دعوت دورۂ روس کی ملی، لیاقت علی خان امریکہ چلے گئے

لیاقت علی خان نے سوویت یونین کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی تو امریکی پاکستان کو بھی اہمیت دینے لگے حالانکہ وہ اس سے قبل بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔

امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے لیاقت علی خان کا استقبال کیا (پبلک ڈومین)

آٹھ جون 1949 کی شام پاکستان کے وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حکومت روس نے وزیراعظم پاکستان اور بیگم لیاقت علی خان کو روس آنے کی دعوت دی ہے اور وزیراعظم نے یہ دعوت قبول کر لی ہے، البتہ ابھی یہ طے نہیں پایا کہ وزیراعظم روس کے دورے پر کب تشریف لے جائیں گے۔

کوئی ڈھائی تین ہفتے پہلے لیاقت علی خان اپنی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مصر گئے تھے جس کے اختتام پر وہ دو ایک دن کے لیے تہران میں بھی رکے۔ تہران میں پاکستان کے سفیر راجہ غضنفر علی خان نے ان کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس کے دوران تہران میں متعین روسی ناظم الامور علی ایبو کی وزیراعظم لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان سے ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی۔

وینکٹ رامانی نے اپنی کتاب ’پاکستان میں امریکہ کا کردار‘ میں لکھا ہے: ’دو جون 1949 کو تہران میں سوویت ناظم الامور نے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خاں کو لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی سرکاری دعوت زبانی طور پر دی تھی۔ جس طریقے سے یہ دعوت آئی وہ قدرے غیر معمولی اور یقیناً عجیب و غریب تھا۔‘

’دو ہفتے پہلے جب پاکستانی وزیراعظم ایران کے دورے پر تھے، ایک سوویت سفارت کار نے بیگم لیاقت علی خان سے پوچھا تھا کہ آیا وہ اور ان کے شوہر سوویت یونین کا دورہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ بیگم صاحبہ کا جواب اثبات میں تھا۔ جب یہ دعوت موصول ہوئی تو کسی قدر غیر معمولی انداز ہی میں سہی، لیاقت علی خان نے فوراً اسے قبول کرلیا۔

بعد ازاں انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’پاکستان انتظار نہیں کرسکتا، اسے جہاں بھی دوست ملیں، قبول کر لینا چاہیے۔‘ بیگم لیاقت علی خان نے امریکی سفارت خانے کے ایک افسر سے کہا، ’ٹرومین نے تو ہمیں واشنگٹن کی دعوت دینے کے قابل نہیں سمجھا، لیکن سٹالن نے ہمیں ماسکو بلا لیا ہے۔‘

بیگم لیاقت علی خان کے اس فقرے کا پس منظر یہ تھا کہ ٹرومین نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔ جواہر لال نہرو عالمی سطح پر لیاقت علی خان سے کہیں زیادہ جانے جاتے تھے اور ایک دانشور اور مدبر کے طور پر بھی ان کی حیثیت لیاقت علی خان سے کہیں زیادہ تھی۔ لیاقت علی خان اس صورت حال کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور خواہاں تھے کہ ٹرومین انہیں بھی امریکہ آنے کی دعوت دیں، مگر ہوا یہ کہ ٹرومین سے پہلے انہیں سٹالن کی دعوت موصول ہو گئی۔

وینکٹ رامانی کے بقول: ’واشنگٹن نے اس خبر کو کسی اندیشے یا غصے کے بغیر وصول کیا۔ تاہم ایک ’دلچسپ اتفاق‘ یہ ہوا کہ جس دن سوویت ناظم الامور نے ایران میں پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کو لیاقت علی خان کے دورے کی دعوت دی، اس کے اگلے ہی دن امریکی محکمہ خارجہ نے 75 ایم ایم گولہ بارود کے دو لاکھ راؤنڈ پاکستان کو منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی، پاکستان کی یہ درخواست اپریل 1949 سے التوا میں تھی۔‘

وینکٹ رامانی نے لکھا ہے کہ ’پاکستان کو اس فیصلے کی اطلاع دینے کے بعد واشنگٹن یہ اعتماد کر سکتا تھا کہ پاکستان کے ہوش مند حکمران ہاتھ آئے ہوئے مال اور محض توقعات کے درمیان فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔‘

سٹالن نے لیاقت علی خان کے دورۂ ماسکو کے لیے 14 اگست 1949 کی تاریخ مقرر کی، مگر لیاقت علی خان نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس دن پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات منائی جائیں گی جن میں ان کی شرکت ضروری ہے اور اگر ممکن ہو تو اس دورے کو چند دن کے لیے موخر کر دیا جائے، مگر اب سوویت یونین کی جانب سے خاموشی چھا گئی اور سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ اور تہران میں پاکستان کے سفیر راجہ غضنفر علی خان کی کوشش کے باوجود سوویت حکام نے دورے کی اگلی تاریخ کا تعین نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے: بیگم رعنا، جن کی ٹکٹ فروخت کرنے کی ادا لیاقت علی خاں کو بھا گئی

لیاقت علی خان نے سوویت یونین کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی تو امریکی پاکستان کو بھی اہمیت دینے لگے حالانکہ وہ اس سے قبل بھارت کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے تھے۔ ان کے رویے میں یہ تبدیلی امریکہ میں پاکستان کے سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی نے بھی محسوس کی۔ سات ستمبر 1949 کو انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو ایک مکتوب تحریر کیا۔ یہ مکتوب اس تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ بڑی طاقتیں، اپنے مفادات کے پیش نظر، اپنا رویہ کس طرح تبدیل کرتی ہیں۔

مرزا ابوالحسن اصفہانی نے لیاقت علی خان کو لکھا تھا: ’آپ نے ماسکو کے دورے کی دعوت قبول کرکے حکمت عملی کا شاہکار نمونہ پیش کیا ہے۔ چند ماہ پہلے تک ہم لوگ (امریکی) محکمہ خارجہ کے درمیانے درجے کے حکام سے چند میٹھے بولوں کے سوا اور کچھ حاصل کرنے کے قابل نہ تھے۔ ہمیں تو بس اچھے لڑکوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا تھا، یعنی ایسے لڑکے جو نہ تو کمیونزم کی طرف آنکھ اٹھائیں گے اور نہ ہی بائیں بازو کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں گے۔

’ہمارے ملک کو سنجیدہ توجہ کے قابل سمجھاہی نہ جاتا تھا۔ دوسری طرف امریکی حکومت بھارت پر بہت زیادہ توجہ دیتی تھی۔ بھارت کو خوش کرنے کی خاطر وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھی، لیکن آپ کی طرف سے ماسکو کی دعوت قبول ہونے کے بعد پاکستان راتوں رات امریکی حکومت کی نظروں میں اہم ہو گیا۔ اب وہ یہ تاثر زائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ امریکہ بھارت کے معاملے میں جانبدار ہے۔ ہمارے شبہات دور کرنے اور ہمیں جتلانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں کہ ہمارے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے گا اور وہ توجہ دی جائے گی جس کے ہم مستحق ہیں۔‘

وینکٹ رامانی کے مطابق اصفہانی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ امریکی حکومت کے کس اہم رکن نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ یوں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش بھی ’محکمہ خارجہ کے درمیانے درجے کے حکام‘ ہی نے کی ہو گی، جو پہلے انہیں توجہ کے قابل نہ سمجھتے تھے۔ اعلیٰ حکام بدستور چین میں کمیونزم کی فتح، چین۔ سوویت بلاک کے ظہور کے جغرافیائی مضمرات اور سب سے بڑھ کر سوویت یونین کی طرف سے ایٹمی صلاحیت کے حصول کے نتائج کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔

بیگم لیاقت علی خان نے امریکی سفارت خانے کے ایک افسر سے کہا، ’ٹرومین نے تو ہمیں واشنگٹن کی دعوت دینے کے قابل نہیں سمجھا، لیکن سٹالن نے ہمیں ماسکو بلا لیا ہے۔‘

یکم اکتوبر 1949 کو ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا۔ پانچ اکتوبر 1949 کو پنڈت جواہر لال نہرو امریکہ کے دورے پر پہنچے، جس کا اہتمام امریکہ میں بھارت کی سفیر وجے لکشمی پنڈت نے، جو نہرو کی چھوٹی بہن بھی تھیں، کیا تھا۔

امریکہ حکام نے محسوس کیا کہ نہرو کا بنیادی مسائل کا تصور اور ان سے نمٹنے کے طریقے امریکیوں سے بالکل مختلف ہیں، وہ امریکی رہنماؤں کے لیے مایوس کن ثابت ہوئے۔ عوامی جمہوریہ چین کو جلد تسلیم کرنے کے بارے میں نہرو کے خیالات ایسے نہ تھے جو امریکی حکام میں جوش و خروش پیدا کرتے، اسی طرح کشمیر کے بارے میں بھارت کے مؤقف کی ولولہ انگیز وضاحت امریکی حکام کے نزدیک جذباتی اور نامعقول تھی۔

چار نومبر 1949 کو امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچی سن نے صدر ٹرومین کو مشورہ دیا کہ یہ مناسب ہو گا کہ لیاقت علی خان کو بھی امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی جائے۔ انہوں نے لکھا کہ ’پاکستانیوں کے حساس پن کا خیال کرتے ہوئے یہ بات بہت زیادہ پسندیدہ ہو گی کہ نہرو کے بدلے میں اب لیاقت علی خان کو بھی دورے کی دعوت دی جائے۔‘

ایچی سن نے یہ بھی لکھا کہ ’سرکاری دورے سے باہمی دلچسپی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقع ملے گا اور پوری مسلم دنیا میں مثبت تاثر بھی پیدا ہو گا۔‘

سات نومبر 1949 کو ٹرومین نے ایچی سن کی سفارش کی منظوری دی، اس کے صرف دو دن بعد کراچی میں پاکستانی حکام نے امریکی خبر رساں ایجنسی  یونائیٹڈ پریس کے نمائندے کو بتایا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کا دورہ ماسکو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ نمائندے کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خبر صرف بیرون ملک اشاعت کے لیے ہے۔

23 نومبر 1949 کو صدر ٹرومین نے امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جارج سی میگی کے ذریعے یہ دعوت باضابطہ طور پر لیاقت علی خان تک پہنچا دی، جسے پاکستان کے وزیراعظم نے 10 دسمبر 1949 کو منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔

لیاقت علی خان کے بارے میں یہ تحریر بھی پڑھیے: جب لیاقت علی خان نے سٹالن کی جانب سے دورۂ روس کی دعوت نظرانداز کر دی

چند ماہ بعد تین مئی 1950 کو پاکستانی وزیراعظم امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں واشنگٹن ڈی سی پہنچے، ان کی بیگم محترمہ رعنا لیاقت علی خان بھی ان کے ہمراہ تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم اور ان کی اہلیہ نے امریکہ کے دارالحکومت سمیت نو بڑے شہروں کا دورہ کیا، جن میں نیویارک، کیمبرج، شکاگو، کینساس سٹی، برکلے، لاس اینجلز، ہیوسٹن اور نیواورلینز شامل تھے۔ ہر جگہ پاکستانی وزیراعظم کا پُرجوش استقبال کیا گیا اور وزیراعظم نے ہر جگہ سادہ اور پروقار الفاظ میں اپنے ملک اور اس کی امنگوں کا اظہار کیا۔

انہوں نے اپنی تقاریر میں نہ تو سوویت۔امریکہ سرد جنگ کا کوئی حوالہ دیا اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے امریکہ اور آزاد دنیا کے ساتھ وابستہ ہونے کی خواہش کا کوئی خصوصی اشارہ دیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہاکہ پاکستان نے قائم شدہ حقیقت کو قبول کرتے ہوئے اور تجارت کے بہاؤ میں سہولت کے پیش نظر چین کو تسلیم کیا ہے اور یہ دنیا کے اس حصے میں فروغ پانے والی قوم پرستی کے ساتھ ان کا اظہار ہمدردی ہے۔ لیاقت علی خان کی تقاریر کا یہ مجموعہ ’پاکستان، دا ہارٹ آف ایشیا‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کا سرکاری دورہ 26 مئی 1950 تک جاری رہا۔ یہ دونوں جولائی 1950 کے پہلے ہفتے تک ذاتی حیثیت میں امریکہ میں مقیم رہے۔ تین جولائی 1950 کو وزیراعظم نیویارک سے لندن پہنچے، جس کے بعد وہ کینیڈا اور برطانیہ سے ہوتے ہوئے 12 جولائی 1950 کو تقریباً سوا دو ماہ بعد وطن واپس پہنچ گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ