مسٹر اینڈ مسز شمیم: ’وہ کہانی جسے ٹی وی برداشت نہیں کرسکتا‘

کہا جا رہا ہے کہ اس ڈرامے کا موضوع بہت بولڈ ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ ٹیلی ویژن ڈراما نہیں بلکہ ویب سیریز ہے اور ویب سیریز اس سے کئی گنا زیادہ بولڈ ہوتی ہیں۔

یہ میوزیکل ویب سیریز کہی جا سکتی ہے جس میں تصوف کا رنگ غالب ہے (تصویر: زی 5)

کہانی کوئی غالب کی غزل تو نہیں کہ جس کو اپنے دامن کی تنگی کا شکوہ ہو، کہانی تو پانی اور ہواؤں کی طرح ہوتی ہے، اپنا رستہ آپ بنا لیتی ہے۔

پانی اور ہوا زندگی کی علامت ہیں اور زندگی ہر ہر لمحے کہانی ہے۔ ’مسٹر اینڈ مسز شمیم‘ ایسی ہی ایک کہانی ہے جس نے اپنا رستہ آپ بنا لیا ہے۔ کچھ کہانیاں نہ تو بڑی سکرین سہہ سکتی ہے نہ ہی مین سٹریم۔ اس کہانی کو بھی ایسا ہی مسئلہ لاحق ہوگا۔ لیکن جونہی یہ ایک ویب سیریز کے طور پر ریلیز ہوئی، اس نے پاکسانی ہی نہیں بین الاقوامی ناظرین کو بھی حیران کر دیا کہ پاکستان میں شادی کے بنا ایک خاتون کا بچہ پیدا کرنے جیسی کہانیاں لکھی جانے لگی ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں اور اگر نومولود بچوں کو کوڑے کے ڈھیروں پر چھوڑے جانے کے واقعات پیش آ رہے ہیں تو انہیں ڈرامے کا موضوع کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ اور وہ بھی ویب سیریز، جس کے تقاضے ٹیلی ویژن سے مختلف ہوتے ہیں۔

اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ اس سیریز کا دورانیہ بہت زیادہ ہے، لیکن یہ سیریز ہے۔ اس کو تین سیزن سمجھ کر دیکھا جائے تو کہانی کی طوالت نارمل لگتی ہے۔ پہلی دس اقساط تو سانس روکے بنا چلتی چلی جاتی ہیں، ان میں ایک کہانی اپنے مکمل منطقی انجام پہ پہنچ جاتی ہے۔

اگلی اقساط میں بوئے گئے بیجوں کے ثمر ہیں۔ انسان کی تربیت اور ماحول، جن کو ہم خاص اہمیت نہیں دیتے اور باتوں میں اڑا جاتے ہیں کہ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں۔ اس پر بات ہوئی ہے کہ کتنا بدل سکتے ہیں اور سب کچھ فطری طور پہ کیسے بدلتا ہے۔ ظلم جبر کیا رنگ لاتے ہیں۔ سختی کون سی روح بوتی ہے، محرومی کیسے زندگی سے لڑتی ہے۔ رستے کیسے بنتے ہیں۔ وقت کیسے بدلتا ہے اور چہروں کے نقاب کیسے اترتے ہیں۔

 شاید آج بات بھی طویل ہو جائے۔ دل تھام لیجیے گا۔ اگر آپ نے رات کے سناٹے میں پرندوں کی آوازیں سنی ہیں یا سمندر کے ساحل پہ کوئل کو کوکتے سنا ہے تو یقین کیجیے یہ ڈراما دیکھنے کے بعد آپ اس کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

کہانی ایک مخصوص تہذیب و تمدن میں سفر کرتی ہے، اس میں مصنوعی قسم کا گلیمر نہیں ہے۔ یہ میوزیکل ویب سیریز کہی جا سکتی ہے جس میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔

کچی عمر کی محرومیاں جو خواب بنتی ہیں۔ صبا قمر نے امی کے روپ میں ایسا ہی ایک خواب تعبیر کرنے کی نادان سی کوشش کرلی تھی۔ ڈائجسٹ پڑھنے والی لڑکیاں عموماً ایسے خوابوں سے اپنے اندر آسمان بنا لیتی ہیں، موقع ملے تو اس میں کود بھی جاتی ہیں۔ ڈرامے کی ہیروئن بھی ڈائجسٹ کو اتنے ہی رومان سے دیکھتی ہے جیسے اس میں لکھا سب کچھ زندگی ہوگا۔

’تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی‘

لیکن بات اس دل لگی تک پہنچتی کیسے ہے، پیچھے کتنی کرچیاں جوڑنے کی سعی کی ہوتی ہے۔ کہانی بہت سفاکانہ جمالیاتی انداز سے پیش کی گئی ہے۔ ایک کردار سے باقی کرداروں کو طاقت مل رہی ہے۔ ایک بغاوت سے باقی انسان زندگیاں کشید کر رہے ہیں۔ ایک محبت میں دوسری محبت اپنی جگہ بنا رہی ہے۔

اندورن لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں کا یہ کلچر شاید باہر کہیں دکھائی نہ دے، مگر یہاں یہ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

شمیم ایک تیسری جنس کا کردار ہے، لیکن اس ڈرامے میں اس کے اندر کی عورت غالب نہیں ہے بلکہ اس کا اندر کا مرد غالب ہے۔ شاید کہانی اسی وجہ سے مقبول اور قبول ہوئی ہے۔ آج تک یہ جنس بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ جس میں ان کے احساسات کو ان کی نظر سے نہیں۔ غلط فہمیوں کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔

اور ہمیشہ ایک عورت کی روح کو غالب دکھایا گیا ہے، جب کہ حقیقت تو کائناتوں کی طرح وسعت رکھتی ہے۔ شمیم اور مسز شمیم دوست ہیں لیکن شمیم کو اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ ایک بار وہ اظہار محبت بھی کر دیتا ہے جب کہ اس کو خود بھی احساس ہے ایک عورت اس جیسے مرد کو کیسے پسند سکتی ہے اور وہ تو بلال جیسے روایتی مرد کو پسند کرتی ہے۔ اگرچہ شمیم اس کی نسبت کئی درجے احساس کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔

جب کوئی محبت کا راز پا لیتا ہے تو وہ مسز شمیم بن جاتا ہے

جو خود محبت کی کمی کا شکار رہے ہوتے ہیں۔ جب محبت کرتے ہیں تو ٹوٹ کے کرتے ہیں اور پہاڑوں سے ٹکرا کر بھی دم آخر ہر حال میں نبھاتے ہیں۔ شمیم ایسا ہی ایک کردار ہے جو اپنی محبت کے لیے زمانے کی تمام روایتوں سے ٹکرا جاتا ہے۔ یوں بھی اگر انسان اس طاقت کو سمجھے تو کمزوری انسان کو طاقتور بنا دیتی ہے اور جب کوئی محبت کا راز پا لیتا ہے تو وہ مسز شمیم بن جاتا ہے۔

مرد کو بھی عورت کے اظہار محبت کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ ایک عورت کو ہوتی ہے۔ دسویں قسط کے اختتام پہ ایسا ہی ایک برملا اظہار شمیم کی زندگی کو فخر بنا دیتا ہے۔

اس سے قبل مسز شمیم کچی عمر کی خوابوں والی لڑکی ہے۔ ماں کی وفات کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی ہی نہیں کی بلکہ اس کو لاہور کے ایک ہاسٹل میں داخل کروا دیا، جہاں نہ صرف اس کی سہیلی کے بھائی شمیم سے دوستی ہوئی بلکہ بلال میں اسے وہی ڈائجسٹ کی کہانیوں والا کوئی سپر شہزادہ سپر ہیرو دکھائی دیا۔ جس کو وہ محبت سمجھی وہ پدر سری سماج کی ہوس نکلی۔ بلال مرد کی سب تعریفوں پہ پورا اترتا ہے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ مرد کی تعریف پہ ہی پورا اترتا ہے، مرد ہوتا کیا ہے وہ اس پہ پورا نہیں اترتا۔

وہ امید سے ہوگئی اور بلال نے قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس پہ بہتان بھی لگائے۔ جو عام طور پہ مرد کا لڑکی سے جان چھڑانے کا آخری حربہ ہوا کرتا ہے۔

گھر والوں نے قبول نہیں کیا۔ ہاسٹل والوں نے نکال دیا، سماج نے دھتکار دیا تو شمیم ساتھ تھا۔ وہ اس ہوس سے پہلے بھی اس کا دوست تھا، آج بھی اس کے ساتھ ایک دوست بن کے کھڑا تھا۔ شمیم کی بہنیں بھی اسے رکھنا نہیں چاہتی تھیں، مگر اکلوتے بیٹے کے جذبات نے ممتا کو طاقت بنا دیا اور اس نے بیٹے کی محبت کو بہو بنا لیا۔

اب وہ بچہ پیدا ہوا جو شمیم کا نہیں تھا۔ کبھی مسز شمیم ڈپریشن میں اپنے ہی بچے کو مار دینا چاہتی ہے تو کبھی شمیم کی بے اولاد بہن اس کو اپنی اولاد کے لیے کسی تعویذ گنڈے ٹونے ٹوٹکے کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔ شمیم ماں بن کر اس کے ساتھ رہا بلکہ بیوی کے ساتھ بھی دوست اور انسان بن کر رہا۔

کہانی میں کہانیاں جنم لیتی ہیں، ایسے ہی جیسے داستانوں میں سحر ہوتا ہے۔ جس ڈرامے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں بولڈنس بہت زیادہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ چھپ کر کیا جانے والا فعل اگر دائرہ حجاب میں آتا تو اس کی شاخوں پہ پھل نہ لگتے۔

کہانی جس طرح کا تقاضا کر سکتی تھی، جس طرح کا مرچ مصالحہ اس میں ڈالا جا سکتا تھا، اس کے مطابق کمال یہ ہے کہ منظر کو چھپا دیا گیا ہے، جہاں ضرورت تھی وہاں علامت سے کام لیا گیا ہے۔

نعمان اعجاز اور صبا قمر نے تو اداکاری میں کمال کیا ہی ہے، باقی کاسٹ بھی اپنے حصے کا منفرد کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پوری پروڈکشن ٹیم نے کہانی اور واقعات گرفت سے نکلنے ہی نہیں دیے۔ مکالمہ افسانے جیسا ہے۔

بولڈ موضوع؟

کہا جا رہا ہے کہ اس ڈرامے کا موضوع بہت بولڈ ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ ٹیلی ویژن ڈراما نہیں بلکہ ویب سیریز ہے اور ویب سیریز اسے کئی گنا زیادہ بولڈ ہوتی ہیں۔

حالانکہ کہانی جس طرح کا تقاضا کر سکتی تھی، جس طرح کا مرچ مصالحہ اس میں ڈالا جا سکتا تھا، اس کے مطابق کمال یہ ہے کہ منظر کو چھپا دیا گیا ہے، جہاں ضرورت تھی، وہاں علامت سے کام لیا گیا ہے۔

جیسے شمیم کی بھانجی مدرسے سے پڑھ کر آتی ہے تو مولوی صاحب اس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس سارے منظر کو اور اس لڑکی کی بغاوت کو صرف منظر کی حد تک دکھایا گیا ہے یا ایک سرد مکالمہ کہ ’اب مجھے ٹھنڈے پانی سے نہانے کی عادت ہو گئی ہے،‘ یا اس کا اپنا دوپٹہ ہوا میں اچھال دینا۔ شمیم کی بہن کو جب یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بانجھ نہیں بلکہ اس کا شوہر مریض ہے تو وہ اپنے شوہر کے طعنے کو سچ میں بدلنے کی بغاوت کرتی ہے۔ صرف اس کا خوش ہونا، سجنا سنورنا دکھایا گیا ہے، یا ایک ذومعنی مکالمہ۔

جبر میں پلے انسان کا باغی ہونا کتنا فطری ہے اس ڈرامے میں فطرت کا یہ پہلو، تربیت کے ہزار نسخوں پہ بھاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تربیت تو ایسے ماحول میں سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ صرف ماحول نشوونما کر رہا ہوتا ہے۔ شمیم اپنے باپ کی طرح ظالم شوہر نہیں بننا چاہتا تھا، نہ ہی اپنے بہنوں کی طرح سخت گیر اور سماجی مرد اور نہ ہی بلال جیسا دھوکے باز ہرجائی۔ وہ منفرد ہےاور منفرد رہتا ہے۔

صبا قمر نے ایک سماجی لڑکی کا کردار اپنے پورے فنکارانہ جوبن پر نبھایا ہے۔ ان مناظر اور مکالمات میں نفسیاتی نکتہ یہی دکھائی دیتا ہے اگر آپ کے ذہن میں فحاشی ہے تو یہاں آپ کو فحاشی ہی دکھائی دے گی اور اگر انسانیت ہے تو مکمل انسان دکھائی دے گا، لیکن ہم یا تو فرشتہ دیکھنا چاہتے ہیں یا شیطان تو ایسا ہم اپنے مفاد کے لیے چاہتے ہیں۔ انسان تو خیر وشر کا مکمل پیکر ہے۔

’ذہن میں رومانس بالکل نہیں تھا‘

ویب سیریز یوں بھی زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے، جن پر ٹی وی اور فلم میں بات نہیں ہو سکتی۔ یہ ان کہانیوں کو پیش کرتی ہیں جو ہر انسان کے لیے نہیں ہوتیں، لیکن زندگی کا رنگ ہوتی ہیں۔ جب عام رسائی میں کہانی نہیں ہے تو عام ناظر کی سوچ سے میل بھی نہیں کھاتی۔

کہانی کے سحر نے ہمیں اتنا گرفتار رکھا ہے کہ ہم مصنف ساجی گل سے پوچھنے پر مجبور ہوگئے کہ سر آپ کے ذہن میں کہانی لکھتے وقت تھا کیا؟

انہوں نے بتایا کہ ’میرے ذہن میں رومانس بالکل نہیں تھا۔ صنفی سٹیریو ٹائپنگ (gender stereotyping) کے ایشوز تھے۔ فیمینزم صرف خواتین کی بات کرتا ہے۔ مرد کی حساسیت اور اس کی طرف معاشرتی رویوں کی نشاندہی مقصود تھی۔‘

یہی جواب ہم اکثر سوچا کرتے ہیں۔ عورت کے آدھے مسائل تو بنیاد میں صرف مرد کے جذباتی اور سماجی مسائل ہیں۔ اگر وہ حل ہو جائیں تو عورت کے بہت سے مسائل خود ہی حل ہو جاتے ہیں، لیکن ہم جڑ سے مسائل ختم کرنے کی بجائے ہمیشہ اوپر سے درخت کی شاخیں کا ٹ دیتے ہیں۔ یوں سب کچھ جوں کا توں موجود ہے۔

کہانی تو شہرزاد کی راتوں کی مانند ہے، اگر آپ میں حوصلہ ہے تو دیکھا جا سکتا ہے، ورنہ ویب سیریز کا ٹیسٹ الگ ہوتا ہے۔ جیسے داستانوں کا انداز جدا ہوتا ہے۔

شیم مردانہ محبت کا ایسا روپ ہے جو نفرت یا جھیلوں جیسے سناٹے میں بھی اپنی محبت سے جگہ بنا لیتا ہے۔ رشتہ کوئی بھی ہو، تعلق کوئی بھی ہو۔ نفرت، سختی، خود پسندی سے بگڑ جاتا ہے۔

انسان نہ فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان اور یہ کہانی ہے ایسے انسانوں کی جو فرشتے اور شیطان نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی