’دعا زہرہ کو خود فیصلہ کرنے کی اجازت، مگر کیس ابھی ختم نہیں ہوا‘

دعا کی ہڈیوں کی عمر 17 سال بتائی گئی ہے جس کی بنا پر عدالت نے انہیں خود فیصلہ کرنے کی اجازت دی۔ تاہم یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ اب ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔

دعا زہرہ اور ان کے مبینہ شوہر کو پانچ جون کو پنجاب سے حراست میں لینے میں کے بعد چھ جون کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا (سکرین گریب)

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو خود فیصلہ کرنے کی اجازت تو دے دی کہ وہ کس کے ساتھ جانا چاہتی ہیں، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ میں کیس ان کی عمر نہیں بلکہ والدین سے ملاقات اور بازیابی کے حوالے سے تھا اور پاکستان کا قانون 18 سال سے کم عمر بچوں کو خود فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 

دعا زہرہ کے والد کے وکیل الطاف کھوسو کا کہنا ہے کہ دعا کی ہڈیوں کی عمر 17 سال بتائی گئی ہے جس کی بنا پر عدالت نے انہیں خود فیصلہ کرنے کی اجازت دی۔ تاہم یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ اب ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔

دعا زہرہ کے اغوا سے متعلق کیس میں جمعرات کو جوڈیشنل مجسٹریٹ نے دو ملزمان نکاح خواں اور گواہ کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جب کہ اس کیس میں گرفتار خاتون سمیت دس ملزمان کو رہا کرنے اور ٹرائل کورٹ میں تفتیش کے دوران انہیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

عدالت نے بدھ کو دعا زہرہ کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ’دعا اپنی مرضی سے جس کے ساتھ اور جہاں جانا چاہیں جا سکتی ہیں۔‘

تین صفحات پر مشتمل عدالتی حکم نامے میں دعا زہرہ کی بازیابی اور والدین سے ملنے کی درخواست پر کہا گیا کہ دعا کے بیان حلفی کی روشنی میں یہ اغوا کا مقدمہ نہیں البتہ عدالت نے ٹرائل کورٹ سے کہا ہے کہ وہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے۔

عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو دعا کی عمر کے تعین سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ اور عدالت میں ریکارڈ کروائے گئے بیان کو پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

عدالت کے فیصلے کے حوالے سے دعا کے والدین کے وکیل الطاف کھوسو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تمام تر دستاویزات، جن میں بچی کا بے فارم، برتھ سرٹیفکیٹ، پاس پورٹ، والدین کا نکاح نامہ وغیرہ شامل ہیں، جمع کروانے کے باوجود بھی عدالت نے صرف میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایا۔‘

’والدین کی جانب سے فراہم کیے گئے دستاویزات میں دعا کی عمر 14 سال ہے جب کہ بون آسیفیکیشن کے ذریعے کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ میں اس کی عمر 16 سے 17 سال بتائی گئی ہے۔ ‘

انہوں نے کہا: ’یہ بھی ایک اندازہ ہے جو کہ سو فیصد درست نہیں۔ دعا زہرہ کی ہڈیوں کی عمر کی بنیاد پر اسے خود فیصلہ کرنے کی اجازت دی گئی لیکن یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا۔‘

الطاف کھوسو کہتے ہیں: ’ہماری درخواست بچی کو برآمد کروانے اور ماں باپ سے ملوانے کی تھی۔ یہ دونوں ہی درخواستیں پوری ہوئی ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ فیصلہ ہمارے خلاف آیا ہے۔ البتہ دعا کو اس کے والدین کے پاس واپس لانے کے لیے ٹرائل کورٹ میں کیس چلے گا۔‘

عدالتی فیصلے کے بعد دعا کے والد مہدی علی کاظمی نے بتایا: ’عدالت کو دعا کا بیان پھر سے لینا چاہیے تھا۔ ہمیں اپنی بچی دعا سے ملنے کے لیے صرف سات منٹ دیے گئے۔ اس دوران وہ ہم سے گلے لگ کر روئی اور اس نے کہا کہ وہ گھر آنا چاہتی ہے۔‘

’سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی نے میری آنکھوں کے سامنے دعا کا بازو زور سے پکڑا اور کہنے لگا کہ وہ اس کا باپ ہے جس پر میں بہت برہم ہوا۔‘

مہدی علی کاظمی نے کہا: ’اس کے بعد ہم جج صاحب کے پاس گئے اور درخواست کی کہ وہ دعا کا پھر سے بیان لیں تو ہمیں کہا گیا کہ بار بار بیان نہیں لیا جاتا۔ اس سے قبل دعا نے دباؤ میں آکر باتیں کہیں تھی۔ ہماری التجا سنے بغیر ہی دعا کو پہلے دارلامان بھیج دیا گیا اور پھر ان لوگوں کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ میری بچی کو واپس لاہور لے کر چلے گئے ہیں۔‘

آئین کیا کہتا ہے؟

اس معاملے پر انسانی حقوق کی وکیل بیریسٹر ردا طاہر، جنہوں نے چائلڈ میریجز کے حوالے سے کافی تحقیق کی ہے، نے کہا: ’پاکستان کے قانون میں ایک قدیم، 1929 کے زمانے کا The Child Marriage Restraint Act  موجود ہے۔ اس قانون میں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کی عمر سے متعلق کافی تفریق موجود ہے۔‘

ردا طاہر کہتی ہیں: ’اس قانون کے تحت بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں آج بھی لڑکوں کے لیے شادی کی عمر 18 سال اور اس سے زائد ہے جب کہ لڑکیوں کے لیے 16 سال اور اس سے زائد کی عمر ہے۔‘

’سندھ واحد صوبہ ہے جہاں 2013 میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کا اطلاق ہوا تھا جس کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی عمر ایک جیسی یعنی 18 سال کر دی گئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتی ہیں: ’دعا کے کیس میں یہ معاملہ اس لیے پیچیدہ ہوا کیوں کہ انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں شادی کی، جہاں 1929 والے ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ البتہ 2015 میں پنجاب کے اس قانون میں ترمیم لائی گئی تھی جو لڑکیوں کی شادی کی عمر کو 18 سال کرنے کا ایک اچھا موقع تھا مگر انہوں نے اس قانون میں صرف سزاؤں کا اضافہ کیا تھا۔‘

ان کے بقول: ’پنجاب میں اس قانون میں تبدیلی تو نہیں آئی البتہ رواں سال فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے ممتاز بی بی کے کیس میں فیصلہ سنایا تھا کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کا شادی کرنا غیر قانونی ہے اور 16 سال سے کم عمر بچی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا زیادتی ہے جس کی پاکستان پینل کوڈ کے مطابق کم از کم سزا 25 سال ہے۔‘

ردا طاہر نے مزید بتایا: ’سندھ ہائی کورٹ میں دعا کا کیس اس کی صحیح عمر کا تعین کرنے کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ اس کی بازیابی کے حوالے سے تھا۔ عدالت کے حکم کے مطابق دعا کو بازیاب کروایا گیا اور ماں پاب سے ملاقات بھی کروائی گئی۔‘

’سندھ ہائی کورٹ کا دائرہ کار صرف دعا کی بازیابی تک ہی محدود تھا، وہ اس کیس کے دیگر پہلوؤں کے حوالے سے سوال نہیں کرسکتے تھے اس لیے یہ کیس اب ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔‘

عدالت نے دعا کو مرضی سے جانے کی اجازت کیوں دی؟

ایڈووکیٹ سندھ ہائی کورٹ ردا طاہر نے بتایا: ’عدالت نے ہڈیوں کے ٹیسٹ کی بنا پر دعا کو اپنی مرضی سے جہاں اور جس کے ساتھ وہ جانا چاہے، جانے کی اجازت دی۔ اس لیے کیوں کہ اس ٹیسٹ میں دعا کی عمر 14 سال نہیں بلکہ 17 سال ظاہر ہوئی تھی۔ اس ٹیسٹ کی بنا پر عدالت نے فیصلہ کیا کہ دعا اتنی خود مختار ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکتی ہیں۔‘

’البتہ پاکستان کے جوینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018  کے مطابق اگر عدالت کو کسی بچے یا بچی کی صحیح عمر کا تعین کرنا ہوتا ہے تو عدالت والدین کا نکاح نامہ، بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ، سکول یا مدرسہ سرٹیفکیٹ دیکھتی ہے۔ نادرا میں تمام دستاویزات کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے جس سے یہ معلومات مستند سمجھی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’اس کیس میں یہ تمام دستاویزات موجود ہونے کے باوجود بھی دعا زہرہ کا بون آسیفیکیشن ٹیسٹ کروایا گیا جو کہ عام طور پر یتیم بچوں کا ہی کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کے حوالے سے کوئی دستاویزی معلومات موجود نہیں ہوتیں۔‘

ردا طاہر کے مطابق: ’دعا زہرہ کیس میں بون آسیفیکیشن ٹیسٹ کے نتائج سے کافی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں جس کے باعث ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں تعینات پولیس سرجن کو ٹرانسفر کر کے ان کی جگہ ایڈیشنل پولیس سرجن کو تعینات کر دیا گیا ہے۔‘

بون آسیفیکیشن ٹیسٹ کیا ہے؟

امریکی نیشنل لائبریری سے منسلک پاکستانی ادارے نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارفیشن (این سی بی آئی) میں شائع ہونے والی ریسرچ کے مطابق اس ٹیسٹ کے ذریعے بچے کی ہڈیوں کی کثافت چیک کرکے اس کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ہڈیوں کی عمر اور پیدائشی عمر مخلتف ہوسکتی ہے۔ ہڈیوں کی عمر سے کسی بچے کی حیاتیاتی اور جسمانی عمر کا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عام طور پر اس ٹیسٹ میں بچے کے ہاتھ اور کلائی کی ریڈیوگرافی کی جاتی ہے، جبکہ 18 سے 22 سال کی عمر کے افراد کی ہڈیوں کی عمر کا اندازہ ان کے ہاتھ اور کلائی کی ریڈیو گرافی سے نہیں لگایا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ان کی ہنسلی کی ہڈی کے ذریعے ان کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ دانتوں، کولہے کی ہڈی اور ران کی ہڈی کے ذریعے بھی ہڈیوں کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

جناح ہسپتال کی سابق ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر سیمیں جمالی جنہوں نے اپنے تین دہائیوں پر مشتمل میڈیکل کیریئر میں اس طرح کے کئی کیسز دیکھے ہیں نے بتایا کہ ’بون آسیفیکیشن ٹیسٹ کافی مستند ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی عضو کی ڈولپمنٹ کے ذریعے بھی کسی بچے کی جسمانی عمر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔‘

’یہ تمام ٹیسٹ 100 فیصد درست عمر نہیں بتا سکتے مگر ایک محتاط اندازہ دے دیتے ہیں جس طرح دعا کے کیس میں اس کی عمر 16 سے 17 سال بتائی گئی۔‘

سیمی جمالی کے مطابق: ’دعا زہرہ کے کیس میں عدالت کو اس کی عمر کا تعین کرنے کے لیے جس کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا، صرف ایک شخص پر انحصار نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ اس صورت میں غلطی کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں پر دعا کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تخلیق دیا جانا چاہیے تھا جس کا فیصلہ یقیناً مزید مستند ہوتا اور اس پر اتنی تنقید نہ ہوتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان