آن لائن گیمنگ پر ڈیٹنگ اور والدین کی ذمہ داری

ورچوئل دنیا میں بھاگتے بھاگتے پورے ملک کی پولیس اور مشینری کو اپنے پیچھے بھگانے والے جوڑے دعا زہرہ اور ظہیر کا کیس آن لائن گیمنگ کے منفی اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہمارے ہاں والدین کو آن لائن گیمز کے مضر اثرات سے بالکل آگاہی نہیں ہے (فوٹو: پیکسلز)

تشدد پر اکسانے، ڈپریشن، خود کشی کا رحجان پیدا کرنے اور قتل کی وجہ بننے والی پب جی جیسے آن لائن گیمز کے منفی اثرات کی لمبی داستان ہے، لیکن حال ہی میں دعا زہرہ کیس میں آن لائن گیمنگ کا ایک اور منفی پہلو سامنے آیا کہ کم عمر بچے کس طرح ان گیمز کو ڈیٹنگ ایپس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ان کے زیرِ اثر اپنی زندگی کے فیصلے کر رہے ہیں۔

دعا زہرہ اور ظہیر احمد کی ملاقات پب جی کھیلتے ہوئے ہوئی تھی۔ گیم میں دشمنوں کو تہس نہس کرنے والے یہ بچے گذشتہ کئی ہفتوں سے ہیڈ لائنز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔

پورے ملک کی پولیس اور مشینری کو باقی سارے کام چھوڑ چھاڑ کر ان کے پیچھے بھاگنا پڑا۔ دعا زہرہ کے والدین کی بے بسی دیکھتے ہوئے یہ واضح نظر آتا ہے کہ اس کیس نے والدین کے لیے آن لائن گیمز کے منفی اثرات کی پریشانی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس پر پابندی کے باعث آن لائن گیمز نوجوانوں اور کم عمر بچوں کے لیے باہر کے لوگوں سے رابطے کا آسان ذریعہ بن گئے ہیں۔

ورچوئل دنیا میں دن کا بیشتر وقت گزارنے والے بچے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے ہیں یا حقیقی زندگی کو بھی گیم کی طرح چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھر کے کونے میں یا خاندان کے بیچوں بیچ آن لائن گیمز میں مصروف نوجوان اپنے لیے ایک الگ دنیا بسا کر بیٹھے ہوتے ہیں جہاں وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں اور اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کے کھلاڑی کے ساتھ ٹیم بنا سکتے ہیں اور فاصلے جیسی رکاوٹ ان آن لائن گیمز میں حائل نہیں ہوتی۔

صرف پب جی ہی نہیں درجنوں ایسی آن لائن گیمز ہیں جن کے منفی اثرات سے زندگیاں خطرات سے دو چار ہیں۔ گھنٹوں تک پُر تشدد گیمز کھیلنے والے نوجوانوں کو حقیقی زندگی میں تشدد اور ایڈونچر معمول کا عمل لگتا ہے۔ ان گیمز کے نشے میں مبتلا نوجوانوں کے دنیا بھر سے جارحیت، مایوسی اور تشدد کے واقعات سامنے آنے کے بعد یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ ورچوئل دنیا میں ٹیم بنا کر اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتے یہ بچے گیم کی طرح ہی اپنی زندگی کو بھی تہ و بالا کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں والدین کی اکثریت بچوں کو پڑھائی کو زیادہ وقت دینے کی تلقین کرنے، موبائل کم استعمال کرنے جیسے روایتی جملوں سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔ کہیں روزی روٹی کی دوڑ ہے تو کہیں ورچوئل دنیا سے لاعلمی ہے اور کہیں لاپروائی ہے۔

آن لائن گیمز کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر شاید زیادہ آگاہی نہیں اور وہ ہے دور بیٹھے لوگوں کے ساتھ مل کر گیمز کھیلنا۔ بالکل جیسے آپ جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ آن لائن گیم کھیلنے والے کھلاڑیوں کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے اور یہ ایک دوسرے کو براہ راست پیغامات بھیج سکتے ہیں۔

پاکستان کے گھٹے ہوئے ماحول میں ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد لڑکے اور لڑکی کے میل جول پر کسی نہ کسی صورت قدغن لگ جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی صنف میں بھی کیسے لوگوں کے ساتھ دوستی کریں گے اس پر گھر کے بڑوں کی نظر رہتی ہے۔ کم عمر بچوں کو اپنی عمر سے بڑے لوگوں کے ساتھ کتنا میل جول رکھنا ہے اس پر بھی ایک حد مقرر کی جاتی ہے۔

مگر آن لائن گیمز ایسی ممنوع دوستیاں کرنے کی محفوظ ترین جگہ ہے، وہ دوستیاں اور بات چیت جن کا حقیقی زندگی میں کوئی امکان نہیں ہوتا وہ آن لائن گیمز میں ہو جاتی ہیں۔

ادھر والدین مطمئن ہوتے ہیں کہ چلو بچے گیم کھیل رہے ہیں، کسی سے چیٹنگ یا فون پر بات تو نہیں کر رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں والدین کی اکثریت ٹیکنالوجی اور اس کی جہتوں سے اس قدر واقف ہے کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکے؟ آن لائن گیمز کھیلنے والے بچے کب کس سے اور کیا بات کر رہے ہیں، اس کی ہر لمحہ نگرانی ناممکن ہے۔ اس سے قبل پب جی کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں جانے کے واقعات اور اس گیم کے ڈپریشن کا سبب بننے کی خبریں یہ سوال اٹھاتی رہی ہیں کہ آن لائن گیمز کے ان منفی اثرات کو کیسے روکا جائے۔

گیمنگ مارکیٹ ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ 2022 میں گیمنگ مارکیٹ کا حجم 136 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ پب جی کا 24.4 کروڑ ڈالر کی آمدنی کے ساتھ دنیا کی گیمنگ کمپنیوں میں پہلا نمبر ہے۔ پاکستان میں دنیا بھر کی گیمنگ مارکیٹ کا 61 فیصد موبائل گیمز پر مشتمل ہے۔

اسی دوران دنیا بھر میں ان گیمز کے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات پر گفتگو جاری ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان گیمز کے عادی نوجوانوں نے قتل اور خودکشی جیسے سنگین اقدام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کیے ہیں۔ آن لائن گیمنگ کے عادی افراد میں خودکشی کا رحجان بھی بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق آن لائن گیمنگ کے عادی بننے والے افراد میں نیند کی کمی کی بیماری، ڈپریشن، بےچینی، ہیجان خیزی، مایوسی، توجہ و ارتکاز کی کمی، جارحانہ رویے کے علاوہ دل کے عارضے کی علامات ظاہر ہر سکتی ہیں۔ جسمانی طور پر آن لائن گیمز کے مضر اثرات میں موٹاپے اور اس سے جڑی پیچیدگیاں ہیں۔ سکرین ٹائم زیادہ ہونے سے بچوں کی بینائی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کیا گیمز پر پابندی مسئلے کا حل ہے؟

 بھارت، چین، برازیل، جاپان، نیوزی لینڈ سمیت 15 سے زائد ممالک نے آن لائن گیمز پر مکمل یا جزوی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ تو کیا یہی واحد حل ہے؟ اس کا جواب آسان نہیں۔ ’بلیو وہیل‘ جیسے گیمز کے خطرات پر پوری دنیا میں بحث اور پابندیوں کے باوجود خطرات سے بھرے نئے گیمز کے اجرا کو روکا نہیں جا سکا۔

مثال کے طور پر پاکستان میں پب جی کھیلنے والے ایک لڑکے نے پورے خاندان کی جان لے لی۔ پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر پاکستان میں کئی خودکشیاں رپورٹ ہوئیں۔ چند روز قبل بھارت میں پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر ایک 16 لڑکے نے اپنی ماں کو قتل کر دیا۔

ماہرین کے مطابق بچوں کو کسی بھی گیم کا عادی ہونے سے روکنے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ بچے جو گیمزکھیلتے ہیں، ان سے اس کے متعلق بات چیت کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ گیم میں کس کے ساتھ کھیلتے ہیں اور گیم کے علاوہ ان لوگوں میں سے کس سے ان کا رابطہ رہتا ہے۔

ان سب کے بارے میں بچوں سے بات کرنا والدین کو کسی ممکنہ خطرے سے آگاہ کر سکتا ہے۔ بعض والدین گیم کھیلنے کے وسائل بھی مہیا کرتے ہیں اور بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے ان سے چھپ کر گیمز کھیلتے ہیں اور بچوں کی حرکات و سکنات والدین کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ بچوں کے مزاج اور رویے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی آن لائن گیمز کے منفی اثرات کا شاخسانہ ہو سکتے ہیں۔ والدین کی توجہ نوجوانوں کو کسی بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے۔

ورچوئل دنیا میں بھاگتے بھاگتے پورے ملک کی پولیس اور مشینری کو اپنے پیچھے بھگانے والے جوڑے دعا زہرہ اور ظہیر کا کیس آن لائن گیمنگ کے منفی اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نئے زمانے کے بچوں کے والدین کو بھی اس دور کے خطرات اور مضمرات سے مکمل آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔

ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہیے اور موثر پالیسیاں بنا کر آن لائن ایپس اور گیمز کےاثرات کو روکنا چاہیے۔

اس سلسلے میں نیا پہیہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دیکھا جائے کہ دنیا بھر میں اس ضمن میں کیا قانون سازی ہو رہی ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہاں 18 سال سے کم عمر بچوں کو جمعے، ہفتے اور اتوار کو صرف تین گھنٹے آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت ہے۔

پی ٹی اے اگر موثر طریقے سے ڈیٹنگ ایپس پر پابندی لگا سکتا ہے تو اس طرح کی گیمنگ ایپس کو کنٹرول کرنا بھی ناممکن نہیں۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ