پشاور مسجد دھماکہ: 63 زندگیاں، 47 کہانیاں

انڈپینڈنٹ اردو نے دھماکے میں بعض جان سے جانے والوں کے لواحقین سے بات کی اور ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔

(تصاویر: لواحقین)

پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کے وسط میں واقع کوچہ رسالدار کی جامعہ مسجد میں چار مارچ کو ہونے والے خود کش دھماکے میں ہسپتال انتظامیہ کے مطابق کم از کم 63 افراد جان سے گئے تھے۔

صوبائی دارالحکومت کا گنجان آباد اور مصروف قدیم حصہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ حملہ آوروں کے لیے آسان ہدف تھا۔ یہ علاقہ تاریخی قصہ خوانی بازار کے قریب واقع ہے جہاں ماضی میں تاجر اور مسافر قہوہ خانوں میں بیٹھ کر ادھر ادھر کے قصے سنایا کرتے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بھی خودکش دھماکے میں جان سے جانے والوں کے لواحقین سے بات کی اور ان کی زندگی کی مختصر کہانیاں اکٹھی کی ہیں۔

ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق پشاور جبکہ بعض کا قبائلی ضلع کرم کے علاقے پارہ چنار سے تھا۔

1۔ مظہر علی کیانی

پشاور میں یکہ توت علاقے سے تعلق رکھنے والے مظہر علی کیانی محکمہ تعلیم میں گریڈ 18 کے ملازم تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی اور جس مسجد میں دھماکہ ہوا وہ اس کی کمیٹی کے متحرک اراکین میں شامل تھے۔

مظہر کیانی کے بیٹے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ان کے والد کو چند مہینے پہلے ایک فہرست موصول ہوئی تھی جس میں نشانہ بنائے جانے والوں کے نام تھے اور ان کے والد کا نام بھی اس میں شامل تھا۔

وہ دھماکے والے روز نماز جمعہ کے لیے جانے سے قبل ہی اپنے بیٹے کی شادی کی تاریخیں طے کرنے کے بعد شادی ہال کی بکنگ کروا کر آئے تھے اور گھر والوں کو تفصیلات بتانے کی بجائے صرف اتنا کہہ کر چلے گئے کہ ’پہلے نماز پڑھ لوں تو پھر باقی باتیں کر لیتے ہیں۔‘

2۔ میر افضال حسین

میر افضال کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا اور ان کا گھر مسجد کے قریب ہی تھا۔ میر افضال خیبر بازار کے ایک نجی بینک میں ملازم تھے اور چند روز قبل ان کی ترقی بھی ہوئی تھی۔ میر افضال کے چچا وسیم حیدر نے بتایا کہ ان کی شادی ہوچکی تھی لیکن ان کے بچے نہیں تھے۔

3۔ انیق حسین

انیق حسین بھی کوچہ رسالدار میں رہتے تھے اور افضال حسین کے قریبی رشتہ دار اور دوست تھے۔ انیق کے چچا وسیم حیدرکے مطابق: ’افضال اور انیق جب زندہ تھے، تو بھی ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے تھے اور ایک ساتھ ہی اس دنیا سے چلے گئے۔‘

وسیم حیدر کے مطابق یہ دونوں ہمیشہ مسجد کی بالائی منزل میں نماز پڑھتے تھے لیکن دھماکے کے دن انیق کے گھٹنے میں درد تھا تو دونوں نماز ادا کرنے کے لیے نچلی منزل پر ہی رک گئے تھے۔

4۔ میر ناصر علی

میر ناصر علی کا تعلق بھی کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ مسجد کمیٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ بینک میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ میر ناصر کے بیٹے ڈاکٹر علی رضا نے بتایا کہ ان کے والد مسجد کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور امامیہ جرگے کے سرگرم رکن تھے۔

5۔ جمیل خان

اس مسجد کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار جمیل خان بھی دھماکے کی زد میں آئے۔ پولیس کے مطابق خود کش حملہ آور نے پہلے جمیل پر داخلی دروازے پر فائرنگ کی او ر بعد میں وہ مسجد میں داخل ہوا۔

مرحوم جمیل کا تعلق پشاور کے علاقے پھندو روڈ سے تھا اور انہوں نے سوگواران میں تین بچے چھوڑے ہیں۔ جمیل کے گھر تقریباً ہفتہ قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے ماموں کے مطابق ابھی تک انہوں نے اپنی بیٹی کا نام بھی نہیں رکھا تھا کیوں کہ وہ اپنے والدین سےکہتے تھے کہ ’آپ نام رکھیں‘ اور والدین انہیں کہتے کہ ’آپ خود نام رکھیں۔‘

6۔ محمد علی میر

محمد علی کا تعلق بھی کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ سابق بینکر تھے۔ محمد علی کے بھتیجے ڈاکٹر علی ضا نے بتایا کہ ان کے چچا مسجد کمیٹی کے رکن تھے اور زیادہ تر جمعے کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتے تھے۔

7۔ سید انیس الحسنین

سید انیس الحسنین مسجد کمیٹی کے فنانس سیکریٹری تھے اور مسجد کے تمام مالی امور ان کی ذمہ داری تھی۔ مقامی صحافی شبیر شاہ کے مطابق انیس اہل تشیع کے سرکردہ لوگوں میں شامل تھے۔

8۔ منور حسین

منور حسین محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کے ریٹائرڈ ملازم تھے اور ان کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا۔ دھماکے کے روز وہ اپنے بھتیجےکے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے مسجد گئے تھے اور دونوں دھماکے کا نشانہ بنے۔

9۔ مولانا ارشاد خلیلی

مولانا ارشاد جامعہ مسجد کے خطیب تھے اور ان کا تعلق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا۔ مولانا نے سوگوران میں چار بیٹیاں اور دوبیٹے چھوڑے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے مسجد میں داخل ہو کر پہلے خطیب پر گولی چلائی تھی۔

10۔ فہیم عباس

فہیم عباس مسجد دھماکے کے سب سے کم عمر متاثرین میں سے ہیں جو ابھی سات برس کے تھے کہ اس دنیا سے چلے گئے۔ فہیم عباس اپنے والد عقیق حسین کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے مسجد گئے تھے کہ والد سمیت دھماکے کا شکار ہوئے۔ فہیم کو طوری قبرستان، پارہ چنار میں سپرد خاک کیا گیا۔

11۔ مرزا حسنین

مسجد دھماکے میں جان سے جانے والے مرزا حسنین کی عمر 16 برس تھی اور وہ کوچہ رسالدار کے رہائشی تھے۔

12۔  فاتح علی خان

دھماکے میں چل بسنے والے فاتح علی خان کا تعلق کوہاٹی گیٹ، پشاور سے تھا۔

ان کے بھائی ان کی مدد کرتے تھے۔ عمر تقریباً 57 برس تھی۔ پسماندگان میں بیوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

13۔ عامر علی

دھماکے میں جان سے جانے والوں میں 52 سالہ عامر علی بھی شامل ہیں، جن کا تعلق نمک منڈی، پشاور سے تھا۔

ان کے بھتیجے بھی مسجد دھماکے کا نشانہ بنے۔ عامر کی عمر تقریباً 52 برس تھی۔

ان کی سٹیشنری کی معمولی سی دکان تھی۔ فاتح کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ عامر کے سوگوران میں ان کی بیوہ شامل ہیں۔

14۔ علی مرتضیٰ

علی مرتضیٰ کا تعلق سکردو سے تھا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے جیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ سکردو کی کاروباری شخصیت زر مست خان کے بیٹے تھے۔

علی پشاور میں قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتے تھے اور جمعے کی نماز پڑھنے کے لیے نمک منڈی سے کوچہ رسالدار گئے تھے۔

15۔ محمد آصف

محمد آصف قوت گویائی و سماعت سے محروم تھے۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے گئے تھے لیکن ان کے بھائی دوسری منزل پر نماز پڑھنے کی وجہ سے بچ گئے۔ مرحوم آصف کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ان کے والد کچھ عرصہ قبل گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر چل بسے تھے۔ آصف ڈینز ٹریڈ سینٹر، پشاور میں بطور آفس بوائے کام کرتے تھے۔

16۔ سید مسرت رضا 

سید مسرت رضا کا تعلق پشاور کے سول کوارٹرز سے تھا۔ مسرت کے بیٹے حسیب رضا نے بتایاکہ وہ اپنے والد کے ساتھ صدر بازار گئے تھے لیکن والد نے بتایا کہ وہ جمعہ پڑھنے کوچہ رسالدار مسجد جائیں گے اور بعد میں  انہیں فون پر اطلاع ملی کہ مسجد میں دھماکہ ہوا ہے۔ 

17۔ مجاہد علی اخونزادہ

مجاہد علی اخونزادہ اہل تشیع کے سرگرم اور متحرک اراکین میں شامل تھے۔ مجاہد اخونزادہ پر چند سال پہلے بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا لیکن وہ اس میں بچ گئے تھے۔ مجاہد علی شعیہ علما کونسل کے سرگرم رکن بھی تھے۔ مجاہد علی اخونزادہ معروف ذاکربھی تھے۔

18۔ مظہر علی اخونزادہ

مظہر علی اخونزادہ کا تعلق بھی مجاہد علی کے خاندان سے تھا اور پشاور کے اہل تشیع مسلک کے سرگردہ رہنماؤں میں شامل تھے۔ مظہر شعیہ علما کونسل کے رکن بھی تھے۔ مظہر علی اہل تشیع کے محفلوں میں بطور ذاکر بھی شریک ہوتے تھے اور امامیہ جرگہ کے سرکردہ رکن تھے۔

19۔ حسن علی اخونزادہ

حسن علی اخونزادہ مظہر اخونزادہ اور مجاہد علی کے خاندان سے تھے۔ ایک ہی خاندان کے یہ تینوں افراد اس دھماکے میں نشانہ بنے۔ حسن اخونزادہ کنٹونمنٹ بورڈ میں ٹیوب ویل آپریٹر تھے۔

20۔ علی رضا

علی رضا کا تعلق پشاور کے کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ علی رضا کے بھتیجے ڈاکٹر علی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ علی رضا بینک سے ریٹائرڈ تھے اور زیادہ تر اسی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔

21۔ سید طیب رضا شاہ

ان کا تعلق پشاور کے علاقے ڈھکی نعلبندی سے تھا جہاں اے این پی کے رہنما بشیر بلور پر ایک جلسے کے دوران حملہ ہوا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے مگر چار افراد جان سے گئے تھے۔

22۔ شیر علی میر(ماما شیر علی)

پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں مسجد پر ہونے والے خودکش حملے میں مارے جانے والے شیر علی میر محلہ مروی ھا کے رہائشی تھے اور محلہ جنگی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔
ان کی عمر 65 برس تھی۔ شیر علی میر کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور صاحبزادے ہیں جن کا نام حیدر ہے۔

23۔ کانسٹیبل اختر حسین

اختر حسین محکمہ پولیس میں بطور کمپیوٹر آپریٹر کام کرتے تھے اور انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق ضلع کرم سے تھا۔ پولیس حکام کے مطابق اختر حسین کی وہاں کوئی ڈیوٹی نہیں تھی بلکہ وہ نماز پڑھنے مسجد گئے تھے۔

24۔ سردار خورشید الحسن

ان کا تعلق بھی پشاور سے تھا اور ان کی عمر60 برس تھی۔

25۔ سید انیس آغا جعفری

سید انیس کا تعلق پشاور سے تعلق تھے اور امامیہ جرگے کے اہم رہنما تھے۔ ان کی عمر 62 برس تھی۔ 

26۔ حسن علی

حسن کا تعلق بھی پشاور کے علاقے سے تھا اور گھر کے واحد کفیل تھے۔ وہ پشاور ہائی کورٹ میں بطور کلرک کام کرتے تھے۔ حسن علی کے دوست رضا شگری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسن خاندان کے واحد کفیل تھے اور سوگوارن میں تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حسن نہایت ہنس مکھ اور نرم مزاج انسان تھے۔

27۔ الیاس حسین

الیاس حسین کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا اور بینک میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے تھے لیکن کچھ عرصہ قبل ریٹار ہوگئے تھے۔ الیاس حسین کے بیٹے نگاہ حسین کے مطابق ان کے والد کی عمر 80 سال کے لگ بھگ تھی اور معمول کی طرح دھماکے کے دن بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

28۔ باز گل

باز گل کا تعلق پشاور کے علاقے گلبرگ سے تھا اور وہ پاکستان ایئر فورس سے بطور چیف وارنٹ آفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔

29۔ جابر حسین بنگش

جابر حسین بنگش کا تعلق پارہ چنار سے تھا اور وہ پشاور سول سیکریٹریٹ میں کلاس فور ملازم تھے۔ جابر بنگش سول فور ایسوسی ایشن کے سابق صدر بھی رہے چکے ہیں۔ جابر حسین کلاس فور ملازمین کے حقوق کے لیے بہت سرگرم تھے اور یونین کی پلیٹ فارم سے ان کی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ 

30۔ مظاہر حسین بنگش

مظاہر حسین بنگش کا تعلق بھی پارہ چنار سے تھا اور وہ بھی سول سیکرٹریٹ کے ملازم تھے۔

31۔ منتظر مہدی

منتظر مہدی دھماکے کے متاثرین کے کم عمر متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا تعلق پشاور کے علاقے ڈھکی نعلبندی سے تھا اور ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ منتظر کے والد حسنین مہدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسنین مہندی اہنے ماموں کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئے تھے جہاں دھماکے کا نشانہ بنے۔ حسنین مہندی نے بتایا کہ منتظر دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔

32۔ سردار زاہد علی

سردار زاہد علی کا تعلق پشاور کے کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ بینک سے ریٹائرڈ تھے۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ 

33۔ پروفیسر(ریٹائرڈ) ظفر علی

پروفیسر ظفر علی 1945 میں لوئر کرم کے علاقے علیزئی میں پیدا ہوئے تھے اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے۔ مقامی صحافی نبی جان کے اورکزئی کے مطابق پروفیسر ظفر گورنمنٹ ڈگری کالج پارہ  چنار کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نبی جان کے مطابق وہ پشاور میں اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے جو پشاور میں ملازمت کے غرض سے شفٹ ہوئے تھے اور ہمیشہ اسی مسجد میں جمعے کے نماز کے لیے جاتے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی خودکش حملہ آور کی زد میں آگئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج سے دیکھا جاسکتا ہے کہ خودکش حملہ آور ایک نوجوان تھا جس نے سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے خودکش حملہ آور کے سہولت کار گرفتار کر لیے ہیں اور جلد اس نیٹ ورک کے بارے میں میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کریں گے لیکن کئی روز گزر جانے کے باوجود ایسا نہیں کیا ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگایاگیا ہے اور بعض غیرملکی قوتیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔

34۔ ڈاکٹر اسد بنگش

ڈاکٹر اسد بنگش کا تعلق پارہ چنار سے تھا اور انہوں نے پشاور کے سرحد یونیورسٹی سے فزیکل تھیراپی میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ انٹر کی تعلیم گورنمنٹ ڈگری کالج پارہ چنار سے حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر اسد دھماکے کے کم عمر متاثرین میں شامل ہیں۔

35۔ عقیق حسین

عقیق حسین کا تعلق پارہ چنار سے تھا اور دھماکے میں شدید زخمی تھے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ عقیق حسین کے کم سن صاحبزادے فہیم عباس بھی دھماکے کی زد میں آئے تھے اور جان سے گئے تھے۔ پیر کو فہیم عباس کے والد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔

36 ۔  ناصر علی

ناصر علی پشاور کے محکمہ فنانس میں سیکشن آفیسر تھے اور انہوں نے سوگواران میں ایک بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ ناصر علی کا تعلق پارہ چنار کے علاقے زیران بنگش سے تھا۔

37۔ آغا غضنفر علی

مسجد دھماکے میں جان سے جانے والے آغا غضنفر علی قزلباش پیشے کے لحاظ سے وکیل اور پشاور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔

38۔ سردار وقار الحسن

سردار وقار الحسن کا تعلق پشاور کے کوہاٹی گیٹ سے تھا۔ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ تھے اور ان کے دونوں بیٹے بھی سرکاری ملازمین ہیں۔ سردار وقار دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے اور تین دن تک آئی سی یو میں رہنے کے بعد چل بسے تھے۔

39۔ محسن شاہ

محسن شاہ کا تعلق افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تھے اور چار مہینے قبل ہی وہ اپنے خاندان سمیت پشاور منتقل ہوئے تھے۔ محسن شاہ اپنے نو سالہ بیٹے کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے گئے تھے اور دھماکے میں شدید زخمی تھے، جو بعد میں چل بسے۔

محسن شاہ کی اہلیہ مرضیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا کم سن بیٹا دھماکے میں زخمی ہوا ہے، جس کا علاج لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں جاری ہے۔

40۔ سید اکبر علی شاہ رضوی

 

سید اکبر علی شاہ امام بارگاہ آغا سیفی شاہ کے متولی اور پشاور کے محلہ داد آسیہ شاہ کے رہائشی تھے۔

41- علی آغا 

علی آغا پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے اور ان کا تعلق پارپ چنار سے تھا۔ پارہ چنار کے مقامی صحافی گلفام حسین کے مطابق علی آغا کی تین سال قبل شادی ہوئی تھی اور سوگواران میں اہلیہ اور ایک دو سال کا بچہ شامل ہے۔

42- عید محمد 

عید محمد کا تعلق پارہ چنار کے خوشی خاندان سے تھے اور تقریبا چھ سال سعودی عرب میں گزارنے کے بعد پاکستان آیا تھا۔ مقامی صحافی گلفام حسین کے مطابق عید محمد نے سعودی عرب سے واپسی پر گاؤں میں دکان کھولی تھی تاکہ گھر کا چولہا جلا سکے۔

43- علی اکبر ولد سرور حسین 

علی اکبر کا تعلق پشاور کے کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتے تھے۔ علی اکبر کے بھائی علی آغا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علی اکبر کے چار چھوٹے بچے ہیں اور نہایت ملنسار شخصیت تھے۔

44- حاجی ضابط حسین

ضابط حسین کا تعلق پشاور سے تھا اور دھماکے میں زخمی ہوئے تھے اور بعد میں ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ضابط حسین کی عمر تقریبا65 سال تھی۔ 

45- عبدالعلی 

عبدالعلی کا تعلق پارہ چنار کے بالخشیل علاقے سے تھا اور بس اڈے میں بطور منشی کا کام کرتے تھے۔عبدالعلی کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

46۔ شہادت حسین میر


پشاور دھماکے میں مرنے والوں میں 72 سالہ شہادت حسین میر بھی شامل ہیں جو پشاور کے علاقے سرکی کے رہائشی تھے۔

شہادت حسین میر کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور وہ پشاور کے امام بارگاہ آغا مصطفیٰ شاہ کے متولی تھے۔

47۔ ریاض علی میر

پشاور دھماکے میں نشانہ بننے والے ریاض علی میر ایک ریٹائرڈ بینکر تھے اور پشاور کے رہائشی علاقے گلبہار میں رہتے تھے۔

پشاور ہدف پر

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پشاور کے اس بازار کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی اسی بازار کے احاطے میں مختلف دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

اسی طرح ستمبر 2013 میں بھی اسی بازار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں 38 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس وقت دھماکے میں بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ 

اسی قصہ خوانی بازار میں 2012 میں بھی ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور اس وقت کے صوبائی سینیئر وزیر بشیر آحمد بلور بھی ہلاک ہوگئے تھے۔

جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت تھی اور دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے، تو اس وقت 2008 میں اسی کوچہ رسالدار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

’دہشت گردی برداشت نہیں ہوگی‘

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو برداشت نہیں کرے گی اور ان عناصر کو مثال بنانے کے لیے ان کے خلاف تیز عدالتی کارروائی کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں قومی لائحہ عمل کے بارے میں پیر کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کے گھناؤنے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ قوم دہشت گردی کے ناسور کو شکست دینے کے لیے متحد ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کو معلوم ہے کہ بعض عناصر فرقہ پرستی اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعے بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم ایسے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ایپکس کمیٹی نے پشاور حملے کی شدید مذمت کی تھی۔ کمیٹی نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے کردار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے کو مربوط بنایا جائے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کی استعداد کار کو بہتر کیا جاسکے۔

کمیٹی نے کہا کہ صوبوں کو جدید فورینزک لیبارٹریز قائم کرنے اور سائنسی بنیادوں پر موثر تحقیقات کرنے کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہیں۔ کمیٹی نے عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان