کیا اورنگزیب عالمگیر گزر اوقات کے لیے ٹوپیاں سیتے تھے؟

مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں ضرور سیتے تھے مگر اس کا مقصد وہ نہیں تھا جو کورس کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔

اورنگ زیب کی شہرت ایک سخت گیر حکمران کی ہے (پبلک ڈومین)

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ہندوستان پر تقریباً 50 برس تک پوری شان و شوکت سے حکمران رہنے والے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اپنے ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹوپیاں بیچا کرتے تھے۔ روایات کے مطابق یہ ٹوپیاں وہ امور سلطنت کی ادائیگی کے بعد فارغ اوقات میں سیتے بھی خود ہی تھے۔

اپنے وقت کے مطلق العنان بادشاہ اورنگزیب کی شخصیت پر درویشی کا ملمع چڑھانے کے لیے گھڑی گئی یہ کہانی آج بھی ہمارے معاشرے میں سنی اور سنائی جاتی ہے اور اس پر کوئی یہ سوال تک نہیں پوچھتا کہ ایک طرف اتنی شان و شوکت سے بھرپور بادشاہت اور دوسری طرف ٹوپیوں کی سلائی اور فروخت سے دال روٹی کا بندوبست، آخر یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کیسے ممکن ہو سکتی ہیں؟

تاریخ کو جدید پیمانوں پر پرکھنے والے زیادہ تر مورخین اورنگزیب عالمگیر کی شخصیت سے وابستہ اس کہانی کو مسترد کرتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم مغلیہ دور پر سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ منسوب یہ کہانی نہ صرف من گھڑت اور بےبنیاد ہے بلکہ عقل انسانی کے بھی خلاف ہے۔‘

جب ان کے سامنے سوال رکھا گیا کہ روایات کے مطابق اورنگزیب ریاستی امور کی انجام دہی پر شاہی خزانے سے خرچ کرتے جبکہ اپنے ذاتی اخراجات کے لیے وہ ٹوپیوں اور قرآن کی کتابت سے حاصل ہونے والی رقم استعمال کرتے تھے؟

اس پر ڈاکٹر انجم نے کہا کہ ’برصغیر میں جدید ریاستوں کے قیام سے پہلے شاہی ادوار میں حکومتی اخراجات اور حکمرانوں کے ذاتی اخراجات کے لیے الگ الگ انتظامات کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بادشاہِ وقت شاہی خزانے کا مالک سمجھا جاتا تھا اور وہ اس میں سے جیسے چاہے اور جتنا چاہے خرچ کرتا اور یہی معمول اورنگزیب عالمگیر کا بھی تھا۔‘

ڈاکٹر فراز انجم کے مطابق مستند تاریخی دستاویزات میں اورنگزیب کے بچوں کی شاہانہ دھوم دھام اور کروفر سے شادیوں کا ذکر موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی شاہانہ تقریبات کے اخراجات اس دور میں بھی کم از کم ٹوپیوں کی سلائی یا قرآن پاک کی کتابت سے ملنے والی جائز رقم سے پورے نہیں کیے جا سکتے تھے۔ اس کے لیے ٹیکسوں اور عوام کے پیسے سے بھرنے والے شاہی خزانے کا بےدریغ استعمال ضروری تھا، جو کیا گیا۔‘

ڈاکٹر فراز انجم کے مطابق اورنگزیب عالمگیر نے اپنی عمر کے آخری حصے میں قرآن پاک کی کتابت اور نماز کے لیے ٹوپیوں کی سلائی کا کام ضرور کیا تھا، تاہم اس کا مقصد محض وقت گزاری یا خدا سے قربت کا حصول تھا، روزی روٹی کا بندوبست ہرگز نہیں۔

امریکی مورخ آڈرے ٹرشکی بھی اسی نقطۂ نظر کی حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ‘ پر اس بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ’اورنگزیب اپنی عمر کے آخری حصے میں قرآن پاک کی کتابت اور عبادت کے لیے مخصوص ٹوپیوں کی سلائی جیسے نیک کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ وہ ایک پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتے تھے۔‘

 ڈاکٹر ٹرشکی کے مطابق بھی اس عمل کا مقصد محض نیکی کا حصول تھا، ذریعۂ معاش نہیں۔

اورنگ زیب کی عمر کے آخری دور، یعنی ان کے مرنے سے سات سال 1700 میں بنائی جانے والی ایک پینٹنگ سے بھی اورنگ زیب کی فقیری کے تاثر کی نفی ہوتی ہے۔ اس پیٹنگ میں وہ انتہائی شاہانہ انداز میں تمام تر مغلیہ شان و شوکت کے ساتھ طلائی تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے عمال بھی اعلیٰ ترین لباس اور زیورات سے مزین ہیں۔ 

مغل دور حکومت پر ایس ایم جعفر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’دی مغل ایمپائر، فرام بابر ٹو اورنگزیب‘ میں اورنگزیب کی شخصیت اوراس کے دور حکومت پر تین طویل ابواب لکھے ہیں۔

ایس ایم جعفر کے مطابق اورنگزیب کی تاجپوشی پانچ جون 1659 کو پورے شاہی جاہ و جلال کے ساتھ ہوئی اور اس تقریب میں شاہی خاندان اور خاص درباریوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق تاجپوشی کے موقعے پر شہزادی بادشاہ بیگم کو پانچ لاکھ، شہزادی زیب النسا کو چار لاکھ اور شہزادی بدر النسا کو ایک لاکھ 60 ہزار روپے کی خطیر رقم تحفے میں دی گئی۔

اس موقعے پر شہزادوں پر بھی دھن کی بارش ہوئی۔ شہزادہ محمد سلطان کو تین لاکھ روپے، زیورات اور ہاتھی، جبکہ شہزادہ محمد اعظم اور شہزادہ محمد معظم کو دو دو لاکھ روپے عطا کیے گئے۔

اتنی خطیر رقوم جو اورنگزیب نے اپنے خاندان پر لٹائیں، کسی صورت بھی ٹوپیاں بیچ کر حاصل نہیں ہو سکتی تھیں، لہٰذا اس واقعے سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذاتی اخراجات ٹوپیوں اور قرآن کی کتابت سے پورے کرنے کی روایت ضعیف بلکہ سرے سے بےبنیاد ہے۔

اس کتاب میں مصنف نے اورنگزیب کی زندگی اور دور حکومت کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ حتیٰ کہ اس پر مذہبی تعصب، شدت پسندی اور مندروں کو گرانے جیسے الزامات کا بھی انتہائی مدلل جواب دیتے ہوئے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ اورنگزیب اگرچہ اپنے پیشرو مغل حکمرانوں کی نسبت مذہب سے زیادہ قریب تھے، تاہم اس پر لگائے جانے والے ہندو دشمنی اور شدت پسندی کے الزامات اس دور کے زمینی حقائق اور واقعات کے غلط تجزیے کا نتیجہ ہیں۔

لیکن اس جامع اور تاریخی لحاظ سے مستند کتاب میں اورنگزیب کے ٹوپیاں سی کر ذاتی اخراجات پورے کرنے کا ذکر تک نہیں ہے۔

آخر میں ایک حوالہ ایسی کتاب کا دینا ضروری ہے جس میں اورنگزیب عالمگیر کے ٹوپیاں سینے اور انہیں درباریوں کے ہاتھ بیچنے کا تذکرہ موجود ہے۔ ’انڈین ٹریولز آف تھیوناٹ اینڈ کاریری‘ نامی اس کتاب کے مصنف سریندر ناتھ سین ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اپنی کتاب میں اورنگزیب کے دور میں ہندوستان کا دورہ کرنے والے فرانسیسی سیاح ژاں ڈی تھیوناٹ اور اطالوی سیاح جان فرانسس کاریری کے تجربات کا احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب میں سین فرانسیسی سیاح کاریری کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب ہر شخص کے لیے اپنا رزق خود کمانا ضروری سمجھتے تھے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے خود بھی عبادت کے لیے مخصوص ٹوپیاں سینا شروع کیں۔ وہ یہ ٹوپیاں اپنی سلطنت کے گورنروں کو پیش کرتا اور اس عزت افزائی کے جواب میں متعلقہ گورنر بادشاہ کو ’ہزاروں روپے‘ تحفے کی صورت بھجواتے۔‘

جی ہاں، تقریباً ساڑھے تین سو سال پہلے ایک ٹوپی کا ’ہدیہ‘ ہزاروں روپے۔

یعنی شہنشاہ معظم اپنے نصف صدی کے اقتدار کے بڑے حصے میں اس دور کے طریقہ کار کے عین مطابق شاہی خزانے کا بےتحاشا استعمال کرتے رہے اور اطالوی سیاح فرانسس کاریری کے مطابق جب اپنی عمر کے آخری حصے میں انہیں اپنے ہاتھ سے محنت کرنے کا شوق چرایا تو امرا ظلِ الٰہی کی خوشنودی کے لیے ایک ایک ٹوپی کے بدلے ہزاروں روپے کی بارش کر دیتے۔ یوں بادشاہ سلامت کےاندر اچانک بیدار ہونے والے جذبہ خودداری کی تسکین بھی ہو جاتی اور ’اپنے ہاتھ سے کمائی گئی‘ بھاری رقم بھی میسر آ جاتی۔

گو کہ تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ اورنگزیب اپنے پیشرو مغل بادشاہوں کے برعکس ایک عیاش حکمران ہرگز نہیں تھے، تاہم ٹوپیاں بیچ کر گزر بسر کرنے والی کہانی بھی ایک ایسا مفروضہ ہے جو مستند تاریخی حوالوں کی کسوٹی پر ہرگز پورا نہیں اترتا۔

جھوٹ بظاہر کتنا ہی بے ضرر کیوں نہ ہو جھوٹ ہی ہوتا ہے اور اگر کسی قوم کو جھوٹی عظمت کی خیالی دنیا میں رہنے کی عادت ہو جائے تو پھر وہ قوم حقیقی دنیا میں کہیں کی نہیں رہتی۔ غور کیجیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ