موٹر سائیکل سوار لڑکیاں اور ہماری غیرت

’یہ سب غیرملکی فنڈنگ پر پلنے والی این جی اوز کا کیا دھرا ہے۔ وہی خود مختاری کے نام پر ہماری خواتین کو تمام حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتی ہیں‘

(اے ایف پی)

’ان بوڑھی آنکھوں کو بس یہی دیکھنا رہ گیا تھا،‘ ایک بزرگ شخص نے تاسف سے کہا۔ ’میں تو بس اتنا کہوں گا کہ لڑکیاں مغرب کی نقالی میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں،‘ ساتھ کھڑے ایک نوجوان نے اپنے انداز میں ان کی تائید کی۔ ’یہ سب غیرملکی فنڈنگ پر پلنے والی این جی اوز کا کیا دھرا ہے۔ وہی خود مختاری کے نام پر ہماری خواتین کو تمام حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتی ہیں،‘ ایک تیسرے شخص نے اپنا تجزیہ بغیر مانگے پیش کر دیا۔

یہ تینوں حضرات میرے پڑوسی تھے اور سرِراہ شاید کسی انتہائی غیراخلاقی حرکت پر غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ میں بھی سلام کرکے ان کی گفتگو میں شریک ہو گیا اور تینوں اصحاب کو مخاطب کرکے پوچھا ’کیا ہوا۔ خیر تو ہے؟‘

بزرگ محلے دار نے جواب دیا: ’ہونا کیا ہے بیٹا ہم لوگ یہاں مارکیٹ میں کھڑے تھے کہ دو نوجوان لڑکیاں اس طرف سے موٹر سائیکل چلاتی ہوئی آئیں اور تیزی سے اس طرف کو نکل گئیں۔ اگلے روز ایسا ہی ایک منظر میں نے گلبرگ کی مین روڈ پر بھی دیکھا تھا۔ گویا اب بچیوں کے موٹرسائیکل چلانے کا نیا فیشن شروع ہوگیا ہے اس ملک میں۔‘  

اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے ان حضرات کی پریشانی کی وجہ جان کر میں دنگ رہ گیا۔ ’آپ لوگ اتنی سی بات پر اتنا خفا ہو رہے ہیں؟‘ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ 

’یہ اتنی سی بات ہے؟ جناب! خواتین اور لڑکیوں کا یوں بےباکی سے سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتے پھرنا انتہائی معیوب بات ہے،‘ درمیانی عمر کے شخص نے جواب دیا۔ 

’لیکن اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ تعلیم، ملازمت یا روزمرہ کاموں کے لیے خواتین کی آبادی کا بڑا حصہ پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتا ہے۔ سٹاپ پر گھنٹوں انتظار کے بعد کوئی بس یا ویگن آتی ہے اور اس میں بھی جگہ ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ سخت موسموں میں جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دینے والے اس عمل سے خواتین کو ہر روز گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ بائیک چلانا سیکھ لیں تو اس میں کیا برائی ہے؟‘ 

’برائی ہے۔ اس میں بے پردگی ہوتی ہے۔ ہماری خواتین مردوں کے انداز میں موٹرسائیکل پر بیٹھ کر باہر گھومیں۔ ایسی ہماری روایات نہیں ہیں،‘ بزرگ پڑوسی نے قطعی انداز میں کہا۔

’ہوں۔ تو مسئلہ روایات کا ہے،‘ میں نے خود کلامی کے انداز میں جملہ ادا کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اچھا یہ بتائیں کہ جب لڑکیاں گھنٹوں بس سٹاپس پر بیہودہ فقرے سنتی اور اوورلوڈنگ کی شکار ویگنوں میں جسمانی ہراسیت کے غلیظ حملے سہتی ہیں اس وقت ہماری روایات کیا کہتی ہیں؟‘ میں نے قدرے تلخ انداز میں سوال کیا۔ 

’جو عورت باپردہ ہو کر گھر سے نکلتی ہے اسے ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘ جواب آیا۔

’آپ کا یہ خیال میرے مشاہدے کے مطابق درست نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں عورت جس لباس میں بھی گھر سے نکلے اسے ذہنی اور جسمانی ہراسیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘ میں نے انتہائی ادب سے اختلاف کیا۔

’لڑکیوں کے گاڑی چلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ آخر موٹر بائیک ہی کیوں؟‘ اس سے پہلے کہ بزرگ میری بات کا کوئی جواب دیتے، گفتگو میں شریک نوجوان نے اپنا نکتہ نظر پیش کر دیا۔ 

’کیا گاڑی ہر گھرانہ افورڈ کر سکتا ہے؟ پھر سب کے کام کے اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر گاڑی ہو بھی تو گھر کے تمام افراد اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جبکہ موٹرسائیکل نسبتا ایک سستی سواری ہے۔‘ میں نے جواب دیا۔ 

’اور کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ موٹرسائیکل تک رسائی کے باعث گھر کے مرد تو سہولت کے ساتھ سفر کریں اور اسی گھر کی خواتین بس سٹاپوں پر دھکے کھاتی پھریں۔‘ میں نے مزید کہا۔

’ہمارے معاشرے میں گھر کے مرد اپنی خواتین کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں اور ان کو سکول کالج یا کسی بھی جگہ لانے لے جانے کی ڈیوٹی بخوبی انجام دیتے ہیں۔ کسی گھر میں بھی انہیں اپنے کاموں کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا جاتا۔‘ نوجوان نے واضح کیا۔

’آپ کی بات بھی درست ہے۔ لیکن عورت کو موٹر سائیکل چلانے کے قابل بنانے سے کیا مرد پر ذمہ داریوں کا بوجھ کم نہیں ہوگا؟‘ میں نے سوال کے انداز میں دلیل دی۔

’اور پھر کیا یہ بھی ہمارے یہاں کا معمول نہیں کہ بہنیں گھر سے باہر اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے گھنٹوں اپنے بھائیوں کا انتظار کرتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو کئی کئی دن ان کی منتیں کرتی ہیں تب جا کر ان کا کام ہوتا ہے۔‘ میں نے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی۔

’لیکن بہت سی لڑکیوں کو فیشن کے نام پر نت نئے رجحانات کی نقل کرنے کا بھی شوق ہوتا ہے۔‘ نوجوان نے ایک نئی منطق پیش کی۔

’معذرت کے ساتھ۔ لڑکیوں کا موٹر بائیک چلانا نہ تو مغرب کی نقالی ہے اور نہ ہی فیشن۔ یہ ان کے بہت اہم مسئلے کا عملی حل ہے۔‘ میں نے اپنا موقف دیا۔

’دیکھیں بھائی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ خواتین کو آمدورفت میں مسائل پیش آتے ہیں۔ لیکن ان کا یوں موٹرسائیکل چلانا بھی تو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام کرے۔‘ گفتگو میں شریک تیسرے شخص نے موقف پیش کیا۔

’آبادی کے بوجھ تلے دبے ملک میں کیا حکومت ہر مسئلہ حل کرسکتی ہے؟  ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ نئے خیالات پر عمل پیرا ہو کر بہت سے مسائل کا حل خود ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ہمیں بھی خواتین کے موٹر بائیک چلانے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس سے ان کو سفر کا سستا اور باعزت ذریعہ میسر آئے گا اور ان کو بااختیار بنانے میں بھی مدد ملے گی۔‘ 

’تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر 
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے۔‘

میری تجویز کے جواب میں بزرگ پڑوسی نے خاصے چبھتے ہوئے لہجے میں یہ شعر پڑھا۔ 

شعر کے جواب میں میرا جی چاہا کہ میں سعادت حسن منٹو کے افسانے ’لائسنس‘ کا ذکر کروں جس کے مرکزی خیال کے مطابق ہمارا معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن باعزت گزر بسر کے لیے تانگہ چلانے کا لائسنس ہرگز نہیں دیتا۔ 

لیکن پھر میں یہ سوچ کر خاموش ہو رہا کہ چند لڑکیوں کے موٹر بائیک چلانے کا منظر دیکھ کر روایات کے یہ امین اتنے مشتعل ہیں تو منٹو کے افسانے کے آئینے میں کہیں۔۔۔۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین