کیا واقعی عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے؟

ایک سعودی محقق نے اس مقبول عام تصور کو تاریخی مفروضہ قراد دیتے ہوئے رد کر دیا ہے کہ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ ان کے اس دعوے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

محققین نے دور جاہلیت میں خاندان کے باہمی تعلقات اور باپ کے اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کی حقیقت کا از سر نو جائزہ لیا ہے۔ (انڈپینڈنٹ عربی، علاء رستم)

سعودی محققین نے ایک بہت مشہور تاریخی قصے کی حقیقت واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے، یہ قصہ ہے ’بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا‘ جو مذہبی معاشرے نے ماقبل اسلام معاشرے کے بارے میں وضع کیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اداروں میں یہ پڑھایا جارہا ہے کہ دور جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، محققین نے اس تصور عام کا جائزہ لیتے ہوئے اسے جاہلی معاشرے کے بارے میں تعصب سے تعبیر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ جاہلی معاشرے کو مزید برا بنا کر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔

’زندہ درگور‘ کرنے کے بارے میں مختلف آرا

 سب سے آخری رائے سعودی محقق مرزوق بن تنباک کی ہے جو انہوں نے روتانا چینل پر ایک پروگرام میں پیش کی۔ ان کی اس رائے نے بہت سے محققین کو برانگیختہ کر دیا ہے اور سینکڑوں دینی، تاریخی اور ادبی شخصیات نے ان کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔

کچھ نے محتاط انداز میں اختلاف کیا ہے، کچھ نے اس رائے کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے اور بعض نے ان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اس بارے میں پوری آگاہی کے بغیر اپنی رائے پیش کی ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بعض محققین نے ان کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کچھ اضافی دلائل پیش کیے ہیں جن سے ابن تنباک کے موقف کو تقویت ملتی ہے۔

ابن تنباک اس سے پہلے بھی اس تصور کہ ’عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’عربوں کا اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، مفروضہ یا حقیقت‘ میں اس تصور کا تجزیہ کیا ہے۔

یہ علمی کتاب چند برس پہلے ادارہ ’الرسالہ‘ سے شائع ہوئی اور اس میں ایسے عربی مصادر اور دستاویزات کو پیش کیا گیا جس سے اس تصور کی نفی ہوتی ہے کہ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔

تاریخی مفروضہ

تحقیق کے بعد مصنف اس نتیجے پر پہنچے کہ تمام ایسی روایات جن میں لڑکیوں کو زندہ در گور کردینے کا قصہ بیان کیا گیا ہے، وہ تقریباً سب کی سب گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔ خاص طور پر وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے ان روایات کا موازنہ اصل حوالوں سے کیا تو میرا شک مزید بڑھ گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی اس کتاب کے ذریعے سے چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ایک ایسی دلیل پیش کی جائے جس سے ان روایات میں بیان کردہ اس مفروضے کی توثیق ہوتی ہو کہ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔‘

ابن تنباک نے اپنی کتاب میں کئی دلائل ذکر کیے ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ مشہور عالم رازی نے اپنی تفسیر ’مفاتیح الغیب‘ میں یہ روایت درج کی ہے کہ دور جاہلیت میں جب کسی آدمی کی بیوی سے حمل کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ چھپ جاتا اور لوگوں سے دور چلا جاتا، یہاں تک کہ اسے یہ پتہ چلتا کہ لڑکا پیدا ہوا ہے یا لڑکی۔ اگر لڑکا پیدا ہوتا تو وہ خوش ہوتا اور اگر لڑکی پیدا ہوتی تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور لوگوں کے سامنے اس وقت تک نہ آتا جب تک کہ یہ طے نہ کر لیتا کہ اس لڑکی کا کیا کرنا ہے۔‘

ابن تنباک کی رائے میں ’اکثر تفاسیر نے لفظ ’یتواری‘ (لفظی مطلب چھپ جانا) کو پوشیدہ ہو جانے، گھر سے بھاگ جانے اور بچے کی ولادت کے انتظار پر محمول کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ یہ انتظار کرتا تھا کہ اسے یہ پتہ چل جائے کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ جبکہ قرآن پاک کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ غضب ناک ہوتا تھا، اس کے چہرے سے ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوتے تھے اور وہ اسی حالت میں لوگوں کے پاس سے چلا جاتا تھا۔

اب اس چلے جانے کو بھاگ جانا نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ لفظ ’یتواری‘ سے سمجھا گیا ہے اور ’جسے مفسرین نے مبالغہ سے کام لیتے ہوئے بھاگ جانا کہا ہے۔‘

محقق ابن تنباک کی رائے کہ مطابق زندہ درگور کرنے سے مراد ’اس اولاد سے چھٹکارا پانا ہے جو بغیر شادی کے دنیا میں آئی، اور یہ ایسا معاملہ ہے جو ہر دور میں پیش آتا رہا ہے۔‘

ابن تنباک کا کہنا ہے کہ وہ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ نظریہ محض ایک تاریخی مفروضہ اور غلط بیانی ہے جسے بعض راویوں نے دور جاہلی کے بارے میں گھڑا ہے۔ انہوں نے لوگوں کے ذہنوں کی سطح کےمطابق اسے بنایا تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے معاشرے کو برتر بنا کر پیش کیا جائے۔

ان قصوں کی اسانید اسلامی دور ہی میں شروع ہوتی ہے اور اسی دور میں ختم ہو جاتی ہے۔

قرآن پاک میں ’موؤدۃ‘ (لفظی مطلب زندہ درگور کرنا) کا لفظ آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عربی الفاظ میں ت مونث کے لیے آتی ہے، اس لیے اس مراد لڑکی یا عورت ہے۔ ابن تنباک کے مطابق یہ بات درست نہیں بلکہ اس سے مراد ’جان‘ ہے۔ عربی میں جان کے لیے ’نفس‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو مونث ہے۔

چاہے وہ مرد ہویا عورت اور دفن کر دینے سے مراد یہ ہے کہ چونکہ مار دینے کے بعد آخر دفن ہی کیا جاتا ہے، اس لیے قرآن نے دفن کر دینے کا لفظ استعمال کیا۔

اکا دکا واقعات

مرزوق بن تنباک نے جو دعویٰ کیا ہے، اس پر ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ عربی نے اس حوالے سے بعض محققین کی آرا حاصل کی ہیں۔ ان میں سے ایک مصنف محمد سعد ہیں جنہوں نے ابن تنباک کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی روایت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس کے کوئی واضح اسباب ہمارے سامنے موجود ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ یہ سارے معاشرے میں سرایت کیے ہوئے نہیں تھی اور اگر کہیں ایسا کوئی واقعہ موجود بھی ہو تو وہ استثنائی واقعہ تو سکتا ہے لیکن اس کے واضح اسباب موجود نہیں ہیں۔

’اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ چلن جاہلی معاشرے میں بڑے پیمانے پر موجود تھا تو اس کا لازمی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عربوں کی آبادی میں کمی واقع ہوتی اور اسی طرح دونوں صنفوں (مرد، عورت) میں تعداد کے لحاظ سے واضح فرق آ جاتا اور یوں معاشرے میں شادی کا مسئلہ پیش آتا کہ شادی کے لیے لڑکیاں ہی کم تعداد میں موجود ہوتیں اور یہ مسئلہ لڑکیوں کے اغوا اور ان کی تجارت جیسے مزید جرائم کو جنم دیتا۔ ‘

’عار‘ ایک کمزور دلیل ہے

محمد سعد نے مزید کہا کہ عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو غیرت و عار کی وجہ سے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ یہ بہت کمزور دلیل ہے اور اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔

عہد نبوی میں جب وہ آیات نازل ہوئیں جن میں بچوں کے قتل سے منع کیا گیا تھا تو معاشرے کی طرف سے ان آیات کا کسی بھی قسم کا کوئی انکار سامنے نہیں آیا اور نہ ہی عہد نبوی میں کسی لڑکی کو زندہ درگور کرنے کا کوئی واقعہ ہم نے پڑھا ہے۔

حتیٰ کہ وہ قبائل جو اپنے آبائی ادیان پر قائم تھے، ان میں بھی ایسے کسی واقعے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ اگر یہ چلن اتنے بڑے پیمانے پر عام ہوتا تو ان کی تو نسل ہی ختم ہو جاتی اور مردوں اور عورتوں میں سے آج تھوڑے سے عرب موجود ہوتے۔ جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ عرب جب اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو اتنی بڑی تعداد میں نہیں تھے۔ (جتنا موجودہ دور میں ہیں۔)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محض معاشی سبب

محمد سعد نے بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کی جن آیات میں بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، عام طور پر ان میں اقتصادی وجہ ہی موجود ہےاور وہ غربت اور تنگ دستی ہے، خاص طور پر قحط سالی میں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی (اسراء:31)۔

اس آیت میں کسی صنف کا ذکر نہیں ہے کیوں کہ بچوں کو قتل معاشی وجہ سے کیاجاتا تھا کسی صنفی امتیاز کی بنیاد پر نہیں۔ اور لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جدید دور میں بھی جاری وساری ہیں اور آج کا انسان انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرکے بھی اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔

جنگوں میں قیدی بننے کا خوف

جمعیت فقہی کے رکن اور جامع محمد بن سعود میں علوم شرعیہ کے استاد سعود حنان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں لڑکیوں کےزندہ درگور کرنے کی وجہ غیرت وعار بیان کرتے ہیں جبکہ میرے نزدیک یہ وجہ بہت غیر منطقی ہے، اس لیے کہ نوزائیدہ بچی نے تو کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا ہوتا۔ ’عار‘ کا لفظ بذات خود تفصیل و توضیح کا تقاضا کرتا ہے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ایک جنگوں اور لڑائیوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں عار کا کیا مطلب تھا۔

دراصل ان معاشروں میں غیرت وعار کا تعلق براہ راست قبائل کی باہمی لڑائیوں سے جڑا ہوا تھا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اس میں قیدی بنائے جاتے تھے۔ اور یہ قیدی ان جنگوں اور زراعت پر قائم معاشروں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ غلاموں کی تجارت اس ریڑھ کی ہڈی کے لیے جدید عہد کی اصطلاح میں افرادی قوت تھی۔ تو اجتماعی غیرت کا تصور یہ تھا کہ باپ یہ سوچتا تھا کہ اس کی بچی یا اس کا خاندان حملہ آوروں کے ہاتھ لگ جائے گا اور انہیں غلام بنا لیے جائے گا تو غیرت وعار کا تعلق اس بات سے ہے کہ باپ کمزور ہے یا یہ کہ قبیلہ اپنے افراد کی حفاظت نہیں کر سکتا۔

جھوٹا قصہ

سعود حنان کے مطابق ایک قصہ مشہور ہے کہ ’خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب دور جاہلی میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے معاملے میں باقی لوگوں کی طرح تھے اور انہوں نے اسی جاہلیت کی بنیاد پر اپنی ایک بیٹی کو زندہ دفن کر دیا تھا۔ جب وہ اپنی بیٹی کو دفن کرنے لگے تو ان کی داڑھی کو مٹی لگ گئی اور ان کی بچی نے اپنا ہاتھ ان کی داڑھی پر پھیرا اور ان کی داڑھی کو مٹی سے صاف کر دیا۔ لیکن حضرت عمر نے اسے پھر بھی نہیں بخشا اور اسے زندہ دفن کر دیا۔‘

یہ بالکل بے بنیاد قصہ ہے، اس لیے کہ سب سے پہلے جس عورت سے حضرت عمر نے شادی کی، ان کا نام زینب بنت مظعون ہے، ان دونوں کے بچوں کے نام حفصہ، عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ حفصہ بعثت نبوی سے پانچ برس پہلے پیدا ہوئیں۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ حضرت عمر کی سب سے بڑی بیٹی تھیں تو انہوں نے بڑی بیٹی کو تو زندہ دفن نہیں کیا اور اس سے چھوٹی کو کیسے زندہ درگور کر دیا؟

انتقام کی وجہ سے

یہ ایک ایسی وجہ ہے جس کی طرف محقق اور تاریخ اسلامی کے استاد محمد الشیبانی نے اشارہ کیا ہے۔ ان کے مطابق عربوں میں قیس بن عاصم وہ پہلا شخص تھا جس نے بیٹیوں کو زندہ درگور کیا۔ وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ اسے اپنی بیٹیاں اپنے سے کمتر مرتبہ شخص سے بیاہنی پڑ جائیں۔ اس نے آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا۔

بیٹیوں کے قتل کا سبب بیان کرتے ہوئے الشیبانی نے کہا کہ نعمان بن منذر نے بنو تمیم پر اپنے لشکر کے ساتھ حملہ کیا اور ان کی عورتوں کو قیدی بنا کر لے گیا، تو قوم کے لوگ اس کے پاس گئے اور اس سے التجا کی کہ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔

نعمان بن منذر نے قیدیوں کو اختیار دیا کہ جو جانا چاہے چلی جائے۔ تو کچھ اپنے والد کے ساتھ اور کچھ اپنے شوہروں کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ ایک قیس بن عاصم کی بیوی نے اپنے قید کرنے والے کو پسند کیا تو قیس بن عاصم نے اس وقت قسم کھائی کہ اب سے اس کی جو بھی بیٹی پیدا ہو گی، وہ اسے قتل کر دے گا۔

الشیبانی نے مزید کہا کہ قیس بن عاصم نبی اسلام حضرت محمد کے پاس آیا اور کہا: ’میں نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹوں کو زندہ درگور کیا ہے۔ تو آپؑ نے اس کہا :ہر ایک کہ بدلے میں ایک غلام آزاد کرو۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ’اور جب زندہ درگور کی گئی سے پوچھا جائے۔ کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی۔‘ (تکویر:9-8)

سیاست شرعیہ کے ماہر خالد شایع نے ابن تنباک کی کتاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا، انہوں نے بہت فاش غلطی کی ہے۔ انہوں نے ایک ایسی بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے جس پر تمام اگلے پچھلے علما متفق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزوق ایک ایسے میدان میں اترے ہیں جس میں ان کی مہارت نہیں ہے۔ انہوں نے اہل ادب، شعر کے راویوں اور تاریخ کے ماہرین کی مخالفت کی ہے۔ جیسے وہ فرزدق کے اس شعر کو بھی نہیں مان رہے جس میں اس نے کہا ہے:

میرا دادا ہی وہ شخص ہے جس نے لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا اور زندہ درگور کی گئی کوزندہ کیا پھر اسے کبھی زندہ درگور نہ کیا گیا۔

خالد شایع کا یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک میں ایسی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شیطان نے انسانوں کو اس گھناونے فعل میں مبتلا کر دیا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔

مندرجہ ذیل آیت تو اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ وہ لڑکیوں کو اسی انداز میں مارتے تھے: ’اور جب زندہ درگور کی گئی سے پوچھا جائے۔ کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی۔‘ (تکویر:9-8)

یہاں زندہ درگور کی گئی سے مراد زندہ درگور کی گئی لڑکی ہے۔

اسلام نے اس روایت کا خاتمہ کیا

اسلامی محقق شیخ عبداللہ المہنا کے مطابق ’جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور اس کی وجہ غیرت وعاد تھی۔ جب اسلام آیا تو اس نے اس نظریے کا خاتمہ کیا اور کام سے روک دیا۔ اور اسے جاہلیت قرار دیا، اس کے مقابلے میں اسلام نے عورت کو ماں، بیوی بیٹی اور بہن کی شکل میں احترام سے نوازا اور یہ بتلایا کہ عورت معاشرے کی بنیاد ہے اور اسی پر بچوں کی تربیت کا دار ومدار ہے۔

قابلِ تحقیق مسئلہ

عرب کے ماقبل اسلام معاشرے میں لڑکیوں کے زندہ درگور کیے جانے پر خوب صورت تبصروں میں سے ایک سعد بن ناصر الششری کا ہے۔ وہ ابن تنباک کی کتاب پر برپا کی جانے والی مجلس انتقاد کے صدر بھی تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر ابن تنباک اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ عرب لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر ابن تنباک کی ذاتی رائے ہے جس سے ہم اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے اور یہ کوئی ایسا قطعی مسئلہ نہیں ہے۔‘

ایک اور خوب صورت تبصرہ داعی ڈاکٹر محمد نجیمی کا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’جو کچھ ڈاکٹر ابن تنباک نے کہا ہے وہ ممکن بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ وہ عرب میں قبل از اسلام لڑکیوں کے زندہ درگور کیے جانے کا انکار نہیں کرتے لیکن اس بارے میں ان کا ایک خاص نقطۂ نظر ہے۔ اگرچہ ہم ان سے اس بارے میں مکمل اختلاف رکھتے ہیں لیکن یہ ایسے معاملات ہیں جن میں اختلاف جائز ہے۔ ہمارے علما نے اس موضوع کو پڑھا اور مصنف سے اختلاف کیا اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں دو مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔‘


نوٹ: یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عربی پر شائع ہوئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ