پیر روشان: مغلوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے پشتون لیڈر

پیر روشان کے جسد خاکی، تدفین اور تابوت کا واقعہ بھی ایک طویل داستان ہے اور اس حوالے سے مختلف باتیں رائج ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے تاریخی شہر کانی گرم کو شہرِ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کی خوش قسمتی ہے کہ اولیائے کرام نے اسے اپنا مسکن بنایا۔ یہاں ایسے کئی بزرگ اور اولیاء کے مزارات ہیں، جن سے نہ صرف موجودہ پاکستان بلکہ افغانستان اور بھارت تک کے لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔

ان بزرگوں اور تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام 'پیر روشان' یا 'پیر روخان' کا ہے۔ پیر روشان کا اصل نام بایزید تھا لیکن ان کے مریدوں اور چاہنے والوں نے ان کی دینداری کی وجہ سے انہیں 'پیر روشان' یعنی روشن اور منور پیر (بزرگ) کا نام دیا اور یہی نام تاریخ کے صحفے پر روشن ہوا۔

پیر روشان نہ صرف کانی گرم بلکہ پشتون تاریخ کا روشن ستارہ ہیں۔ پشتونوں کو سب سے پہلے ادبی، سیاسی اور تحریکی شعور پیر روشان نے ہی دیا۔

پیر روشان 1525 میں بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام شیخ عبداللہ تھا۔ ان کے خاندان نے پنجاب سے ہجرت کی اور جنوبی وزیرستان کے شہر کانی گرم میں سکونت اختیار کی۔ ان کا تعلق باراک قبیلے سے تھا، جو برکی اور اڑمر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

پیر روشان دینی گھرانے سے تعلق کی بنا پر صوفی ازم کی طرف میلان رکھتے تھے اور اپنا ایک خاص نقطہ نظر اور مضبوط صوفی سوچ رکھنے میں شہرہ رکھتے تھے۔ وہ ایک بہادر جنگجو، شاعر اور ادیب تھے۔

انہوں نے پشتون قوم کی تحریک 'تحریکِ روشانیہ' کی بنیاد رکھی جس نے مغلوں کے مظالم کے خلاف جہاد شروع کیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مغل حکومت پشتونوں پر ظلم کر رہی ہے تو سب سے پہلے انہوں نے سپہ سالاری کی اور مغل لشکر کو شکست دی۔ یہ تحریک بعد ازاں ان کے بچوں اور پوتوں میں ڈیڑھ صدی تک جاری رہی۔

مغل حکومت نے جب دیکھا کہ پیر روشان کا دو بدو مقابلہ انتہائی مشکل ہے تو انہوں نے تحریک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے تیموری نسل کے پیر سید علی المعروف پیر بابا سے مدد مانگی، جنہوں نے مغلوں کو لبیک کہا اور ان اپنے مرید آخوند درویزہ کو پیر روشان کے خلاف اٹھ کھڑا کیا جو پیر روشان پر طرح طرح کے الزامات اور فتوے لگا کر پشتونوں کو ان سے بدظن  کرتا رہا۔

آخوند درویزہ نے پیر روشان کو 'پیر تاریک' کا نام دے کر انہیں گمراہ قرار دیا اور کئی سالوں تک نظم و نثر کے ذریعے یہ مقابلہ جاری رہا۔ آخر کار پیر روشان کو اشنغر سے گرفتار کرکے کابل کی ایک جیل میں قید کردیا گیا، لیکن اپنی سیاسی اور علمی بصیرت کی بنا پر انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا اور رہائی کے بعد واپس آکر دوبارہ مغلوں کے خلاف جہاد شروع کردیا۔

ایک طرف مغل جدید اسلحے اور کثیر فوج کے ساتھ تھے تو دوسری طرف خالی ہاتھ پشتون تھے۔ یہ لڑائیاں  طویل عرصے تک جاری رہیں اور آخر کار مغل کو 'تور راغہ' کے مقام پر موقع مل گیا اور  پیر روشان اپنے 56 ساتھیوں سمیت قتل کردیے گئے۔

ان کے بعد تحریک کو ان کے صاحبزادے جلال الدین نے پروان چڑھایا۔ جلال الدین کے بعد ان کے نواسے احداد اور پھر احداد کے بیٹے عبدالقادر نے اس تحریک کو  سنبھالا۔ اس طرح یہ تحریک ایک ڈیڑھ صدی تک مغلوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی رہی۔

مغل فوج پیر روشان کا جسد خاکی اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی تاکہ ان کا نام و نشان مٹ جائے لیکن ان کے مریدوں نے سر دھن کی بازی لگائی اور جسد خاکی لے جانے نہیں دیا۔

مختلف داستانیں

پیر روشان کے جسد خاکی، تدفین اور تابوت کا واقعہ بھی ایک طویل داستان ہے اور اس حوالے سے مختلف باتیں رائج ہیں۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ وفات کے بعد آپ کی تدفین ہشتنغر کے علاقے  'کل پانڑیئ' میں ہوئی، وہاں سے پھر تابوت نکالا گیا اور ان کے مرید جہاں جاتے تابوت ساتھ لے کر جاتے، حتیٰ کہ کئی جنگوں میں بھی ساتھ لے جایا گیا۔ اسی طرح ایک جنگ کے موقع پر تابوت دریا میں گر گیا۔ اس کے بعد تابوت اور قبر کے بارے میں کوئی ایک متفقہ رائے موجود نہیں۔

ایک واقعہ یہ مشہور ہے کہ دریا سے اٹھائے جانے کے بعد تابوت جلال الدین اپنے ساتھ داوڑ قوم کے علاقے 'بیتور' لے گئے اور وہاں اپنے خاندان کی قبروں کے ساتھ دفن کردیا۔ حالنامہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔

ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ ان کی قبر میر علی کے علاقے 'عیدک' میں ہے۔ زیادہ تر رجحان اس طرف ہے اور ڈاکٹر میر ولی خان نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ لیکن دوسری طرف کانی گرم کے مقامی لوگ کہتے ہیں یوسفزئی کے ساتھ آخری معرکے میں  ان کا سر اور دھڑ الگ ہوگئے تھے، جس کی بنا پر دھڑ کو کہیں اور دفن کیا گیا اور سر کو کانی گرم لے آئے اور یہیں دفن کیا، جس کی بنا پر وہ مقام 'سر یَک' یعنی 'ایک سر' کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ اس قول کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ آخوند درویزہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ آپ کے سر کو کانی گرم لے گئے۔ اسی طرف ڈاکٹر اختر خان نے بھی اپنی کتاب میں سریک کی طرف اشارہ کیا ہے۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے سر یک میں جہاں پیر روشان کا سر دفن ہے اور اس پر قبر بھی بنائی گئی ہے، وہ ایک پہاڑ کے دامن میں ایسی جگہ ہے جس کو ایک صدیوں پرانے درخت سے پہچانا جاتا ہے، جسے کافی جھاڑیوں اور جنگلی گھاس نے گھیر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ باڑہ تناول سے کچھ فاصلے پر دریا کے کنارے ایک مزار ہے، جہاں اب بھی ایک ملنگ بیٹھا ہوتا ہے، جو خود کو مسکین کہتا ہے۔ اس حوالے سے بھی مشہور ہے کہ یہاں پر دریا سے ایک بے سر جسم نکال کر دفن کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پشاور کے ساتھ واقعے ایک محلے کوٹلہ محسن خان میں مغلوں کی طرز پر ایک مقبرہ بنایا گیا ہے، جہاں پانچ قبریں ایک ساتھ جبکہ دو قبریں ایک ساتھ ہیں، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پانچ قبریں پیر روشان کے بیٹوں اور یہ دو قبریں پیر روشان اور ان کی بیوی بی بی شمسو کی ہیں، جس کا حالنامہ میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 واضح رہے کہ بی بی شمسو کی وفات پیر روشان کے کافی عرصے بعد ہوئی تھی  اور پیر روشان کے پانچوں بیٹوں کی قبریں ایک ساتھ ہونا بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح سوات میں بھی پیر روشان کی قبریں بنائی گئی ہیں، جس کا بھی حالنامہ میں کوئی ذکر نہیں ملتا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مرید ہر جگہ بے شمار تھے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیر روشان کے خاندان کا ایک قبرستان ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے جس میں شیخ عمر کا بیٹا 'احداد' دفن ہے۔

بہرحال ان کی قبر ایک معمہ ہے۔ تاریخ دانوں کو چاہیے کہ اس کو حل کریں اور پیر روشان کی قبر کی صحیح نشاندہی کریں۔

پیر روشان کو پشتونوں کا لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن مطالعہ پاکستان میں انہیں کہیں جگہ نہیں دی گئی۔

پیر روشان خود عالم فاضل اور ادیب تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، جن میں 'خیر البیان، توحید، مقصود المومنین اور حالنامہ' مشہور ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے مریدین حالنامہ میں اضافہ کرتے رہے اور ان کے حالات زندگی تحریر کیے۔  اسی طرح 'نفحات الابرار' پیر روشان کے چچا زاد بھائی میاں منصور نے لکھی ہے، اس میں بھی پیر روشان کے مختلف حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

پیر روشان کے مرید ہزاروں میں تھے، جن میں داوڑ، وزیر، اورکزئی، آفریدی اور یوسفزئی قبائل وغیرہ شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا