڑ کر انہوں نے یہ دستاویزی فلم تیار کی۔ اس فلم کی بنیاد پر انہیں کچھ قرضہ مل گیا۔‘

کام آسان نہیں تھا

اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے دادا صاحب پھالکے نے اپنی بیوی سرسوتی بائی کے گہنے بھی گروی رکھ کر مزید قرض حاصل کر لیا اور جب تمام چیزیں مہیا ہو گئیں تو انہوں نے اپنی پہلی خاموش فلم ’راجا ہریش چندر‘ بنانے کا اعلان کر دیا۔

یہ فلم ایک ہندو راجا ہریش چندر کی زندگی پر مبنی ہے جو مشہور رشی وشوامتر سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی خاطر اپنی سلطنت اور اپنے خاندان کو ترک کرتے ہیں۔

انیس امروہوی لکھتے ہیں کہ انگلینڈ میں فلم سازی کی تربیت حاصل کرنے کے نتیجے میں دادا صاحب پھالکے ہندوستان کے پہلے فارن ریٹرنڈ فلمی ٹیکنیشن بھی بن گئے تھے۔

’انہوں نے فلم راجا ہریش چندر کا کام شروع کر دیا۔ اس فلم کے لیے سب کچھ ان ہی کو کرنا تھا۔ لوگوں کو اداکاری سکھانا، سکرپٹ لکھنا، کیمرا چلانا اور پروڈکشن کرنا، ہیرو ہیروئنوں کی جگہ تیسرے درجے کے سٹیج اداکار اور طوائفیں دستیاب تھیں۔‘

فلم میں راجا ہریش چندر کا کردار ادا کرنے کے لیے دتاتریہ دامودر دبکے کو منتخب کیا گیا لیکن دادا صاحب پھالکے کے لیے صورت حال اس وقت پریشان کن ہو گئی جب ہریش چندر کی بیوی تارامتی کا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی عورت تیار نہیں ہوئی۔

پریم پال اشک لکھتے ہیں: ’اس زمانے میں فلم بنانا تو کیا دیکھنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اسے شریف گھرانے کا پیشہ تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ غالباً اسی لیے کوئی عورت فلموں میں کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی۔‘

مصنف اور فلم نقاد باپو وٹوے دادا صاحب پھالکے کی سوانح حیات ’دادا صاحب پھالکے: دا فادر آف انڈین سینیما‘ میں لکھتے ہیں کہ پھالکے نے تارامتی کا کردار ادا کرنے کی عورتوں کو ایک اشتہار میں دعوت بھی دی۔

’اشتہار کے جواب میں چار طوائفوں نے تارامتی کا کردار ادا کرنے کے لیے آڈیشن دیا۔ پھالکے نے انہیں اچھی نظر نہ آنے کی بنا پر مسترد کر دیا اور اشتہار میں تبدیلی لائی کہ صرف اچھی نظر آنے والی عورتیں ہی آڈیشن کے لیے آئیں۔

’مزید دو طوائفوں نے آڈیشن دیا لیکن دو دن بعد چلی گئیں۔ ایک نوجوان لڑکی، جو ایک شخص کی محبوبہ تھی، نے آڈیشن دیا اور پھالکے نے اسے تارامتی کے کردار کے لیے منتخب بھی کر لیا۔

’اس لڑکی نے چار دن تک مشق کی لیکن پانچویں دن اس کا ماسٹر (مرد) آیا۔ اس کے فلم میں کام کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا اور پھر واپس نہیں آنے دیا۔

’پھالکے نے مایوسی کے عالم میں کامتھی پورہ کے گرانٹ روڈ پر واقع ریڈ لائٹ ایریا کا بھی دورہ کیا (اور وہاں سیکس ورکرز سے بات کی)۔ لیکن ان سے کہا گیا کہ وہ زیادہ تنخواہ دیں یا کسی عورت سے شادی کر لیں۔‘

سینیئر صحافی اور ممتاز مورخ مہیر بوس اپنی کتاب ’بالی وڈ: اے ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن گرانٹ روڈ پر واقع ایک ریستوران میں پھالکے کی نظر دبلے پتلے جسم کے مالک ایک پرجوش نوجوان کرشنا ہری عرف انا سالنکے پر پڑی۔

’سالنکے دس روپے کی ماہانہ تنخواہ پر مذکورہ ریستوران میں ویٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔‘

انیس امروہوی نے لکھا ہے کہ انا سالنکے نے دادا صاحب پھالکے کی فلم میں کام کرنے کی پیشکش قبول کی اور تارامتی کا نسوانی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔

’گریٹ ماسٹرز آف انڈین سینیما: دا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ونرز‘ میں ڈی پی مشرا لکھتے ہیں کہ پھالکے نے ہندوستانی سینیما میں پہلی ہیروئن کو اس وقت متعارف کرایا جب سینیما میں کام کرنے کے لیے باصلاحیت فنکاروں کی کمی تھی۔

’یہاں تک کہ سٹیج کے فنکار بھی سینیما میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کوئی بھی عورت یہاں تک کہ کوئی ڈانسنگ گرل بھی فلم میں کام کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتی تھی۔

’نفیس اور نازک نظر آنے والے انا سالنکے نے بعد ازاں لنکا دہن میں رام اور سیتا دونوں کا کردار نبھایا اور اس دور کے سب سے مقبول اداکار اور اداکارہ بن گئے۔‘

فلم ’راجا ہریش چندر‘ تیار

انیس امروہوی لکھتے ہیں کہ دادا صاحب پھالکے نے فلم ’راجا ہریش چندر‘ بنانے کا کام سنہ 1912 میں برسات کا موسم ختم ہوتے ہی دادر کے مین روڈ پر واقع متھرا بھون میں اپنا سٹوڈیو اور سیٹ بنا کر شروع کر دیا۔

’فلم راجا ہریش چندر پہلی بار چند مخصوص لوگوں کو 21 اپریل 1913 کو بمبئی کے گرانٹ روڈ پر واقع اولمپیا تھیٹر میں دکھائی گئی اور تین مئی 1913 کو یہ فلم سینڈہرسٹ روڈ پر قائم کورونیشن سینیما میں عام لوگوں کی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

اچھی بات یہ ہے کہ جہاں ہندوستانی فلمی صنعت کی بیشتر ابتدائی فلمیں ضائع ہو چکی ہیں، راجہ ہریش چندر اب بھی موجود ہے اور اسے یو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔

’اس فلم کی لمبائی 3700 فٹ تھی، جو چار ریلوں کے ذریعے لگ بھگ سوا گھنٹے میں دکھائی گئی۔ اس فلم کو بنانے میں دادا صاحب پھالکے کو تقریباً آٹھ ماہ کا وقت لگا تھا۔‘

پریم پال اشک لکھتے ہیں کہ اس فلم کی تیاری میں دادا صاحب پھالکے کو کتنی ذہنی، جسمانی اور معاشی پریشانی اٹھانی پڑی اس کا احساس تو اس بات سے ہو جاتا ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر، سکرین رائٹر، کیمرا مین، آرٹ ڈائریکٹر، کاسٹیوم ڈیزائنر، ایڈیٹر، پروسیسر، پینٹر، ڈیویلپر، پروجیکشنسٹ، پبلسٹی مینیجر اور یہاں تک کہ تقسیم کار بھی خود ہی تھے۔

’ان کے لڑکے اور لڑکیاں ان کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور ان کی بیوی نے اپنے گہنے بھی دے دیے تھے۔ اور ان کے لڑکے بھال چندر پھالکے نے فلم میں ہریش چندر اور تارامتی کے بیٹے کا رول ادا کیا۔‘

ڈی پی مشرا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’راجا ہریش چندر‘ مقامی سطح پر بنائی جانے والی پہلی فیچر فلم ہے۔

’یہ مکمل طور پر پھالکے کی تخلیق تھی۔ انہوں نے ہر چیز کا مقامی سطح پر انتظام کیا تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر کافی کامیاب ثابت ہوئی اور بے مثال 23 دنوں یا معمول سے چھ گناہ زیادہ وقت تک چلی۔

’پھالکے سنہ 1928 میں انڈین سینیماٹوگراف کمیٹی کے سامنے حاضر ہوئے اور اپنی تکلیفوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا تھا کیوں کہ سنہ 1911 میں ہندوستان میں کوئی بھی اس انڈسٹری کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔‘

پریم پال اشک کا ماننا ہے کہ دادا صاحب پھالکے نے فلمیں بنانے کا قدم اپنی زندگی میں شہرت حاصل کرنے یا دولت کمانے کی غرض سے نہیں اٹھایا تھا بلکہ قوم میں فنی شعور پیدا کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

پھالکے کی زندگی کے آخری سال

انیس امروہوی لکھتے ہیں کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے موجد اور باوا آدم دادا صاحب پھالکے نے اپنی زندگی کے آخری برس بڑی کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔

’دادا صاحب نے سنہ 1932 میں اپنی آخری خاموش فلم ’ستیو بندھن‘ بنا کر اپنے آپ کو اس کاروبار سے الگ کر لیا۔ کافی عرصہ تک دادا پھالکے فلم دنیا سے الگ تھلگ رہے اور اس طرح ان کی مالی اور گھریلو حالات بھی خراب ہوتے چلے گئے۔

’سنہ 1937 میں کولہاپور مووی ٹون نے اپنی مراٹھی اور ہندی میں ایک ساتھ بننے والی فلم ’گنگا وترن‘ کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کے ساتھ مکالمے اور موسیقی کا کام بھی ان کو سونپا۔ اس فلم میں دادا صاحب نے ایک بار پھر اپنی ٹرک فوٹوگرافی کے جلوے دکھائے۔ یہ ان کی پہلی اور اکلوتی بولتی فلم ثابت ہوئی۔

’ان کے آخری دنوں کا ایک واقعہ جو فلمساز و ہدایت کار پنڈت کیدار شرما نے ایک بار سنایا، وہ یہ تھا کہ ایک دن بمبئی کے رنجیت سٹوڈیو کے باہر دادا صاحب پھالکے خاکی پینٹ اور ایک ڈھیلی ڈھالی سی قمیض پہنے کھڑے تھے۔

’کیدار شرما جب سٹوڈیو سے باہر نکلے تب پھالکے نے پہلے تو ان کے کام اور فلمسازی میں ان کے ہنر کی تعریف کی اور پھر کہا کہ کیا وہ اپنے سٹوڈیو میں ان کو کوئی کام دلوا سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ پھالکے سٹوڈیو میں کیمرے صاف کرنے اور ان میں تیل ڈالنے کے لیے تیار تھے۔

’کیدار شرما نے ان کو سٹوڈیو کے مالک سیٹھ چندو لال شاہ کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چندو لال شاہ نے نہ صرف انہیں کام دینے سے انکار کر دیا بلکہ چوکیدار سے کہہ کر سٹوڈیو کے باہر نکلوا دیا۔

’یہ وہی دادا صاحب پھالکے تھے جنہوں نے ہندوستان جیسے بڑے ملک میں فلم انڈسٹری کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی تھی اور اس کام کے لیے اپنی بیوی کے گہنے تک بیچ ڈالے تھے۔ بعد میں اس پورے منظر کو گرو دت نے اپنی بے مثال فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔‘

انیس امروہوی لکھتے ہیں کہ دادا صاحب پھالکے نے اپنی زندگی میں کل ملا کر تقریباً 20 فیچر اور 97 دستاویزی فلمیں بنائیں مگر ان کی مالی حالت ہمیشہ خستہ ہی رہی۔

’71 برس کی عمر میں 16 فروری 1944 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری کئی برس گمنامی میں ہی گزارے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب جب ہندوستانی سینیما کی بات ہو گی، دادا صاحب پھالکے کے نام کا تذکرہ ضرور ہو گا۔

’آج دادا صاحب پھالکے کے نام پر قائم ہندوستان کا سب سے بڑا فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ کو حاصل کر کے ہماری فلمی دنیا کے لوگ اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

’یہ اعزاز فلمی دنیا میں اپنی زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال گزار کر کچھ کر گزرنے والے فنکاروں کو دیا جاتا ہے۔ سنہ 1970 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت ہند نے قائم کیا تھا اور اس برس پہلا ایوارڈ حاصل کرنے والی ایک خاتون اداکارہ دیویکا رانی تھیں۔

’حکومت ہند کے محکمہ ڈاک و تار نے دادا صاحب پھالکے کے 100 ویں جنم دن کے موقعے پر 30 اپریل 1971 کو ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم