وہ گلوکار جس نے موسیقار نوشاد کو محمد رفیع کی یاد دلا دی

بالی وڈ کے موسیقارِ اعظم نوشاد اپنے پسندیدہ گلوکار محمد رفیع کی موت کے بعد پریشان تھے کہ ان کا ترتیب دیا گیا کلاسیکی گیت کس سے گوایا جائے۔

’تیری پائل میرے گیت‘ میں میناکشی اور گووندا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے (ویت راگ فلمز)

موسیقار اعظم نوشاد صاحب کے لیے یہ فلم بہت اہمیت رکھتی تھی، جس کی کہانی انہوں نے کئی برسوں کی محنت کے بعد لکھی تھی۔

یہ ایک ایسے گلوکار کی داستان تھی، جو ایک رقاصہ کے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا اور دونوں کی سنگت میں کچھ منفرد اور اچھوتا ہوتا چلا جاتا ہے لیکن پھر ڈرامائی موڑ دونوں میں لمبے فاصلے جنم لینے کا باعث بن جاتا ہے۔ گووندا اور میناکشی ششادری کو ہیرو اور ہیروئن کے طور پر پردہ سیمیں کی زینت بنایا جا رہا تھا۔

موسیقار نوشاد کو تلاش تھی اب اس میوزیکل فلم ’تیری پائل میرے گیت‘ کے لیے سریلے گلوکاروں کی۔ اپنی اس تخلیق کو کامیاب بنانے کے لیے انہوں نے لگ بھگ 12 برس بعد لتا منگیشکر تک کو راضی کرلیا تھا کہ وہ ان کی اس فلم کے لیے نغمہ سرائی کریں گی۔

دونوں کے درمیان 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’چمبل کی رانی‘ کے درمیان کچھ غلط فہمیاں ہوگئی تھیں، لیکن ’تیری پائل میرے گیت‘ کی کہانی اور موسیقی کو سمجھتے ہوئے نوشاد صاحب کو اندازہ تھا کہ ان کے گیتوں کے ساتھ کوئی گلوکارہ انصاف کرسکتی ہے تو وہ لتا منگیشکر کے علاوہ کوئی اور نہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نسوانی آواز میں ریکارڈ ہونے والے سبھی گانوں کے لیے لتا منگیشکر سے رابطہ بھی کرلیا تھا، جنہوں نے نوشاد صاحب سے پرانی رنجش کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں مایوس نہیں کیا۔

 ہدایت کاری کے فرائض نوشاد صاحب کے بیٹے رحمان نوشاد انجام دے رہے تھے، یہ ان کے کیریئر کی بطور ہدایت کار دوسری فلم تھی۔ نوشاد صاحب نے اپنی اس فلم کے لیے کم و بیش آٹھ منٹ کے ایک گیت کی دھن بھی ریکارڈ کی تھی۔ حسن کمال کی شاعری میں فلم کے ٹائٹل کو گیت کا موضوع بنایا گیا تھا اور اسی گانے کو لے کر نوشاد صاحب کو فکر یہ تھی کہ اسے کس گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کروایا جائے، جبکہ ’تیری پائل میرے گیت‘ میں اس کے علاوہ آٹھ اور گیت شامل تھے۔

اسی عرصے میں کسی نے نوشاد صاحب سے جنوبی بھارت کی فلموں کے گلوکار ایس پی بالا سبرامنیم کا ذکر کیا۔ نوشاد صاحب، ایس پی بالا کو جانتے تھے کیونکہ ’ایک دوجے کے لیے‘ اور ’میں نے پیار کیا‘ کے گانوں کی وجہ سے وہ بھارتی فلموں کے لیے بھی پس پردہ گلوکاری کرکے مشہور ہو چکے تھے، لیکن نوشاد صاحب کو چار بار بھارت کا قومی ایوارڈ حاصل کرنے والے ایس پی بالا کی صلاحیتوں پر پھر بھی اعتماد نہیں تھا۔

 

 نوشاد صاحب سمجھتے تھے کہ ان کے آٹھ منٹ کا گانا ہی فلم کا نچوڑ ہے، کیونکہ اس میں موسیقی کے مختلف سُروں اور راگوں کا بہترین انداز میں استعمال کیا گیا تھا، جو یقینی طور پر کسی بھی گلوکار کے لیے گانا آسان نہیں تھا۔ انہیں کسی ایسے منجھے ہوئے گلوکار کی تلاش تھی جو ان گانوں کے ساتھ واقعی انصاف کرسکے۔

 

ادھر پروڈیوسرپریم لالوانی اور بیٹے رحمان نوشاد کا دباؤ بڑھ رہا تھا کہ نوشاد صاحب جتنی جلدی ہو، تمام تر گیت ریکارڈ کروا لیں تاکہ وہ عکس بندی مکمل کریں۔ اسی لیے بہت سوچنے کے بعد انہوں نے ایس پی بالا سبرامنیم کو ہی آزمانے کا فیصلہ کیا۔

گانے کی ریکارڈنگ کا دن طے ہوا اور ایس پی بالا سبرامنیم ریکارڈنگ سٹوڈیو پہنچے تو نوشاد صاحب نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ گیت مشکل ہے، اسی لیے سازندوں سے کہا کہ اس گانے کی اچھی طرح ایس پی بالا سبرامنیم کو ریہرسل کروائی جائے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ فائنل ریکارڈنگ کا وقت آیا تو نوشاد صاحب نے ایس پی بالا سبرامنیم کی سہولت اور آسانی اور سب سے بڑھ کر گیت کی طوالت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ اس گانے کو دو حصوں میں ریکارڈ کریں گے، یعنی آدھا گانا پہلے اور پھر بعد میں آدھا۔

ایسے میں ایس پی بالا سبرامینم جو اس گیت کو سمجھ چکے تھے، نے التجا کرتے ہوئے نوشاد صاحب سے کہا کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پہلے پورے گیت کو ایک مرتبہ گا لیں تاکہ کچھ خامی ہو تو وہ سامنے آجائے۔ نوشاد صاحب نے کچھ سوچا اور ہامی بھرلی۔ اب ایس پی بالا سبرامنیم ریکارڈنگ روم میں مائیک کے سامنے تھے اور جیسے ہی نوشاد صاحب نے اشارہ کیا، انہوں نے گلوکاری کا آغاز کر دیا۔

ایس پی بالا سبرامنیم نے پہلے مکھڑا گایا، پھر پہلا انترا گایا پھر دوسرا، پھر سرگم آئے، انہیں بھی کمال خوبی سے ادا کیا۔ یہاں تک کہ اس کلاسیکل گیت، جس میں موسیقی کی کم و بیش تمام تر اصناف کا استعمال کیا گیا تھا، اسے بنا ڈگمگائے اور رکاوٹ کے ساتھ گاتے ہی چلے گئے اور طے شدہ وقت میں یہ گیت مکمل ہو چکا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر موسیقار نوشاد صاحب گم صم کھڑے تھے، جیسے وہ ایس پی بالا سبرامنیم کی گلوکاری کے سحر سے نکل ہی نہ پا رہے ہوں۔ دوسری جانب گلوکار منتظر تھے کہ نوشاد صاحب کے کیا تاثرات ہوتے ہیں، دل میں یہ بھی خدشہ تھا کہ نوشاد صاحب کو ان کی گلوکاری پسند نہ آئی ہو لیکن نوشاد صاحب نے چند سکینڈ تک بغورایس پی بالا کو دیکھا اور پھر پرجوش اور پرمسرت انداز میں گویا ہوئے کہ ’واہ۔ ۔ زبردست۔ لاجواب۔ ۔ تمہاری پہلی ہی ٹیک اب فائنل ہے۔ یہ گیت ایسے ہی جائے گا۔ اب کوئی اور ری ٹیک نہیں ہو گی۔‘ (یہ گیت یہاں کلک کر کے سنا جا سکتا ہے)

موسیقار نوشاد نے جب اگلے الفاظ ادا کیے تو وہ ایس پی بالا سبرامنیم کے لیے کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ایس پی بالا سبرامنیم نے پکے راگوں پر مبنی اس گیت کو اس مہارت اور خوبی سے گایا ہے کہ انہیں محمد رفیع کی یاد آ گئی، جس پر ایس پی بالا سبرامنیم کا چہرہ خوشی اور فخر سے سرخ ہوگیا۔ نوشاد صاحب نے صرف یہی گانا نہیں بلکہ ایس پی بالا سبرامنیم سے دو مزید گیت ریکارڈ کروائے اور یہ گانے بھی پانچ سے چھ منٹ طویل تھے۔

بدقسمتی سے موسیقار نوشاد صاحب کے بیٹے کو فلم مکمل ہونے میں لگ بھگ دو سال کا عرصہ لگا۔ 17دسمبر 1993 کو نمائش پذیر ہونے والی فلم ’تیری پائل میرے گیت‘ کمرشل اعتبار سے بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ اس فلم کے ٹائٹل گیت کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت جیسی طرز اور انداز پر 2007 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’بھول بھلیاں‘ میں موسیقار پریتم نے ’امی جے تمہار‘ ریکارڈ کیا، جسے شریا گھوشل اور ایم جی سری کمار نے گنگنایا لیکن جو بات فلم ’تیری پائل میرے گیت‘ کے ٹائٹل گیت کی رہی تو وہ اپنی مثال آپ اور منفرد تصور کی گئی۔

اور کیوں نہ ہوتا، اسے گانے والا بھی خاص تھا اور بنانے والے بھی موسیقار اعظم نوشاد تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم