افغانستان: مزار شریف سے فارسی زبان کا ’ثقافتی خاتمہ‘

شہر میں واقع دیوار تعلیم سے فارسی شاعری اور تاریخ او ادب سے متعلق تصاویر ہٹا دی گئی ہیں۔

31 اکتوبر 2021 کی اس تصویر میں افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک طالبہ ایک دیوار کے پاس سے گزر رہی ہے، جس پر کچھ تصاویر کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں ایک عبارت درج ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان کے شہر مزار شریف میں واقع ’دیوارِ تعلیم‘ سے جمعے کے روز قدیم بادشاہوں، فارسی بولنے والے شاعروں اور فارسی تاریخ و ادب سے متعلق زعما کی تصاویر ہٹا دی گئی ہیں۔

ان تصاویر کی جگہ اب قرآن، احادیث، طالبان گروپ کے جھنڈے اور اس گروپ کی حمایت میں نعروں پر مشتمل تصاویر لگا دی گئیں۔

مزار شریف کے مرکز میں واقع سلطان غیاث الدین ہائی سکول کی دیوار کو اس وقت کے گورنر عطا محمد نور نے افغانستان کے شاعروں، بادشاہوں اور تاریخی شخصیات کی تصاویر، سوانح عمریوں اور یادگاری تختیوں کے لیے وقف کیا تھا۔ پشدادیان، خراسان اور عصری افغانستان کے ادوار میں بلخ کی تاریخی شخصیات پر مشتمل یہ دیوار، دیوارِ اشرافیہ (دیوار فرهیختگان) کے نام سے مشہور ہوئی۔

اس دیوار پر چوتھی صدی ہجری کے نصف اول کی فارسی شاعرہ رابعہ بلخی، مولانا جلال الدین محمد بلخی، ناصر خسرو بلخی، امیر علی شیر نوائی، شہید بلخی اور کئی لوگوں کی سوانح عمری، یادگاری تختیاں اور پینٹنگز موجود تھیں۔ 

مزار شریف کے بہت سے شہریوں اور افغانستان پر طالبان کی حکومت سے پہلے اس شہر کا دورہ کرنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے اس دیوار کے پاس سے گزرنا اور اس کے سامنے کھڑے ہونا بلخ کی تاریخ پڑھنے کے مترادف تھا۔ وہ بھرپور اور قدیم تاریخ جس میں اس شہر کا ذکر ’ہزار جھنڈوں کا شہر‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔

مزار شریف میں طالبان کے اقتدار سے پہلے ہر سال نوروز کی شاندار تقریب ہوا کرتی تھی لیکن افغانستان پر طالبان کی حکمرانی نے اس شہر سے تمام ثقافتی اور تاریخی نشانات کو ہٹا دیا۔

بامیان، پنجشیر، بدخشاں، مزار شریف، تخار اور پروان جیسے شہروں میں، جہاں کے باشندوں کی مطلق اکثریت فارسی بولنے والی ہے، دفاتر کے تمام بورڈ پشتو میں لکھے جاتے ہیں۔

طالبان کی افواج ان صوبوں میں مختلف حکومتی سطحوں پر فارسی زبان میں بولتی اور کام کرتی ہیں، لیکن ان کے پاس قانون میں تبدیلی کا اختیار اور احتجاج کی ہمت نہیں ہے اور اسی وجہ سے مقامی باشندوں کی ثقافت اور تاریخ کے ساتھ طالبان کا تصادم ہے۔

شمالی افغانستان کی طرف سے اس گروپ کے اندر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

حالیہ اقدامات کو طالبان کی مبینہ فارسی دشمنی اور تاجک، ہزارہ، ازبک، ترکمان اور دیگر غیر پشتون لوگوں کے کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

افغانستان میں فارسی تاریخ اور ثقافت کے خلاف طالبان کے اقدامات یہاں موجود فارسی بولنے والوں کو نادر شاہ حکومت کے وزیر محمد گل مہمند کے اقدامات کی یاد دلاتے ہیں۔ انہوں نے شمالی افغانستان میں فارسی بولنے والوں، ازبکوں اور ترکمانوں کی تاریخ اور ثقافت کی بہت سی علامتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

محمد گل مہمند، جو افغانستان کے شمال میں نادر شاہ کا نمائندہ تھا، نے شمال کے مقامی باشندوں اور پشتو زبان و ثقافت کو دبا کر ان علاقوں کی مقامی ثقافتوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک اہم کام شہروں، محلوں، دیہاتوں اور تاریخی مقامات کے ناموں کو فارسی، ازبک اور ترکمان زبان سے پشتو میں تبدیل کرنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مہمند نے جو کام شروع کیا، وہ ان کے بعد مختلف ادوار میں جاری رہا۔ اس مقصد کے لیے اب شہر کی نشانیوں اور علامتوں کی ’ڈی فارسیائزیشن‘ شروع ہو گئی ہے اور زیادہ تر سرکاری خط و کتابت بھی پشتو زبان میں کی جاتی ہے۔

افغانستان میں تقریباً 77 فیصد لوگ فارسی بولتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں پشتون، ازبک، ترکمان، بلوچ اور افغانستان کے دیگر نسلی گروہ شامل ہیں، کیونکہ فارسی یہاں رابطے کی زبان ہے اور جب کوئی پشتون شہری کسی ازبک شہری سے ملتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے فارسی بولتے ہیں۔

جہاں آج کی دنیا ثقافتوں اور زبانوں کے تنوع کا احترام کرتی ہے، وہاں طالبان افغانستان کے مقامی لوگوں کی تاریخ اور ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ بہت سے پشتون مصنفین، ماہرین تعلیم اور کارکن طالبان کے اقدامات اور غیر پشتونوں کی تاریخ اور ثقافت سے متصادم ہونے سے غیر مطمئن ہیں، لیکن طالبان کی حکومت کسی مخالفانہ خیالات کا اظہار نہیں کرتی۔

 طالبان کے رہنما ملا ہبت اللہ اخوندزادہ، وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی، وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور وزیر خیر اور برائی کی ممانعت شیخ خالد حنفی، طالبان کابینہ کی اہم شخصیات ہیں، جن میں سے کسی نے بھی اب تک اس بارے میں بات نہیں کی۔

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی پر اگرچہ اپنے دورِ صدارت میں غیر پشتونوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا گیا لیکن انہوں نے اپنی تمام تقاریر میں فارسی اور پشتو میں بات کی اور چند ازبک الفاظ بھی بولے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا