افغان پیسوں کے بدلے کمسن بیٹیوں کی شادیاں کرنے لگے

پانچ بچوں کے 40 سالہ باپ اپنی بیٹی کی شادی کے متعلق کہتے ہیں: ’مجھ سے واقعی ایک حماقت سرزد ہوئی۔ میں نے غربت کے مارے اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کر دیا مگر تنگ دستی ویسی کی ویسی ہے۔‘

افغانستان میں بہت سے لوگ قرض اتارنے کے لیے بچیوں کی شادیاں کر رہے ہیں (تصاویر: اے ایف پی)

افغانستان کی معاشی بدحالی نے خاندانوں کو پیسوں کے بدلے جوان بیٹیوں کی شادی جیسے مکروہ فیصلوں پر مجبور کر دیا ہے۔ افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک سے وابستہ علی محمد صباون نے نوجوان دلہنوں کے ایک درجن کے قریب والدین سے انٹرویو لینے کی کوشش کی جن میں سے زیادہ تر نے شرم اور پچھتاوے کے باعث بات کرنے سے احتراز کیا۔

البتہ چار مرد ایسے تھے جنہوں نے اپنے معاشی دباؤ، جذباتی کیفیات اور تکلیف دہ فیصلوں سے متعلق تفصیل سے بات کی (صباون کو انہیں کیٹ کلارک کا تعاون حاصل رہا)۔

اگرچہ اس بات کی تصدیق کے لیے کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں لیکن واقعاتی شواہد، میڈیا رپورٹنگ اور بڑھتی ہوئی غربت کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں ’کم عمری کی شادیوں میں اضافے کی اطلاعات‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

یہ جاننے کے لیے اس رپورٹ میں مختلف خاندانوں سے بات چیت کرنا پڑی کہ آیا واقعی ایسا رجحان موجود ہے اور آخر کیا چیز اس ناگوار فعل پر مجبور کرتی ہے۔

افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک نے جن چار والدین سے بات کی ان کا تعلق ہلمند، قندوز، لغمان اور کابل شہر سے تھا۔ جن لڑکیوں کی شادی ہوئی تھی (یا شادی کا وعدہ کیا جا چکا تھا) ان کی عمریں پانچ سے 13 سال کے درمیان تھیں۔ دونوں بڑی لڑکیاں 13 سالہ تھیں جن میں سے ایک کی رخصتی پہلے سے شادی شدہ ایک 45 سالہ ملا کے ساتھ ہو چکی تھی۔ دوسری کی رخصتی ایک کاروباری ساتھی کے 20 سالہ بیٹے کے ساتھ ہوئی تھی۔ دونوں باپ گمان کیے بیٹھے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنی نئی زندگی میں خوش ہیں کیونکہ شاید وہ کسی دوسری حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے اور لڑکیوں نے خود بھی اپنے باپ سے یہ ’شکایت‘ کرنا ناممکن محسوس کیا ہو گا کہ وہ خوش نہیں۔

جہاں تک باقی دو کمسن بچیوں کا تعلق ہے تو ان میں سے ایک 11 سالہ لڑکی کا ایک زمیندار کے 20 سالہ بیٹے سے اور پانچ سالہ لڑکی کا ایک پڑوسی کے سات سالہ بیٹے سے رشتہ طے ہو چکا تھا۔ اگرچہ ابھی تک ’منگنی‘ ہی ہوئی تھی مگر افغانستان جیسے ملک میں اس کے بعد شادی سے پیچھے ہٹنا خاندانوں کے درمیان دشمنی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان لڑکیوں کے اہل خانہ نے طے کیا ہے کہ جب لڑکیاں بلوغت کو پہنچیں گی تب رخصتی ہو گی، اس سے پہلے وہ اپنے والدین کے گھر ہی رہیں گی۔

ان میں سے کسی لڑکی سے اس کی شادی کے بارے میں مشورہ نہیں لیا گیا بلکہ یہاں تک کہ بعض کو پیشگی آگاہ تک نہیں کیا گیا۔

 بات کرنے والے باپوں میں سے کوئی بھی پہلے سے اپنی بیٹیوں کی شادی کا نہیں سوچ رہا تھا مگر قرضوں کی ادائیگی کے شدید دباؤ میں اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ ایسے ناپسندیدہ قدم کے باوجود چاروں بہت جلد دوبارہ پہلے کی طرح تنگ دستی کا شکار ہو چکے تھے۔

چاروں کے انٹرویوز نیچے پیش کیے جاتے ہیں جو رواں برس جولائی اور اگست کے دوران کیے گئے تھے۔

1. چھ بچوں کے 62 سال باپ اپنی بیٹی کی شادی کے متعلق کہتے ہیں: ’ہماری برادری میں لوگ دلہن کی قیمت وصول کرنے کو ’بیٹی کا گوشت‘ کھانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کا گوشت کھا رہا ہوں جو جلد ہی ختم ہو جائے گا۔‘

میں نے اپنی 13 سالہ بیٹی کی شادی اپنے گاؤں کے ایک 45 سالہ ملا سے کی۔ وہ ایک امیر آدمی اور اپنے سے بڑی عمر کی ایک عورت سے پہلے سے شادی شدہ ہیں۔ ان کے اس سے تین بچے ہیں۔ ان کے بھائی میرے گھر آئے اور میری بیٹی سے ان کی شادی کی بات کی۔ میں نے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں سے مشاورت کے بعد ہاں کر دی۔ یہ رشتہ 10 لاکھ پاکستانی روپوں (تقریباً پانچ سو ڈالر) کے عوض طے ہوا۔

اس کم عمری میں اپنی لڑکی کی شادی کرنا اور وہ بھی پہلے سے شادی شدہ ایک 45 سالہ شخص سے میری زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا، لیکن میرے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔ میں اشرف غنی کے دور میں پولیس سے ریٹائر ہوا۔ گزر بسر پینشن پر ہو رہی تھی مگر گذشتہ دو برسوں سے مجھے اس کا ایک روپیہ نہیں ملا۔ میرا بیٹا کابل میں وزارت داخلہ میں پولیس افسر تھا۔ اس کی نوکری بھی چلی گئی۔

  آٹھ ماہ کا کل ملا کر تقریباً 50 ہزار افغانی (تقریباً 550 ڈالر) مجھ پر مالک مکان کا قرض تھا۔ پھر میں نے تین سال قبل اپنی بڑی بیٹی کی شادی پر بھی رقم خرچ کی تھی۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے قرضوں کی مد میں مجھ پر تقریباً 70 ہزار افغانی (تقریباً 800 امریکی ڈالر) واجب الادا تھے۔ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کے عوض ملنے والی رقم سے یہ قرض اتارے۔

شادی تقریباً چار ماہ قبل ہوئی۔ دولہے کے اہل خانہ نے دلہن کی قیمت تین مراحل میں ادا کی۔ جب جوڑے کی منگنی ہوئی تو انہوں نے مجھے 4 لاکھ روپے (تقریباً 2 ہزار ڈالر) دیے۔ دو ماہ بعد مزید 3 لاکھ (تقریباً 1500 امریکی ڈالر) دیے۔ مجھے بقیہ 3 لاکھ اپنی بیٹی کی شادی سے چند دن پہلے مل گئے تھے۔

حال ہی میں عید کے موقع پر وہ چار دن کے لیے میرے گھر آئی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ خوش ہے کیونکہ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ شروع شروع میں منگنی کے بعد وہ بہت روئی تھی۔ میں بھی بہت مایوس اور پریشان تھا یہاں تک کہ کئی راتیں سو نہیں سکا، کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا، میں بے انتہا تھکاوٹ محسوس کرتا، مگر اپنے خاندان کی گزر بسر کے لیے میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔

ماضی میں بچیوں کی کم سنی میں شادی کا چلن تھا مگر میں نے گذشتہ پندرہ برسوں میں ایسا نہیں دیکھا، لیکن اب یہ سلسلہ پھر چل نکلا ہے اور ایسے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

2. صوبہ قندوز کے ضلع دشت آرچی سے تعلق رکھنے والے پانچ بچوں کے 40 سالہ باپ اپنی بیٹی کی شادی کے متعلق کہتے ہیں: ’مجھ سے واقعی ایک حماقت سرزد ہوئی۔ میں نے غربت کے مارے اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کر دیا مگر تنگ دستی ویسی کی ویسی ہے۔‘

دو بیویوں اور پانچ بچوں سمیت ہم خاندان کے آٹھ فرد ہیں۔ میں نے جس بیٹی کی شادی کی وہ میری اولاد میں سب سے بڑی ہے۔ وہ 11 سال کی ہے اور سکول نہیں جاتی۔ میری بیوی اور بھائیوں سمیت میرا پورا خاندان ان پڑھ ہے۔

میں سرکاری ملازم تھا جہاں مجھے ماہانہ تنخواہ کے طور پر 13 ہزار افغانی ملتے تھے (آج کل تقریباً 150 امریکی ڈالر کے برابر مالیت)۔ میرے خاندان کی گزر بسر اسی پر تھی مگر حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی میں اس سے محروم ہو گیا۔ اپنی بیٹی کے نکاح کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے اس کا نکاح اپنے گاؤں کے ایک 20 سالہ مرد سے کر دیا۔ ہمارے خاندان میں کم سن لڑکیوں کی شادی کا رواج نہیں۔ میں اپنے خاندان میں واحد شخص ہوں جس نے بلوغت کا انتظار کیے بغیر ایک بیٹی کا نکاح کر ڈالا۔

ہم نے پہلے سے اپنی بیٹی کو آگاہ نہیں کیا کہ ہم اس کا نکاح کر رہے ہیں۔ جب اسے علم ہوا تو وہ بہت روئی۔

میری بیٹی کے سسر نے مجھے 30 ہزار افغانی (تقریباً 350 امریکی ڈالر) دیے۔ ہمارے درمیان طے ہوا کہ میری بیٹی کی رخصتی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک کہ وہ بلوغت کو نہ پہنچ جائے اور وہ مجھے دلہن کی باقی قیمت چھ ماہ کے اندر ادا کر دیں گے۔ دلہن کی کل قیمت دو لاکھ پچاس ہزار افغانی (تقریباً 3000 امریکی ڈالر) تھے۔

لیکن چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس نے ابھی تک مجھے باقی رقم نہیں دی۔ وہ برا آدمی ہرگز نہیں مگر خود ایک مصیبت میں پھنس گیا۔

کیوں کہ اس کے پاس گاؤں میں ہم سے زیادہ زمین تھی اس لیے مجھے لگا کہ وہ پیسے ادا کر دے گا، مگر بدقسمتی سے اس کے پاس نقد پیسے نہ تھے۔  اس نے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پتہ تھا کہ وہ میری نسبت زیادہ رقم وصول کرے گا کیونکہ اس کی بیٹی بالغ تھی۔ ہمارے علاقے میں ایک عورت کی بطور دلہن قیمت عام طور پر لگ بھگ 4 سے 5 لاکھ افغانی ہوتی ہے۔

اس نے اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے کی جو ہمارے گاؤں سے نہ تھا۔ اگرچہ ان کے درمیان 6 لاکھ پر اتفاق ہوا لیکن اسے 50 ہزار کے سوا ابھی تک کچھ نہیں ملا۔

3. تیسری لڑکی کے 50 سالہ والد کہتے ہیں: ’قرض ادا کرنے کے بعد میرے پاس بہت کم رقم باقی رہ گئی تھی۔ میں اب وہ ساری کی ساری ختم کر چکا ہوں، مگر مجھے خوشی ہے کہ میرے بچوں میں سے کم از کم ایک تو دن میں تین وقت کی روٹی کھا سکتا ہے۔‘

میں نے اپنی 13 سالہ بیٹی کی شادی 20 سال کے نوجوان سے کی۔ مجھے پاکستانی روپے کے مطابق دکانداروں کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ قرض ادا کرنا تھا۔ قرض خواہوں کے مطالبات سے تنگ آ کر میں نے اپنی زمین بیچنے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک شخص کے ساتھ مل کر جانوروں کی خرید و فروخت کا کاروبار شروع کر ڈالا۔ اس سانجھے کاروبار میں میرے ساتھی کی رقم کہیں زیادہ تھی۔

ہمارا کام اچھا چل نکلا تھا مگر ایک شخص نے پہلے اعتماد جمایا اور پھر دھوکا دے کر غائب ہو گیا۔ اس نے گائے خریدیں اور کہا کہ پیسے حوالے کے ذریعے بھیج دے گا مگر آج تک اس نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔  میرے کاروباری ساتھی نے مجھے تقریباً 2 لاکھ پاکستانی روپے  بطور قرض دے رکھے تھے۔ جب تلاش کے باوجود دھوکہ دینے والا شخص ہاتھ نہ آیا تو میرا ساتھی پہلے فون پر اور پھر گھر آ کر اپنے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا۔ ایک دن میری بیٹی چائے لے کر آئی تو اس نے کہا میرے پیسوں کے بدلے اس لڑکی کی شادی میرے بیٹے سے کر دو۔ 

مجھے بہت غصہ آیا لیکن بولا کچھ نہیں۔ میں نے اپنی بیوی سے بات کی جسے یہ بالکل اچھا نہ لگا۔ مگر میرا کاروباری ساتھی آتا رہا اور ہمیں یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ ہماری برادری میں دلہن کی زیادہ قیمت لینے کا رواج نہیں اس لیے میں نے محض دو لاکھ افغانی (تقریباً 2500 امریکی ڈالر) لیے۔

قرض ادا کرنے کے بعد بہت کم رقم رہ گئی تھی۔ میں اب کام کی تلاش کے لیے بازار جاتا ہوں لیکن بہت کم دیہاڑی لگتی ہے۔ جس روز دن خالی جائے اس شام میری بیوی اور بچے بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔

ہم نے اپنی بیٹی سے مشورہ نہیں کیا تھا کیونکہ ہم جانتے تھے وہ یہ جان کر بہت روئے گی۔ وہ اپنی منگنی کے دن بہت روئی، یہی حالت اس کی ماں کی تھی، لیکن ہم یہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے۔ میری معاشی حالت اتنی خراب تھی کہ مجھے اپنی لڑکی کی اتنی کم عمر میں شادی کرتے ہی بن پڑی۔

4. چوتھی لڑکی کے 36 سالہ والد کہتے ہیں: ’میں کم عمری میں بچوں کے رشتے کرنے والوں کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔ مجھے اپنے کیے پر واقعی افسوس ہے، لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

میں نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کا نکاح اپنے گاؤں کے ایک سات سالہ لڑکے سے کر دیا۔ میں نے اپنی بیوی سے پہلے اس پر بات کی تو وہ راضی نہیں ہوئی، لیکن میں نے اصرار کیا اور آخر کار اس نے ہار مان لی کیونکہ وہ جانتی تھی اور کوئی راستہ نہیں۔

نقد رقم کے عوض ایک گائے خریدنے کے بعد مجھ پر ایک لاکھ پاکستانی روپے (تقریباً 500 امریکی ڈالر) واجب الادا تھے۔ میرا خیال تھا کہ گائے چراؤں گا اور اس کا دودھ بیچوں گا اور اس رقم کو اپنے خاندان کی کفالت اور قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کروں گا، لیکن گائے مر گئی۔ پھر میں نے مختلف کام تلاش کیے لیکن سلسلہ بن نہ سکا۔

دوسری طرف قرض کی ادائیگی کی مقررہ تاریخ آ گئی۔ جس آدمی کا مجھے قرض دینا تھا وہ ہفتہ وار میرے گھر دو چکر لگاتا۔ ایک مہینہ ایسے ہی گزر گیا۔ بالآخر تنگ آ کر میں نے روپوشی کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان کو ایک دوسرے ضلع میں لے آیا۔  دو ماہ بعد تاجر نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور شد و مد سے اپنے قرض کا مطالبہ کرنے لگا۔

جب میرے پڑوسی کو معلوم ہوا کہ میں قرض دار ہوں تو اس نے مشورہ دیا کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ اس کے بیٹے سے کر دوں۔ ہمارے درمیان طے پایا کہ وہ مجھے تین لاکھ پاکستانی روپے (تقریباً 15 سو امریکی ڈالر) دے گا۔ اس نے مجھے 1 لاکھ روپے ہفتے کے اندر اندر کر دیے اور کہا کہ وہ باقی رقم شادی کے موقع پر ادا کر دے گا۔ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شادی میری بیٹی کی 15ویں سالگرہ کے بعد ہو گی۔

رقم ملنے کے بعد میں نے گائے کے مالک کو دے دی۔ اب میرے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا اور مجھے نہیں معلوم کہ کام کیسے تلاش کروں۔ مجھے اپنے کیے پر بہت افسوس ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

افغانستان میں کم عمری کی شادیوں کا پس منظر

افغان معاشرے میں بالخصوص لڑکیوں کی کم سنی میں شادیاں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ آپس کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے بعض اوقات نوجوان لڑکیوں کی شادی قریبی رشتہ داروں سے کر دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اکٹھے رہنے والے دو بھائی اپنے رشتے کو پختہ کرنے کے لیے اپنے بچوں کے آپس میں رشتے طے کر سکتے ہیں، لیکن عموماً شادی کے لیے ان کے بڑے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔

کم عمر لڑکی کی شادی خون کا جھگڑا ختم کرنے جیسی گہری وجوہات کی بنا پر بھی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ہمارے چار انٹرویوز سے واضح ہے کہ کم عمری کی شادی کی ایک عام وجہ معاشی پریشانی ہے اور افغانستان اور دوسرے بہت سے ممالک میں دولہا کے خاندان کی طرف سے دلہن کے خاندان کو لڑکی کی قیمت کی شکل میں رقم ادا کرنے کا رواج عام ہے۔ بالعموم جواں سال لڑکی (لیکن زیادہ بڑی عمر کی نہیں) بطور دلہن زیادہ قیمت کی حامل ہوتی ہے، تاہم اگر کسی خاندان میں بڑی عمر کی غیر شادی شدہ بیٹیاں نہیں ہیں اور انہیں پیسوں کی اشد ضرورت ہے تو وہ مجبوراً ایک کم عمر لڑکی کی شادی پر غور کر سکتے ہیں۔

بہت سے افغان بچپن کی شادی کو نقصان دہ سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے لڑکی کا بچپن بہت جلد ختم ہو جاتا ہے اور اس سے دوران زچگی ان کی موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس سے لڑکیاں اپنی شادی کے معاملے میں اپنی رائے اور مرضی سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔

2009 میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے قانون کے ذریعے لڑکی کے لیے شادی کی عمر کم از کم 16 اور لڑکے کے لیے کم از کم 18 سال کر دی تھی۔ اس قانون پر کتنا عمل درآمد ہوا اس سے قطع نظر17-2016 میں پہلی شادی کی عمر کافی اوپر چلی گئی تھی۔ 

اس وقت منعقد ہونے والے ایک ملکی سروے کے مطابق تمام خواتین میں سے 4.2 فیصد کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے اور 28 فیصد کی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو چکی تھی۔ اس وقت خواتین کی پہلی شادی کی اوسط عمر 21.6 سال اور مردوں کی 24.4 سال تھی۔

ہم موجودہ حالات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

طالبان کی موجودہ قیادت نے نوعمری کی شادی کے بارے میں بطور خاص کچھ نہیں کہا ہے۔ طالبان کے سپریم لیڈر شیخ ہبت اللہ اخوند زادہ نے تین دسمبر 2021 کو ’خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک فرمان‘ جاری کیا تھا جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ کسی لڑکی یا بیوہ کی زبردستی شادی کرنا خلاف قانون کہا گیا تھا، تاہم انہوں نے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر کے متعلق کچھ نہیں کہا۔

طالبان کے دور حکومت میں بچوں کی زندگیوں کے بارے میں ’سیو دی چلڈرن‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انہوں نے رواں برس مئی اور جون میں نو سے 17 سال کی عمر کی 122 لڑکیوں کا انٹرویو کیا تھا۔ ان میں سے ہر 20 میں سے ایک سے زائد لڑکی (5.5 فیصد) کو رواں برس ’خاندان کی مالی مشکلات حل کرنے کے لیے شادی‘ کا کہا گیا تھا۔

 اس سروے میں شامل بچوں کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیاں ہو رہی ہیں کیونکہ:

خاندانوں کے پاس پیسے نہیں اور وہ تنگ دستی کا شکار ہیں۔ اگر خاندان میں کسی لڑکی کی شادی ہو جائے تو اس کے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور خوراک کے لیے زیادہ پیسے میسر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ بڑی عمر کی لڑکیوں کو اب سکول جانے کی اجازت نہیں اس لیے کچھ والدین کا خیال ہے کہ شادی کرنے سے انہیں بہتر زندگی کا موقع ملے گا۔

لڑکیوں کو خدشہ تھا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جوانی میں ان کے لیے کسی بڑے آدمی سے شادی کا امکان تکلیف دہ ہے۔ اس سے انہیں ’مایوسی اور بے اختیاری‘ کا احساس ہوتا ہے کہ جب شادی کی بات آئی تو ان کے والدین ان کی بات نہیں سنیں گے۔

بلاشبہ یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ زیادہ تر خاندانوں کو معمولی رقم کے بدلے بیٹیوں کی شادی کرنا پڑی مگر غربت کا مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا کیونکہ ان کے پاس مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، اس لیے انہیں بہت جلد دوبارہ قرض کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا