راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آنند بخشی نغمہ نگار کیسے بنے؟

ہزاروں مقبول گیتوں کے خالق اور ’عوامی نغمہ نگار‘ کہلانے والے فلمی شاعر آنند بخشی کی سالگرہ پر خصوصی تحریر۔

آنند بخشی نے دل والے دلہنیا لے جائیں گے، شعلے اور بوبی جیسے بیسیوں مقبول فلموں کے گیت لکھے (یش راج فلمز)

نوجوان آنند بخشی کام کی تلاش میں ہی اداکار بھگوان دادا کے دفتر میں بیٹھے تھے، جو کسی کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہے تھے۔

پاکستانی شہر راولپنڈی میں آنکھ کھولنے والے آنند بخشی تقسیم کے بعد بھارت منتقل ہو گئے تھے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو فوج میں چلے گئے۔ لکھنے لکھانے کا شوق ابتدا سے ہی رہا تھا۔ جب ریڈیو سے کوئی گیت نشر ہونے سے پہلے یہ کہا جاتا کہ فلاں گیت کے فلاں نغمہ نگار ہیں تو آنند بخشی کے دل میں بھی یہ خواہش مچلتی کہ کسی دن ان کا نام بھی ایسے ہی نشر ہو۔

 نظمیں اور غزلیں لکھنے کی وجہ سے کسی نے مشورہ دیا کہ فلموں میں نغمہ نگاری کیوں نہیں کرتے؟ تو فوج کی نوکری چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔

ہر فلم ساز، ہدایت کار اور موسیقار کے در کی خاک چھانی لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ کئی بار سوچا کہ واپس دہلی جا کر کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کر دیتے ہیں لیکن نغمہ نگاری کا شوق ان کے پیروں میں جیسے زنجیر بن کر الجھ جاتا۔

1956 کی ایک دوپہر قسمت آزمانے ہی بھگوان دادا کے پاس گئے تھے۔ جو فلم ’بھلا آدمی‘ بنا رہے تھے۔

آنند بخشی نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ ’بھگوان دادا کس کا انتظار کر رہے ہیں، کیوں بار بار پہلو بدل بدل کر گھڑیال اور دروازے کی جانب دیکھ رہے ہیں؟‘

جواب ملا کہ ان کی فلم کے لیے نغمہ نگار نے آنا تھا لیکن اب تک پہنچا ہی نہیں۔ 28 سالہ آنند بخشی کے دل میں خیال آیا کہ یہی وہ لمحہ جب انہیں کچھ کرنا ہو گا۔ جبھی انہوں نے فریادی لہجے میں پوچھا، ’اگر میں گیت لکھ دوں تو؟‘

بھگوان دادا نے غیریقینی لہجے میں پوچھا، ’تم لکھ لو گے؟‘

آنند بخشی نے پرجوش لہجے میں ہامی بھری۔ بھگوان داد ا نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر آنند بخشی کو آنکھ کے اشارے سے اجازت دی۔

چار گیت ایک ہی نشست میں

آنند بخشی نے بھگوان دادا کا ’گرین سگنل‘ ملنے کے بعد کاغذ قلم سنبھالا اور وہیں کونے میں بیٹھ کر گیت لکھنے لگے۔ چند گھنٹوں کی محنت کے بعد انہوں نے ایک ہی نشست میں چار گیت لکھ ڈالے۔ جب بھگوان دادا کے سامنے رکھے تو انہوں نے پہلا سوال یہی کیا کہ ’کیا واقعی تم نے یہ لکھے ہیں؟‘

نثار بزمی کی حوصلہ افزائی

بھگوان دادا کی فلم ’بھلا آدمی‘ کے لیے موسیقی ترتیب دینے کے لیے نثار بزمی موجود تھے۔ ان کا ٹاکرا جب آنند بخشی سے ہوا تو انہوں نے گیتوں پر ان کی خاصی ہمت افزائی کی۔ نثار بزمی نے ایسی دلوں کو چھوئی ہوئی دھنیں ترتیب دیں کہ آنند بخشی کی قدر بھگوان دادا کی نگاہوں میں اور بڑھ گئی۔ بالخصوص آنند بخشی کا گیت’دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال‘ تو خاصا مشہور ہوا۔

اس کے بعد بھگوان دادا کی بیشتر فلموں کے گیت اب آنند بخشی ہی لکھتے۔ نغمہ نگار پاکستان آنے والے موسیقار نثار بزمی کے ہمیشہ ممنو ن رہے، جنہوں نے ان کی پہلی ہی فلم میں ان کے بولوں کے ساتھ انصاف کرکے آنند بخشی کو فلم نگری میں قدم جمانے کا موقع دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہر انٹرویو میں وہ نثار بزمی کا تذکرہ ضرور کرتے۔

سنیل دت کی سفارشی چھٹی

نغمہ نگار آنند بخشی پھر بھی کسی بڑے موقعے کی تلاش میں تھے جو انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دے۔ اس مقصد کے لیے دن رات وہ فلم سازوں کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے۔

اسی دوران سنیل دت جو ان کے دور کے رشتے دار بھی تھے، انہوں نے آنند بخشی کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے راج کپور کے پاس اپنی لکھی ہوئی ایک سفارشی چھٹی کے ساتھ روانہ کیا۔ راج کپور کے پاس تو آنند بخشی سے ملنے کا بھی وقت نہیں تھا لیکن ان کے سیکریٹری ہیرن کھیرا کو آنند بخشی کے گانوں میں کشش نظر آئی۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر وہ کبھی پروڈیوسر بنے تو آنند بخشی کو ضرور موقع دیں گے۔ پھر 1962 میں ایسا ہی ہوا، جب ہیرن کھیرا نے فلم ’مہندی لگی میرے ہاتھ میں‘ بنائی تو آنند بخشی سے گیت لکھوائے۔ ج

جب اس فلم کے گیت ہر جانب گونجے تو آنند بخشی کو ’کالا سمندر‘ اور ’ہمالہ کی گود میں‘ کے لیے بھی نغمے لکھنے کا موقع ملا۔

لیکن صحیح معنوں میں آنند بخشی کو 1965 کی میوزیکل رومنٹک فلم ’جب جب پھول کھلے‘ سے پہچان ملی۔ آنند بخشی کے گانوں ’پردیسیوں سے نہ آنکھیاں ملانا،‘ ’ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل،‘ ’نہ نہ کرتے پیار تمہیں سے‘ اور ’یہ سماں سماں ہے پیار کا‘ نے ہر جانب انہی کا چرچا کر آ گئے۔ بس پھر کیا تھا اس کے بعد تو جیسے آنند بخشی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

سب سے زیادہ نامزدگیاں

ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، انجان، شیلندر، حسرت جے پوری، راجہ مہدی علی خان، اندیور، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، گلزار، جاوید اختر اور دیگر نغمہ نگاروں کے درمیان آنند بخشی نے اپنی منفرد اور اچھوتی جگہ بنائی۔ ان کے بول انتہائی سادہ اور آسان ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ برملا کہتے تھے کہ وہ گیتوں میں شاعری نہیں بلکہ وہ زبان استعمال کرتے، جو ہیرو اور ہیروئن کی فلم میں ہوتی۔ آنند بخشی کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت شاعر نہیں بلکہ فلمی نغمہ نگار ہیں۔ آنند بخشی وہ بھارتی نغمہ نگار ہیں جن کی سب سے زیادہ 41 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈز کے لیے نامزدگیاں ہوئیں، 1968سے یہ سلسلہ شروع ہوا لیکن آنند بخشی کو1979 میں ’آدمی مسافر ہے‘ جیسے گیت پر پہلی بار ایوارڈ ملا۔

اس کے بعد انہوں نے ’اک دوجے کے لیے،‘ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ اور ’تال‘ پر یہ اعزاز ایوارڈ حاصل کیا۔

وہ مکھڑے جو ایسے ہی بنے

آنند بخشی نے فلم ’ملن‘ کا گیت ’ساون کا مہینہ پون کرے سور‘ لکھنے کے پس منظر بتایا کہ وہ اور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال پان کھانے کے لیے رکے تو وہاں ایک شخص ’شور‘ کو ’سور‘ کہے جا رہا تھا، وہیں سے انہیں اس لفظ کا آئیڈیا آیا۔

اسی طرح 1970 میں جب لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی ’آن ملو سجنا‘ کے لیے لاکھ کوششوں کے باوجود گیت نہ تیار کر سکے تو تھک ہار کر آنند بخشی نے کہا کہ ’اچھا تو ہم چلتے ہیں۔‘

جواباً لکشمی کانت بولے، ’پھر کب ملو گے؟‘ بس ان برجستہ مکالمے بازی سے گیت تخلیق ہوا۔

آنند بخشی پر ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ انہوں نے فلم ’کھل نائیک‘ کے لیے ’چولی کے پیچھے‘ لکھ کر بالی وڈ میں ذومعنی گیتوں کی بنیاد رکھی لیکن وہ اس گانے کو کسی صورت بازاری یا عامیانہ قرار نہیں دیتے تھے۔

ان کے مطابق اگر یہ گانا ایسا ہوتا تو ان کی بہترین نغمہ نگار کے لیے نامزدگی نہ ہوتی اور اسی طرح گلوکارہ الکا یاگنگ کو اسی گانے پر ایوارڈ بھی نہ ملتا۔ ہدایت کار مہیش بھٹ اپنی والدہ پر بننے والی فلم ’زخم‘ بنارہے تھے تو آنند بخشی گیت لکھ رہے تھے۔ مہیش بھٹ سے دریافت کیا کہ ان کے والد کب کب والدہ سے ملنے گھر آتے تھے۔ مہیش بھٹ نے انگریزی میں جواب دیا ’ونس ان دا بلیو مون‘ بس پھر کیا تھا، آنند بخشی نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس ایک جملے پر ’گلی میں آج چاند نکلا‘ نامی گانا لکھ ڈالا۔

جب جاوید اختر نے گیت لکھنے پر قلم مانگا

نغمہ نگار جاویداختر کہتے ہیں کہ 1974 میں جب فلم ’آپ کی قسم‘ کا گیت ’زندگی کے سفر‘ میں انہوں نے سنا تو اس کے ایک ایک بول پر گم ہو گئے۔ کسی تقریب میں آنند بخشی سے ملاقات ہوئی تو ان سے فرمائش کی کہ جس قلم سے انہوں نے یہ گانا لکھا ہے وہ انہیں بطور تحفہ دے دیں۔

اس پر آنند بخشی نے کہا، میں آپ کو یہ قلم نہیں دے سکتا کیوں یہ مجھے آشا بھونسلے نے تحفے میں دیا ہے، لیکن آپ کو قلم ضرور دوں گا۔‘

اگلے دن خوبصورت پیکنگ میں جاوید اختر کو ایک قیمتی قلم ملا، جسے آج تک انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔

30 مارچ 2002 کو دنیا سے رخصت ہونے والے آنند بخشی کے گیت کم و بیش ہر گلوکار نے گائے۔ ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فلمی گیت لکھنے والے آنند بخشی سے کسی نے ان پر یہ اعتراض کیا کہ انہوں نے شکتی سمانتھ، یش چوپڑہ اور سبھاش گھئی جیسے ہدایت کاروں کے لیے ہی بہترین اور نغمے لکھے جس پر آنند بخشی کا کہنا تھا کہ ان ہدایت کاروں نے انہیں اچھی رومانی اور جذباتی کہانیاں دیں، سچویشن دی، جنہیں سننے کے بعد میرے اندر سے ایک سے بڑھ کر ایک مکھڑے اور انترے نکلنے لگتے تھے۔

آنند بخشی کے دس نمائندہ گیت

  • چنگاری کوئی بھڑکے: امر پریم
  • چاند سی محبوبہ ہو مری کب ایسا میں نے سوچا تھا: ہمالے کی گود میں
  • کورا کاغذ تھا یہ من میرا: کورا کاغذ
  • میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟: کالا سمندر
  • اچھا تو ہم چلتے ہیں: آن ملو سجنا
  • تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم: دل والے دلہنیا لے جائیں گے
  • یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری: محبوب کی مہندی
  • روپ تیرا مستانہ پیار میرا دیوانہ: آرادھنا
  • یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں: دو راستے
  • یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے: کٹی پتنگ
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم