سقراط کا زہر پیالہ اور لیاقت علی عاصم کی شاعری

معروف شاعر لیاقت علی عاصم کے انتقال پر خصوصی تحریر

لیاقت علی عاصم سرطان کے عارضے میں مبتلا تھے (تصویر: فیس بک)

ہم اب تک اس شش وپنچ میں ہیں کہ لیاقت علی عاصم کی یاد میں اس کالم کا آغاز کہاں سے کریں؟

ہم ان کے ساتھ پہلی ملاقات کے احوال سے بھی بات شروع کر سکتے ہیں، سقراط کے زہر پیالے اور لیاقت علی عاصم کے وجود کو خاک کردینے والے کینسر کے زہرکو بھی موضوع بنایا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ادبی حلقوں میں گردش کرنے والی ان زہر آلود تحریروں کا احوال بھی بیان کیا جا سکتا ہے جو سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں اور جب کوئی ادیب شاعر کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے تو اس کے علاج پر توجہ دینے کی بجائے ہم حکومت اور ادبی ادارو ں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔

افسوس کہ یہ بے پناہ اور خوددارشاعر بھی اپنی علالت کے دوران اسی قسم کی ادبی سفاکی کا شکارہو گیا۔

لیاقت علی عاصم سے ہماری پہلی ملاقات 90 کے عشرے میں ہوئی جب کراچی میں برادرم اوج کمال نے دنیائے ادب کے زیر اہتمام نئی نسل کے مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ اس مشاعرے میں ملک بھر سے نئی نسل کے شعرا کی بڑ ی تعداد کراچی پہنچی۔ کراچی آرٹس کونسل کے سبزہ زار میں منعقد ہونے والا یہ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا۔ اس مشاعرے میں ایک سرسری سی ملاقات کے بعد پھران کے ساتھ رابطے میں ایک طویل وقفہ آیا۔ اس دوران ہم لیاقت علی عاصم کو تسلسل کے ساتھ پڑھتے رہے، ان کے اشعار پرسردھنتے رہے اور ان کے ضرب المثل بن جانے والے اشعار دوستوں کو سناتے رہے۔

پھر ان کے ہی کسی شعر یاغزل کی بابت کئی برس پہلے انہیں فون کیا اوراپنا تعارف بھی کرایا۔ لیاقت علی عاصم نے بے تکلفی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ہمیں اپنی غزل سنا دی بلکہ جواب میں آرٹس کونسل والے مشاعرے میں ہم نے کئی برس قبل جوغزل پڑھی تھی اس کاایک شعرسنا کر بھی ہمیں حیران کر دیا۔

اب ہم ایک دوسرے کو کبھی کبھارفون کرنے لگے اوراشعار کا تبادلہ بھی ہونے لگا۔ اسی دوران فیس بک کا زمانہ آ گیا اور لیاقت علی عاصم کے ساتھ وہاں بھی رابطے کا ایک ذریعہ بن گیا۔ ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات کا بس ایک ہی موقع میسر آیا کہ جب 2015 میں اکادمی ادبیات کے زیراہتمام کراچی میں اہل قلم کانفرنس منعقدہوئی۔ لیاقت علی عاصم اس کانفرنس میں تو موجود نہیں تھے تاہم اسی کانفرنس کے دوران ایک شام معروف شاعر اقبال خاورنے اپنے گھر پر ایک شعری نشست کا اہتمام کر لیا۔ یہ شعری نشست لیاقت علی عاصم کے ساتھ ہماری پہلی اورآخری ملاقات قرار پائی لیکن یہاں بھی لیاقت علی عاصم ہمیں اس والہانہ اندازمیں ملے کہ جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔

لیاقت علی عاصم ایک حیران کردینے والے شاعر تھے۔ ان کے آٹھ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ 1970 میں پہلی کتاب ’سبد گل‘ منظرعام پرآئی۔ اس وقت لیاقت علی عاصم شادانی کے نام سے ادبی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ 1988 میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’آنگن میں سمندر،‘ 1996 میں ’رقص وصال،‘ 2008 میں ’نشیب شہر،‘ 2011 میں ’دل خراشی،‘ 2013 میں’ باغ تو سارا جانے ہے،‘ 2017 میں ’نیشِ عشق‘ اور انتقال سے ایک ہفتہ قبل ان کاشعری مجموعہ ’میرے کتبے پہ اس کا نام لکھو‘ منظر عام پر آیا۔ جبکہ ان کی شعری کلیات ’یک جان‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

یہ شعر لیاقت علی عاصم کی پہچان بن گیا۔

 لیاقت علی عاصم 14 اگست 1951 کو کراچی کے نواح میں واقع جزیرے منوڑہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کوکنی برادری سے تھا اور جزیرے میں اپنی پیدائش کا اظہار انہوں نے کچھ اس طرح سے کیا کہ اسے ’آنگن میں سمندر‘ کے نام سے اپنے ایک شعری مجموعے کا عنوان دے دیا۔

وہ ماہرلسانیات کی حیثیت سے اردو ڈکشنری بورڈ سے وابستہ ہوئے اور 1980 سے 2011 تک وہاں علم و ادب کی خدمت کرتے رہے اور اسی ادارے سے بحیثیت ایڈیٹرریٹائر ہوئے۔ ان سے پہلے اس عہدے پر نامور شاعر جون ایلیا فائز تھے۔

لیاقت علی عاصم نے بہت متحرک زندگی گزاری۔ وہ وفات سے چند ماہ پہلے تک کراچی کی ادبی سرگرمیوں اور مشاعروں میں بھرپور شرکت کرتے رہے۔ وہ اپنے طرز بیان کی بدولت پڑھنے اور سننے والے کو مسحور کر دیتے تھے۔ اس دلآویز شاعر کے چند اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں۔

۔۔۔۔

کھِلی کھِلی سی محبت ہرا بھرا دکھ ہے
مرے خدا یہ جدائی کمال کا دکھ ہے

ابھی سے دوست دعا دے رہے ہیں جینے کی
ابھی تو میں نے کہا بھی نہیں کہ کیا دکھ ہے

مجھے بتاؤ نہیں جھیلنے دو پھراک بار
میں جانتا ہوں محبت بہت بڑا دکھ ہے

۔۔۔۔

ہے تشنگی ہی ایسی کہ دریا دکھائی دے
آنکھیں کھرچ بھی دوں تو وہ چہرہ دکھائی دے

اس کی گلی میں خاک اڑائی ہے ایک عمر
صحرا کی کیا مجال کہ صحرا دکھائی دے

آنکھوں کے اس ہجوم میں گھٹنے لگا ہے دم
اے کاش کوئی دیکھنے والا دکھائی دے

۔۔۔۔

دلِ ناخوش کو مناتے ہوئے رہ جاتے ہیں
ہم کہیں جائیں تو جاتے ہوئے رہ جاتے ہیں

روز اک شکل نظر آتی ہے دروازے میں
روز دیوار اٹھاتے ہوئے رہ جاتے ہیں

۔۔۔۔

بے بسی کا زہر سینے میں اتر جاتا ہے، کیا
میں جسے آواز دیتا ہوں، وہ مرجاتا ہے کیا

۔۔۔۔

مجھے مناؤ نہیں، میرا مَسئلہ سمجھو
خفا نہیں، میں پریشان ہوں زمانے سے

۔۔۔۔

کیسا ہجومِ کوچۂ تنہائی تھا کہ میں
آگے بڑھا نہ دست و گریباں ہوئے بغیر

۔۔۔۔

شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایا ملے
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی

۔۔۔۔

کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ محبت کے شعر سنانے والا اور سقراط کے زہر پیالے کواپنی شاعری میں ایک نئی معونیت دینے والا خوبصورت لب ولہجے کایہ شاعر خود سرطان کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ گذشتہ روز کراچی میں ان کے دوست انہیں سپرد خاک کر آئے اور ہمیں ان کا یہ شعر بار بار یاد آتا رہا

حادثے ہو رہے ہیں، ہونے دو
میں بہت تھک گیا ہوں سونے دو

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب