رضا کار جنگجو مزار شریف شہر بچانے کے لیے طالبان سے نبرد آزما

ایک ایسے وقت پر جب افغان سکیورٹی فورسز اپنے علاقوں کو طالبان کے قبضے میں جانے سے روکنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں مقامی جنگجوؤں نے اپنی مدد آپ کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

15 جولائی، 2021 کی اس تصویر میں افغان ملیشیا جنگجو صوبہ بلخ میں ایک پوسٹ پر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

مقامی جنگجوؤں کے ارکان نے بلخ کے صوبائی دارالحکومت  مزارشریف کے شمال میں سیاہ گرد کے محاذ پر اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے۔

بیشتر ارکان نے روایتی شلوار قمیض پہن رکھا ہے وہ بھی بغیر کسی حفاظتی چیزوں کے۔ ان کے کاندھوں پر ہتھیار لٹکے ہوئے ہیں لیکن شہر کے آس پاس دوسرے محاذوں کی طرح ان کے حوصلے بلند ہیں۔

28 سالہ رؤف علی یار ان مقامی افراد کے گروپ میں شامل ہیں جو افغانستان کی سیاسی جماعت حزب وحدت نوین کے ہزارہ رکن پارلیمنٹ عباس ابراہیم زادہ کی ایما پر لڑ رہے ہیں۔ ان کی بے پناہ دولت کے باعث وہ ’عباس ڈالر‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ علی یار روانی سے انگریزی بولتے ہیں، وہ گذشتہ ہفتے تک ایک مقامی این جی او میں کام کر رہے تھے جب انہیں غیر حاضری کے باعث برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ گذشتہ مہینے کا زیادہ تر حصہ فرنٹ لائن پر گزارنا تھا۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ قربانی ضروری تھی۔

ایک بچے کے والد کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم یہاں نہیں آئیں گے تو طالبان ہمارے شہر پر حملہ کریں گے اور ایک ایک کر کے ہمیں مار ڈالیں گے۔ ہم اپنے گھر اور اپنے خاندان کی حفاظت کر رہے ہیں۔‘ وہ بھی اپنے ساتھ لڑنے والے بہت سے افراد کی طرح یہ کام رضاکارانہ بنیادوں پر بغیر تنخواہ کے کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’میرے لیے آخری دم تک مزار شریف کا دفاع کرنا لازم ہے۔‘

شہری ملیشیا کے سینکڑوں افراد کو افغان سکیورٹی فورسز کی طالبان کے حمملے سے مزار شریف کے دفاع کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے تعینات کیا جا چکا ہے۔ ایسا عسکریت پسندوں کی جانب سے گذشتہ مہینے کے اواخر میں شہر کے داخلی راستوں کو توڑنے کی دھمکی کے بعد کیا گیا ہے۔

طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے شمال مشرق میں بہت سارے اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جس سے افغان حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔

افغانستان کے تمام 421 اضلاع اور ضلعی مراکز میں سے تقریباً ایک تہائی طالبان کے زیر کنٹرول ہیں۔

وزیر دفاع بننے والے جنرل بسم اللہ محمدی نے گذشتہ ماہ آتے ہی عوام پر زور دیا کہ وہ  طالبان کے خلاف اکھٹے ہوں۔

یہ علی یار کے لیے ایک پرخطر کام ہے کیونکہ طالبان کے خلاف لڑائی میں شریک ہونے کی وجہ سے انہیں جگجوؤں کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنی بیوی اور آٹھ ماہ کی بیٹی کو ان کی حفاظت کے لیے کابل بھیج دیا۔ میں حال ہی میں اپنے مکان کی چھت پر سونے لگا ہوں تاکہ آس پاس ہر چیز کو دیکھ سکوں۔‘

ان کی گفتگو کے دوران وقفے وقفے سے فائرنگ خاموشی توڑ دیتی ہے اور آگ اور بارود کے کیمیائی مادوں کی ایک تیز بو ہوا میں موجود ہے۔

شام ہو چکی ہے اور سورج ڈھلنے کی وجہ سے آسمان سنتری اور گلابی رنگ سے بھرا ہوا ہے۔ ان لوگوں کے اطراف خالی سبز کھیت ہیں۔

علی یار کہتے ہیں کہ اسلحہ اٹھانا وہ آخری کام تھا جو وہ کرنا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور حکومتی دستوں کی ناکامی پر انہوں نے اس لڑائی میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھا۔

’وہ ایک افسوس ناک دن تھا جب میں بندوق اٹھانے پر مجبور ہوا اور اپنی بیوی اور بچی کو چھوڑ کر محاذ پر چلا گیا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر طالبان نے اقتدار سنبھال لیا تو میری بیوی کام نہیں کرسکے گی، میری بیٹی کو مناسب تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ یہ لوگ حقوق انسانی پر یقین نہیں رکھتے۔‘

آدھی تعمیر شدہ عمارت کے اوپر سے ایک اور جنگجو نے، جو اپنا نام نہیں بتاتے، کہا کہ وہ ایک امریکی کمپنی میں ڈی مائنر کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے فاصلے پر ایک عمارت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ‘یہ دشمن کا اڈہ ہے، جو پہلے سکیورٹی فورسز کا ایک اڈہ تھا اور جس میں 13 فوجی مارے گئے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ حملہ نہیں کر سکتے بس دفاع کر رہے ہیں کیونکہ اطراف کے علاقوں میں بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سب بلخ کے عوامی نمائندے عباس ابراہیم زادہ کے حکم پر جمع ہوئے ہیں۔ ان میں درزی، دکان دار، بڑھئی، مزدور اور اسی طرح کے لوگ ہیں۔ ان میں سے ایک بھی سپاہی یا پولیس افسر نہیں۔

اس علاقے میں تقریباً 250 لوگ 10 کلومیٹر حصے کو کور کر رہے ہیں۔

جنگجو کہتے ہیں،’ہم آخری گولی اور اپنی رگوں میں خون کے آخری قطرہ تک اپنے شہر اور لوگوں کا دفاع کرنے کے لیے موجود ہیں۔‘

حالیہ مہینوں میں امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی سرکاری فورسز کا جذبہ نیچے چلا گیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران طالبان کے حملے سے بچنے کے لیے تقریباً 1600 سرکاری فوجی سرحد پار تاجکستان فرار ہو گئے۔

صوبہ بدخشاں اور تخار کے دارالحکومتوں کے علاوہ باقی تمام اضلاع گذشتہ ہفتے طالبان کے قبضے میں چلے گئے ہیں اور رہائشیوں نے بتایا ہے کہ سرکاری فورسز نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے۔

مقامی عہدے داروں اور رہائشیوں کے مطابق طالبان کے لیے متبادل یہ ہے کہ وہ قبضے والے اضلاع میں بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیں۔

بلخ کے صوبائی گورنر محمد فرہاد عظمی کا کہنا ہے کہ اس تباہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کا جائز حکمرانی قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کی پشت پناہی بہت اہم ہے اور یہ حکومت کی بھرپور حمایت کی نشاندہی کرتی ہے۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ ملیشیا کے تقریباً ایک ہزار جنگجو مزار شریف میں سکیورٹی فورسز کے لیے صرف معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مقامی جنگجوؤں کی بغاوت کسی حد تک تشویش کا باعث ہے۔

’ماضی میں ہمارے ملیشیا گروپوں کے ساتھ بہت برے تجربات رہے ہیں اور ہم ان گروپوں سے افغان قومی سلامتی کی افواج کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

’یہ ملیشیا گروپوں کا استدلال ہے کہ وہ سرکاری فورسز کی بجائے شہر اور آس پاس کے اضلاع کی حفاظت کرنے والی قوت ہیں۔ لیکن وہ پہلے مقامی پولیس تھے جو اپنے اضلاع سے فرار ہوئے۔

‘یقیناً کسی ہنگامی صورت حال میں ہم ان کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہ شہر کے اصل محافظ نہیں۔ اگر ہم اپنی قومی سلامتی کے دستوں [کی صلاحیت] پر یقین نہیں رکھتے تو یہ ایک غلطی ہے۔‘

گورنر نے تسلیم کیا کہ افغان قومی سکیورٹی فورسز میں اہلکاروں کی شدید قلت ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ مقامی جنگجوؤں کو سکیورٹی فورسز کی کمان میں لایا جائے۔

’ہمیں قومی سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے قانونی مسلح افواج کی تشکیل کرنی ہوگی تاکہ لوگوں کو اپنا نام درج کروانے کی ترغیب دی جائے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو پولیس، فوج اور این ڈی ایس میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ لوگ جو رجسٹرڈ ہیں ان کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ ایسا محاذ پر موجود ابراہیم زادہ کے جوانوں کی صورت میں ظاہر نہیں ہو رہا۔ تاہم جنرل عطا محمد نور کے کہنے پر سرکاری فوج اور مقامی جنگجوؤں کے مابین تعاون ایک دوسرے محاذ پر واضح ہے جہاں دونوں جماعتیں کھڑی تھیں۔

بلخ کے ایک سابق گورنر اور سابق مجاہدین کمانڈر نور کی تصاویر پورے مزار شریف کے بل بورڈز پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ دبئی سے واپس مزار شریف آئے ہیں جہاں طالبان جنگجو شہر کو خون سے نہلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہزارہ جنگجو محمد محقق کمانڈر نور کی تلقین کر رہے ہیں۔

کمانڈر نور نے انڈپینڈنٹ کو اپنی رہائش گاہ سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو بھی طالبان کے تیز رفتار حملوں کی توقع نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہ وہ یک دم کئی اضلاع پر قابض ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’میرا ماننا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا سے قبل سرکاری فوج کو تقویت دینے کے لیے ایک قومی متحرک قوت تشکیل دی جائے لیکن ’جعلی خود اعتمادی اور حکومت کی غلط فہمیوں‘ کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نور نے فضائی مدد کے معاملے میں بھی بین الاقوامی فوجیوں پر انحصار کی نشاندہی کی اور یہ کہ امریکی طیارے کی تکنیکی معاونت کھونے نے افغان سکیورٹی فورسز کی ’طالبان کے خلاف جنگ میں ایک بہت بڑا خلا چھوڑا ہے۔‘

’اگر عوام کی طاقت کو مسلح افواج کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے تو ہم طالبان کے زیر قبضہ تمام علاقوں کو فتح کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ کرنے میں ناکام رہے تو ہمیں وسیع حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

موجودہ بحران کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی تنقید کے جواب میں نور نے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں اور ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ افغان عوام کا طالبان کے خلاف دفاع کریں۔

'مجھے لوگوں کی اچھی حمایت حاصل ہے۔ میں حکومت، سیاسی میدان اور فیصلہ سازی میں شامل ہوں۔ ہمیں افغان خواتین اور مردوں اور بچوں کی جان، مال، وقار اور خود اعتمادی کا دفاع اور ان کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے لوگ مار پیٹ اور تشدد کی زد میں رہیں۔'

انہوں نے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ مزار شریف پر قبضہ نہیں ہو سکتا۔ ’ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی ساری طاقت اور صلاحیتوں کو اس کے طالبان کے قبضے میں آنے سے روکنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘

’اور فرض کریں کہ یہ شہر طالبان کے قبضے میں آ بھی گیا تو ہم گھر گھر جائیں گے اور طالبان کے ساتھ لڑیں گے۔ ہم انہیں تلاش کریں گے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا