غالبؔ بنام ساکنان پاکستان

یہاں دیوار کے اُس طرف جنت کا متضاد مقامِ عبرت ہے، جہاں کے مکینوں کو پاکستانی اخبارات بطور سزا پڑھنے کو دیے جاتے ہیں تاکہ ان کا ذہنی سکون برباد رہے۔

سعادت و اقبال نشان ساکنان اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عاجز کا سلام پہنچے۔

بعد دعائے دوم حیات و ترقی درجات عرض کرتا ہوں کہ آبروئے ریختہ کے صدقے بخشا گیا یہ درویش خلد نشیں جو موسوم بہ اسد اللہ اور متخلص بہ غالبؔ ہے، مکرماتِ حال کا شاکر اور خیر کا طالب ہے ۔ اس بقعۂ معمور، سراسر سرور میں مرزا نوشہ بہت مسرور ہے اور کیوں نہ ہو، فقیر کی قدرومنزلت ارزش سے بڑھ کر ہے۔ میں یہاں بھی بہ عینِ عنایتِ الٰہی بشمول تمہارے اقبال، جناح اور فیض کے کثیر الاحباب ہوں۔ بخدا ذوق شعر گوئی و شعر فہمی کا جو پایہ میں نے یہاں پایا، جمیعِ اہل ہند کو بھی میسر نہ آیا۔ اللہ اللہ ! ہر شخص شعر کا فریفتہ، شعر ہر شخص پر فریفتہ اور شاعر ہر حور پر فریفتہ۔ حسن فطرت دیکھو تو شیراز و اصفہان کو بھول جاؤ۔ ہر کجا چشمۂ بود شیریں، سہانا مرغزار، سر سبز و شاداب جس میں گلبن ہزار در ہزار، میوہ دار شجر قطار اندر قطار اور دودھ اور شہد کی نہریں روش اندر روش۔ اس پر مستزاد ملکوتی طعام و مشرب اور سروقامت حوروں کے جلو میں غالبِؔ بے نوا ہر دم۔

اہل عظمت، آپ متقی حضرات سے راہ و رسمِ مراسلت تو نہیں مگر کیا کروں، شعر گوئی اور نمیقہ نویسی کی عادات خلد بریں میں بھی نہیں گئیں۔ سوچتا ہوں کچھ ایسا منافی ادب بھی نہیں کہ بہ رعایتِ جانبِ حق چند کلمات آپ کے حضور لکھ دوں کہ ’گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں۔‘ ہمارے بعد آپ نے ہندوستان کا بٹوارہ کیا، خوب کیا۔ جب رفاقت بوجھ بن جائے تو اسے اتارنا ہی احسن ہے مگر صاحبو، یہاں محمد علی جناح اپنے جمہوری افکار کی تمہارے ہاتھوں قطع و برید دیکھتا ہے تو خون کے آنسو روتا ہے۔ گویا غالبؔ کا پکایا کلیجہ تم نے۔ درویش سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر آپ لوگوں نے اس مرد معقول کا قومی بیانیہ تبدیل کر کے اپنی منزل کیوں کھوٹی کی؟

یہاں دیوار کے اُس طرف جنت کا متضاد مقامِ عبرت ہے، جہاں کے مکینوں کو پاکستانی اخبارات بطور سزا پڑھنے کو دیے جاتے ہیں تاکہ ان کا ذہنی سکون برباد رہے۔ پس شوقِ مطالعہ اور حالات سے آگاہی کی خاطر گاہے وہاں سے یہ اخبارات منگوا کر پڑھتا ہوں اور کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ صاحبو، بے خوف تردید کہتا ہوں کہ دین برحق کے نام پر فسادی شعلوں کو ہوا دینے اور کشت و خون میں دورِ جاہلیت کو بھی مات دیتے ہو۔ آپ کے مہری و دستخطی اور زبانی تکفیری فتوے اور بیاناتِ فتنہ باز و شر انگیز دیکھ کر یہاں فرشتے بھی الامان الحفیظ کا ورد کرتے ہیں۔

مدعیانِ علم و عقل، تقصیر معاف، تقدیس کے جزدان میں لپٹے تمہارے کج فہم اور مغلوب الغضب افکار و گفتار سے افادہ کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں۔ آخر تمہارے اذہان کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں آ گئی ہے کہ ہر بات پر ’من بندہ کہ غمناکم و زغصہ جگر چاکم‘ کی مثل مشتعل ہو جاتے ہو؟ یہ تسلیم کرنے میں کسی بھی صاحب ایمان کو عار نہیں کہ بے شبہ مقدس ہستیوں کی اہانت ایک گونہ سوئِ ادب اور گناہ ہے اور وہ عقبیٰ میں خالق کا مقہور ہو گا، لیکن صاحبو، آپ کس خوشی میں خدا بن کر جزا و سزا کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے بیٹھے؟ صدیوں پہلے کہا تھا:

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

ساکنانِ ارض پاک، آپ کی جوہرِ طبع کی لمانی اور نیّر فکر کی درخشانی کے کیا کہنے، مگر خدارا دوسرو ں کو دشنام و تعزیر اور جہنم کا سزاوار ٹھہرانے سے قبل درون گریباں بھی جھانک لیا کرو۔ گناہ گاروں پر سنگ اٹھانے سے قبل سوچ لو کہ کیا تمہارا اپنا دامن، دامنِ مریم ہے؟ کیا تم نہیں جانتے، بےشبہ جانتے ہو کہ خدا کو اپنی مخلوق سے کتنی محبت ہے۔ جب غالبؔ روسیاہ جیسا پوچ اور گستاخ بھی بخشا گیا تو باقی کلمہ گو کیوں معاف نہ ہوویں گے؟ بخدا یہ رعایتی نمبروں سے بخشیدہ چشم دید گواہ ہے کہ رحمت خداوندی جوش میں آئے تو ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے، الا حقوق العباد۔ وقتِ حساب اس عاصی کے پلے بجز گناہوں، غزلوں، تصاویر بتاں اور حسینوں کے خطوط کچھ نہ تھا۔ پس کلمہ طیبہ پڑھا اور بہ عجز عرض کیا:

کام نہ بخشیدئہ، گنہ چہ شماری

غالبِؔ مسکین بہ التفات نیرزد

یعنی جب تو نے دنیا میں ہماری خواہشیں پوری نہ کیں تو اب ہمارے معاصی کا بھی شمار نہ فرما۔ آفریں صد آفریں۔ خالق کائنات نے اس گستاخی کو بہانۂ عتاب نہ ٹھہرایا۔ غالبِؔ بے ادب نے کراں تابہ کراں پھیلا رحمت کے موتیوں کا ڈھیر دیکھا۔ حکم ہوا ’دامن پھیلا اے آبروئے ریختہ و فارسی‘ یا للعجب، عالم حیرت میں بدن تھرایا، حواس مسلوب، آنکھوں میں ساون اتر آیا۔ تو پھر مدعیان علم و عقل کسی کو گستاخ اور غدار ٹھہرا کر اس کے جگر تشنۂ خوں کیوں ہو جاویں اور جب تک اس کا نقش صفحۂ ہستی سے نہ مٹاویں، آرام نہ پاویں۔ یا حیرت! سوال دیگر، جواب دیگر پر مدار ہے، خارج از مبحث اقوال کی تکرار ہے اور فرطِ غیظ و غضب سے ہر بدن رعشہ دار ہے۔ غالبِؔ خستہ حیران ہے کہ آخر آپ کا تقدیس کا سبق ہمیشہ وطن کو مفلوج کرنے ہی کے کام کیوں آتا ہے، تعمیر کے کیوں نہیں؟ کیا بم دھماکے، بے گناہوں کا خون، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جعلی دوائیں اور معصوم بچیوں سے زیادتی احکامات خداوندی کی توہین نہیں کہ ان کے خلاف آپ قیام نہیں کرتے؟ پس صدائے فقیر یہ ہے کہ آپ کو معرض تحریر و تقریر میں تحمل و تامل چاہیے، نہ کہ سخن پروری و جانب داری میں غل چاہیے۔ لاریب! آج آپ کو شاہراہوں کی کشادگی سے زیادہ کشادگی فکر و نظر کی ضرورت ہے۔

اربابِ دانش، کالا محل آگرہ سے عالم جاودانی تک کے اس سفر میں غالبِؔ خاکسار نے کیا کیا نہ دیکھا۔ مغلوں کے زوال و انحطاط کا بہ چشم نم تماشا کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی اور بعد کے حالات بھی لوحِ یاداشت پر لمحہ موجود کی صورت ثبت ہیں۔

صاحبو، دلی اجڑی، دل اجڑا اور آپ کے اعمالِ صالح اور سخن ہائے دلنواز سن کر آج بارِ دگر اجڑا۔ عجیب بہادر ہو کہ آدھا ملک گنوا کر بھی خود کو دنیا کا راہنما گردانتے ہو۔ اقتصادی راہداری بناتے ہو مگر دلوں کی راہداریاں بند کیے جاتے ہو۔ سیلاب سے تمہارے لاکھوں ہم وطن بے گھر ہوتے ہیں مگر نظریات و خیالات کے آزاد بہاؤ کے آگے ہی بند بنائے جاتے ہو۔

تمہارے دشمن خلاؤں کو مسخر کرتے ہیں اور تم اکیسویں صدی میں بھی چاند دیکھنے کے واسطے رویت ہلال کمیٹیاں بناتے ہو۔ رمضان آرڈیننس بصد شوق جاری کرتے ہو مگر اپنے بھوکے ننگے ہم وطنو پر نظرِ التفات نہیں ڈالتے ہو۔ سنتے ہو تراویح میں قرآن کتنا، مگر ماہِ صیام میں گرانی سے بھائیوں کی کھال بھی خوب اتارتے ہو۔ تمہارے عدو کے ہاں ایمانداری اور سچائی ترقی کی ضمانت ٹھہریں اور تم میمو گیٹ، ڈان لیکس اور پانامہ لیکس سے شہرت پاتے ہو۔ پس یہ عرض کر کے قطع کلام کرتا ہوں کہ فوجی بندوبست ہو یا جمہوری تماشا، ضمیر کی خلش اور روح کے آزار سے آزاد ترقی کا سفر مبارک ہو کہ نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں۔

والدعا: اسد اللہ خان غالبؔ

جمعہ ۸ا شوال المکرم ۱۴۴۰ھ

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر