ملکہ کے بغیر آئندہ کے 70 سال کیسے ہوں گے؟

دی انڈپینڈنٹ کے صحافی ہمش مک رائے کے مطابق وہ پانچ چیزیں جو غالباً برطانیہ کے تخت پر بادشاہ جارج  ہفتم کے تخت نشین ہونے تک ہو چکی ہوں گی۔

لندن، 2 جون، 1953: برطانیہ کی ملکہ اپنی تاج پوش کی تقریب میں شہزادہ فلپ کے ہمراہ۔ (تصویر: اے ایف پی)

ملکہ الزبتھ دوئم کے دور حکومت کے گزشتہ 70 برسوں میں برطانیہ کی معیشت میں غیر معمولی تبدیلی دیکھی گئی لیکن مجموعی طور پر دنیا میں اس سے بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

برطانیہ کے قومی سوگ کا یہ وقت غور و فکر کا ایک موقع ہے لیکن یہ اس بارے میں سوچنے کا موقع بھی ہے کہ اگلے 70 برس میں کیا ہوگا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی معیشت کی کہانی اتنی بار بتائی جا چکی ہے کہ اس کی صرف اہم باتیں ہی یاد رکھی جا سکتی ہیں۔

مخصوص معاشی مسائل میں مینوفیکچرنگ کا زوال، جنگ کے دوران جمع شدہ قرضوں کے طویل سائے، سروس اکانومی میں تبدیلی، سلطنت کا خاتمہ، یورپی یونین میں شمولیت اور انخلا، اور بہت کچھ۔

وسیع تر سماجی و معاشی تبدیلیوں کی بات کریں تو ان میں انسان کی متوقع زندگی میں اضافہ، افرادی قوت میں خواتین کی تعداد میں اضافہ، اعلیٰ تعلیم کی ترقی اور سماجی رویے شامل ہیں۔

اگر کسی کو 1950 کی دہائی یاد ہو تو یہ تبدیلیاں بہت بڑی لگتی ہیں۔ نوجوان ملکہ کی تصاویر اس وقت کے عام لوگوں کی غربت کو اجاگر کر رہی ہیں؛ بادشاہ کی چمک دمک اور اس کے ارد گرد اس کی رعایا کی خستہ حالی کے درمیان تصادم بھی نظر آتا ہے۔ لیکن اگر برطانیہ آج اتنا مختلف ہے، تو یہاں کی تبدیلیاں ان تبدیلیوں سے کم ہیں جو دنیا میں کہیں اور رونما ہوئی ہیں۔

ان تبدیلیوں میں سب سے واضح طور عالمی معیشت کا توازن نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتوں، خاص طور پر چین اور حال ہی میں انڈیا کی طرف رہا ہے۔ چین اب امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گذشتہ سال دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔

روس یوکرین پر حملہ کرکے اس وقت اپنا غصہ دکھا رہا ہے لیکن 1950 کی دہائی میں مشرقی اور وسطی یورپ کے بیشتر علاقوں پر اس کا کنٹرول تھا۔ روایتی حساب کتاب کے مطابق یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت تھی۔ اب یہ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے درمیان گیارہویں نمبر پر ہے۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں دیکھ سکتے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں ایم جی سپورٹس کاریں انگلینڈ میں آکسفورڈ کے قریب شہر ایبنگٹن میں بنائی جاتی تھیں۔ اب نئی اور بظاہر بہترین الیکٹرک ایم جی کاریں چین میں بنائی جاتی ہیں۔ امریکہ اور چین نے مواصلات اور سماجی نیٹ ورک کے انقلابات سے پیدا ہونے والی خرابیاں بھی آپس میں تقسیم میں کی ہیں۔ امریکہ نے گوگل اور فیس بک ایجاد کیے لیکن چین نے ٹک ٹاک بنائی۔

اور پھر ہمارے خدشات بھی بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے 1952 میں ماحولیاتی خدشات زیادہ تر فضائی آلودگی کے بارے میں تھے۔ اسی سال دسمبر کے دوران لندن میں ہونے والی سموگ سے کم از کم آٹھ ہزار افراد ہلاک اور اس کے نتیجے میں 1956 کا کلین ایئر ایکٹ بنا۔ آج ہماری تشویش موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھ کر ہے۔

لیکن اب آگے دیکھیں اور اگلے 70 برسوں کے متعلق سوچیں۔ مستقبل کے بارے میں کچھ بہترین کام طبی جریدے دی لانسیٹ میں کیا گیا ہے جس نے گذشتہ سال 2100 کے متعلق کچھ پیش گوئیاں شائع کی تھیں۔ کچھ اہم نکات میں یہ امکان بھی شامل ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھنا بند ہوچکی ہوگی اور شاید کم ہونا شروع ہو گئی ہوگی، امریکی معیشت ایک بار پھر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گی اور برطانیہ صدی کے آخر تک کافی کامیاب رہا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دنیا طویل مدت کے دیگر تخیموں سے بھری پڑی ہے (خود میں نے بھی اس ڈھیر میں اضافہ کیا ہے) اور غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ان  پر مکمل طور پر یقین نہ کریں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ برطانیہ میں جارج ہفتم کے تخت نشین ہونے تک یہ پانچ چیزیں غالباً ہوچکی ہوں گی۔

ایک یہ کہ دنیا کی آبادی میں کمی آنا شروع ہوچکی ہوگی جس کی وجہ سے ہر طرح کی سماجی اور رویے کی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔

دوسرا، دنیا موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹ چکی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے اچھی طرح نمٹا جا چکا ہوگا، اگرچہ مجھے پوری امید ہے کہ ایسا ہوگا۔  بلکہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا اور ممکنہ طور پر تباہ کن مسئلہ ہے کہ دنیا کے پاس اس سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

تیسری تبدیلی، ٹیکنالوجی کی ترقی جاری ہوگی اور یہ توازن کےساتھ زیادہ تر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بھرپور زندگی گزارنے کے قابل بنائے گی۔ اس وقت فی کس زیادہ جی ڈی پی کا معاملہ نہیں ہوگا۔ بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود یعنی ان کی صحت، طویل العمری، سماجی ہم آہنگی کو زیادہ اہم سمجھا جائے گا۔

چار، دنیا کو متوسط طبقات چلا رہے ہوں گے، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں، اور ان کی اقدار سے معاشرے تشکیل پائیں گے۔ اس وقت عالمی متوسط طبقے کی اکثریت ترقی یافتہ ممالک میں رہتی ہے لیکن یہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ مختصراً، مغرب اب بھی عالمی رویوں پر حاوی ہے۔ لیکن جیسا کہ معلومات تک رسائی کے ساتھ تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد میں توازن یورپ اور شمالی امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے، حالات دوسری طرف منتقل ہوجائیں گے۔

اور آخر میں میں سمجھتا ہوں کہ نظام حکمرانی جمہوریت ہی کی کسی جہت میں ہو گا جس کی دنیا کے اکثر لوگ خواہش رکھتے ہیں۔  اگر لوگ یہی چاہتے ہیں تو وہ اسے حاصل کر لیں گے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اگر متحد رہا تو وہ بھی بادشاہت برقرار رکھنا چاہے گا؟ میرے خیال میں اس کا جواب ہوگا، ہاں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ