پہلی ملاقات میں مردوں کے پاس خواتین کے لیے الفاظ کم کیوں پڑ جاتے ہیں؟

ٹک ٹاک پر اس قسم کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں خواتین ان مردوں کے بارے میں بات کرتی ہیں جنہوں نے حقیقت میں انہیں جانے بغیر ان سے محبت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مصنفہ فلین کا کہنا ہے کہ ’ایک مرد آپ سے سوالات کیوں کرے گا اگر جوابات آپ کے اس ورژن کو خطرے میں ڈالیں جو وہ چاہتا ہے کہ آپ ہوں؟‘(پکسلز)

’میں ابھی ایک ڈیٹ سے گھر آئی ہوں۔‘ میری زندگی کے دو گھنٹے لیکن اپنے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔‘ ایک مایوس ٹک ٹاکر کہتی ہیں۔ ان کی آواز کسی ایسے شخص کی بے بسی کی عکاس ہے جو پہلے بھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا کر چکی ہے۔

اس نے کہا: ’کیا میں آپ کو اس لڑکے کے بارے میں کچھ بتاؤں؟ ارے ہاں، میں آپ کو بہت کچھ بتا سکتی ہوں۔ شاید اس کے تھراپسٹ سے بھی زیادہ۔‘

وہ اس صورت حال کا سامنا کرنے والی واحد لڑکی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا اس طرح کی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے، اس وقت ہر کسی کے لبوں پر یہ سوال نظر آتا ہے کہ ’مردوں کے پاس (خواتین کے لیے) اتنے کم الفاظ کیوں ہوتے ہیں؟‘

ایسا نہیں لگتا کہ ڈیٹس پر آنے والے مرد ان خواتین سے سوالات پوچھ رہے ہیں جن میں وہ (بظاہر) دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اس کی بجائے وہ بے لگام تقریریں جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

جب میں نے اپنے جاننے والوں سے پوچھا کہ کیا انہیں اسی طرح کی ڈیٹس کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو یہ واضح ہو گیا کہ انٹرنیٹ کے حوالے سے تازہ ترین شکایات یہاں وائرل ہونے والے مواد سے زیادہ ہے۔

لندن میں ٹیکنالوجی سیلز میں کام کرنے والی روزی سٹیورٹ نے بتایا: ’میں ایک بار ایک ایسے شخص کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھی جس نے رات 11 بجے تک مجھ سے ایک بھی سوال نہیں پوچھا، پب کے لاسٹ آرڈر پر چپس منہ میں ٹھونستے ہوئے بلآخر اس نے مجھ سے پہلی بار پوچھا تو تم کرتی کیا ہو؟

’میں اس وقت تک جانتی تھی کہ اس کے دادا دادی کیسے ملے تھے۔ مجھے بھی ڈیٹس پر خوشگواری سے سر ہلانا یاد ہے کہ کیسے میری گستاخانہ فطرت مرد کی بے باک خود غرضی سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔ تو یہ خاص رومانوی لمحہ اتنا شرمناک کیسے ہو گیا؟

آئیے ان ایپس کے ساتھ شروع کریں جنہوں نے رومانوی منظر نامے کو بری طرح بدل دیا ہے۔ ڈیٹنگ کا انحصار کبھی ناقابل فہم کیمسٹری اور فطری گفتگو پر ہوتا تھا لیکن یہ آن لائن شاپنگ کے ناپسندیدہ پیار کے بچے اور نوکری کی درخواست کے عمل جیسا ہو گیا ہے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک سرمایہ دارانہ اور انتہائی انفرادی معاشرے میں مرد ڈیٹنگ کو نوکری کے انٹرویو کی طرح لیتے ہیں یعنی حقیقی تعلق کو فروغ دینے کے بجائے خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع۔

ظاہر ہے کہ طویل عرصے سے ڈیٹنگ اور کارپوریٹ کلچر آپس میں ضم ہو گئے ہیں جیسے ڈیٹنگ ایپ ’بمبل‘ میں ایک پیشہ ور نیٹ ورکنگ آف شوٹ ہے جسے بمبل بِز کہتے ہیں، جب کہ دیگر انتہائی تنہا افراد نے نوکریوں کی بجائے محبت تلاش کرنے کے لیے لنکڈ اِن کو بھی استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں مرد خود کو بیچنے کی کوشش میں اتنے مصروف ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں پوچھنا بھول جاتے ہیں۔

تعلقات اور کمیونیکیشن کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر سینڈرا ایل فالکنر کہتی ہیں:’ہم ایک دوسرے کو چند غلطیاں کرنے اور ایک دوسرے سے گفتگو میں سچی بات چیت میں مشغول ہونے کا وقت نہیں دے رہے ہیں۔‘

تاہم مصنفہ گریس فلین کو شبہ ہے کہ مردوں میں تجسس کی کمی کسی تاریک مسٔلے کی علامت ہو سکتی ہے۔

’میں زیادہ بولنے والے شخص کے ساتھ چند ڈیٹس پر گئی لیکن یہاں بھی صرف چند سوالات۔ وہ کلاسک ٹرانٹینو سے محبت کرنے والا، ڈارٹ سگریٹ نوشی کرنے والا اور جسم پر ٹیٹو بنوانے والا شخص تھا، اس لیے بدقسمتی سے اس سے بچنا مشکل تھا لیکن Hinge ایپ پر اس کے ساتھ میچ ہو گیا۔‘

پہلے تو فلین نے محسوس نہیں کیا کہ وہ ان سے ان کے بارے میں زیادہ نہیں پوچھ رہا تھا کیونکہ وہ قدرتی طور پر خود ہی رضاکارانہ طور پر معلومات دے رہی تھی جیسا کہ اس کی بہت سی کہانیوں کے جواب میں۔

لیکن تیسری ڈیٹ تک، انہیں شک ہونے لگا کہ وہ انہیں جاننے میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا بلکہ اس حقیقت سے متاثر ہوا کہ وہ دکھنے میں اس کے معیارات پر پورا اترتی ہے اور توجہ سے اس کی باتیں سنتی ہے۔ بالکل ایک ایسے بہترین کینوس کی طرح جس پر ایک خیالی منصوبہ بنایا جا سکے۔

فلین نے کہا: ’ایک مرد آپ سے سوالات کیوں کرے گا اگر جوابات آپ کے اس ورژن کو خطرے میں ڈالیں جو وہ چاہتا ہے کہ آپ ہوں؟‘

ٹک ٹاک اس قسم کی ڈیٹنگ اور دیگر نصیحت آمیز کہانیوں کا گڑھ بن گیا ہے جہاں متعدد ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں خواتین ان مردوں کے بارے میں بات کرتی ہیں جنہوں نے حقیقت میں انہیں جانے بغیر ان سے محبت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

بلاشبہ ایک رومانوی ساتھی کے بارے سوچنا صرف مردوں تک محدود نہیں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جس کی آپ پر توجہ ہو تو ہم اس امید کرتے ہیں کہ یہ رشتہ ہمارے مسائل کا حل ثابت ہو گا۔

لیکن جب ہم اس آئیڈیل کو جانتے ہیں تو یہ قطع تعلق کا سبب بن جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے رشتے پہلی چند ڈیٹس سے آگے بڑھ نہیں پاتے۔

یہ ایک پریشانی ہے جو بلاشبہ آن لائن ڈیٹنگ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔ حقیقی زندگی میں رابطے کے بجائے کسی کا ایسا تصور قائم کرنا زیادہ آسان ہے جو صرف خوبصورت تصاویر کی بنیاد پر ہو جن پر بہت زیادہ محنت اور کوشش کی گئی ہو۔

یہ ایک مذموم نظریہ ہے لیکن ایک ایسا نظریہ جو فالکنر کی بات سے اتفاق کرتا ہے جنہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا یکطرفہ نقطہ نظر لامحالہ مسائل کو جنم دے گا۔

ان کے بقول: ’اگر آپ کسی ایسے رشتے کو دیکھتے ہیں جہاں آپ کو تعاون کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ’آپ‘ کل کائنات کا مرکز ہیں بجائے اس کے کہ 'ہم' آپ کے رشتے کا مرکز ہو، تو یہ رومانوی رشتے کے لیے خراب نظریہ کا سبب بن سکتا ہے۔‘

بلاشبہ بات چیت میں مردوں کے غالب کردار کی کوشش ٹیکنالوجی سے بھی زیادہ قدیم چیز ہے۔ ہم اس کا ماضی پدرانہ صنفی اصولوں سے لگا سکتے ہیں جن کا شعوری یا غیر شعوری طور پر اب بھی پرچار کیا جا رہا ہے۔

فالکنر کا کہنا ہے کہ ‘خواتین اور مرد سماج میں مختلف انداز میں بات چیت کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہاں پیدائشی اختلافات ہیں لیکن ہم بعض اوقات بچوں کو مختلف طریقوں سے سکھاتے ہیں۔

’مثال کے طور پر خواتین کی اچھے اور رضامند ہونے کی وجہ سے قدر کی جاتی ہے جس کا اکثر مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جارحانہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف مردوں کو جارحانہ ہونا اور قیادت کرنا سکھایا جاتا ہے۔‘

یہ خاص طور پر رومانوی تال میل میں واضح ہے جو وسیع تر صنفی محرکات کو بنیادی سطح پر بیان کرتا ہے۔

یہاں تک کہ پچھتاوے کے وقت بھی بہت سے مرد اپنے رویے میں کسی غلط چیز کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہتے ہیں یعنی دو خواتین جن سے میں نے بات کی انہوں نے بتایا کہ مردوں نے ان ڈیٹس میں ان کا بوسہ لینے کی کوشش کی جن کو واضح طور پر انہوں نے یکطرفہ بتایا تھا۔

سٹیورٹ نے ہنستے ہوئے بتایا: ’اس نے اپنے پودوں کی تصویروں کے ساتھ کئی بار فالو اپ کرنے کی کوشش کی، واضح طور پر یہ محسوس کیے بغیر کے وہ اس کے قابل نہیں تھا۔‘

فالکنر کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ لاک ڈاؤن کے دوران تنہائی سے مزید بڑھ گیا تھا۔ ’میرے خیال میں کوویڈ نے ہماری کچھ مہارتوں کو کم کیا ہے۔ آن لائن اور ٹیکسٹ گفتگو آمنے سامنے کی بات چیت سے مختلف ہیں۔

’ہمیں ایک دوسرے کی کہانیوں میں دلچسپی لینے اور اچھے سوالات سننے اور پوچھنے کی مہارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہونے سے میں سمجھتی ہوں کہ ہم پرانے صنفی کرداروں میں واپس آ جاتے ہیں جہاں خواتین کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور مردوں کو ہر چیز کا انچارج ہونا چاہیے۔ یہ حقیقی سمجھ کا راستہ نہیں ہے۔‘

درحقیقت، سٹیورٹ کی ڈیٹ لاک ڈاؤن کے فوراً بعد تھی اور مرد ساتھی نے ان کے ماسک سے ان کا بوسہ لیا تھا۔

ایک امید افزا نوٹ پر، یہ ممکن ہے کہ ’می ٹو‘ مہم کے بعد جب بات ڈیٹنگ کی ہو تو مرد دباؤ کو دور کرنے کی (گمراہ کن) کوشش میں خواتین سے زیادہ بات کر رہے ہوں۔

مرد ذاتی معاملات کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی احتراز برت سکتے ہیں، اس لیے شاید وہ رومانوی ملاقاتوں کے دوران ان خواتین پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

 فالکنر کا کہنا ہے کہ ’کچھ نوجوانوں نے مجھے اس سمسٹر میں بتایا کہ وہ حقیقت میں آمنے سامنے گفتگو کے خواہش مند ہیں۔‘

لیکن اگرچہ مردوں میں نرگسیت معمولی طور پر زیادہ عام ہے لیکن دیگر اصناف بھی رات بھر صرف اپنے بارے میں بات کرنے جیسی لت کا شکار ہو سکتی ہیں۔

معاشرے میں مردوں کا غالب کردار انہیں ایسا کرنے کے لیے زیادہ آزادی فراہم کرتا ہے۔ دریں اثنا خواتین بری ڈیٹس کے لیے سوشل میڈیا پر مردوں کو اس حوالے سے للکارنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں، جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ صرف مردوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔

لیکن کیا ورچوئل دعوے ناپسندیدہ رومانوی رویے کو روکنے کا بہترین طریقہ ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چونکہ انٹرنیٹ الگورتھم ان مواد کو ہی استعمال کرتا ہے جس کے ساتھ ہم پہلے سے مشغول رہے ہیں، اس لیے یہ ویڈیوز ممکنہ طور پر ایسے مردوں کے برعکس سنگل خواتین کی سوشل میڈیا فیڈز کو بھر رہی ہیں جو ممکنہ طور پر ان سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

یہ فطری طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی خواتین کو تازہ ہوا کے لیے ٹک ٹاک کو استعمال کرنے کی اجازت ہے اور یہ ایک تھکا دینے والا اور فرسودہ خیال ہے کہ یہ ایک عورت کی ذمہ داری ہے کہ مردوں کو سکھائے کہ انہیں کیسے ڈیٹ کرنا ہے۔ لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا کوئی واضح حل نہیں ہے۔

شاید بات چیت کی نرمی سے ملنے والا کنٹرول خواتین کو یہ دیکھنے کے قابل بنا سکتا ہے کہ آیا ایک مرد کے ساتھ ان کی ڈیٹ کا پوڈ کاسٹ اعصاب پر سوار ہونے کی علامت ہے یا کچھ کم قابل تلافی عمل ہے۔

ایک وسیع سوچ پر ایک بے مثال ڈیٹنگ دور میں شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات پر غور کرنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹیں کہ کس طرح ٹیکنالوجی اور سماجی نظام محبت کو تلاش کرنے کے لیے ہمارے نقطہ نظر کو بہترین شکل دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ فالکنر تجویز کرتی ہیں کہ ’اپنے اور اپنے رشتوں سے سوالات پوچھنا سیکھیں۔ اپنی ذات اور اپنے خیالات کا احترام کریں۔ اپنی ضروریات کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔ اور ہمیشہ دوسروں کو سنیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین