جنگجو، جہادی اور جمہوریت پسند: افغانستان میں کون کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان کا بڑا مقصد اپنے حریف ملک بھارت کو افغانستان میں اثر و رسوخ قائم کرنے سے روکنا ہے تاکہ وہ اس کی مغربی سرحد کے لیے خطرہ نہ پیدا کرسکے جبکہ ایران بھی داؤ پیچ آزما رہا ہے۔

طالبان مخالف افغان ملیشیا فورسز شمالی صوبے تخار میں ایک ٹھکانے کی حفاظت کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی اور بین الاقوامی فوجیں افغانستان سے جا چکی ہیں اور طالبان تیزی سے طاقت ور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں کئی کرداروں نے تنازعے کے اگلے مرحلے کے لیے اپنی صف بندیاں شروع کر دی ہیں۔

جنگ زدہ ملک پر قبضے کے لیے جیسے جیسے لڑائی میں شدت آرہی ہے کابل حکومت اور علاقائی قوموں کی مقامی ملیشیاز طے کر رہی ہیں کہ انہیں افغانستان میں کیا حاصل کرنا یا کھونا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والے راستوں پر کم تعداد میں تعینات افغان سکیورٹی فورسز امریکی فوجی انخلا کے آخری مرحلے پر بے پناہ دباؤ میں ہیں۔

افغان اہلکاروں کو طالبان کے شدید حملوں کا سامنا ہے جبکہ جنوبی حصے جہاں ملیشیاز کے مضبوط گڑھ ہیں وہاں سے بھی سرکاری فوج پر حملے کیے جا رہے ہیں، جس سے ملک کے شمال میں بھی تشدد کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

ان حالات میں ملک کے شہر حکومتی فوج کے کنٹرول میں ہیں جبکہ کم آبادی والے زیادہ تر دیہی علاقے فوج کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ افغان امور کے سینیئر تجزیہ کار اینڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ ’ہاتھ سے نکلنے والے بہت سے اضلاع نیچے لٹکتے پھلوں کی طرح تھے جنہیں توڑنا آسان ہوتا تھا، یہ وہ دور دراز علاقے تھے جہاں رسد اور کمک کی فراہمی مشکل تھی۔ فوجی اعتبار سے ان علاقوں کی اہمیت بہت کم ہے۔‘

طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے لیے موسم گرما کے باقی ماندہ مہینوں کے دوران افغان فوج کی لڑائی کی صلاحیت ممکنہ طور پربہت کٹھن ہوگی۔

صورت حال نازک ہے اور امریکی فوج کی واپسی کا مطلب ہے کہ افغان فورسز امریکہ کی اہم فضائی مدد سے محروم ہو گئی ہیں۔

کابل میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف وار اینڈ پیس سٹڈیز کے سربراہ تمیم عاصی کہتے ہیں کہ ’رواں سال لازمی طور پر اضلاع اور شاہراہوں پر لڑائی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے سال ہم دیکھیں کہ طالبان نے اپنی توجہ صوبائی دارالحکومتوں اور بڑے شہری مراکز پر مرکوز کرلی ہو۔‘

دو دہائی قبل امریکی فورسزکی جانب سے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد طالبان تحریک کبھی اتنی مضبوط نظر نہیں آئی۔ طالبان نے افغانستان بھر میں کئی کامیاب حملے کیے ہیں اور مئی کے آغاز سے تیزی کے ساتھ 400 اضلاع میں سے تقریباً 100 پر قبضہ کرلیا ہے۔

عالمی برادری نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ دوحہ میں افغان حکومت کے ساتھ تاریخی حیثیت رکھنے والے امن مذاکرات میں تعطل پیدا کر رہے ہیں۔

سیاسی تصفیے کی بجائے عسکریت پسندوں کی توجہ اپنے لشکر کو افغانستان پر فوجی قبضے کے لیے تیار کرنے پر مرکوم ہے۔

سی این اے نامی فوجی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر جوناتھن شروڈن کہتے ہیں: ’حکمت عملی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ (طالبان) امریکی امداد کی عدم موجودگی میں افغان سکیورٹی فورسز کو آزمائیں گے تاکہ دیکھ سکیں کہ وہ کتنا آگے جا سکتے ہیں۔‘

طالبان قیادت میں پھوٹ پڑنے کی مسلسل پھیلتی افواہوں کے باوجود افغان طالبان متحد اور ایک مؤثر درجہ بدرجہ کمان میں دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب اپنے کتابی خیالات اور غیرمقبول مزاج کی وجہ سے پہچانے جانے والے افغان صدر اشرف غنی ایک ایسے وقت میں تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں جب انہیں اتحادیوں کی اشد ضرورت ہے۔

خطے کے مختلف علاقے ہاتھ سے جانے کے باوجود وہ حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ سے انکار کر رہے ہیں۔

کابل میں ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’اشرف غنی امریکیوں کے خاص آدمی تھے لیکن اب انہیں بے قابو اور امن عمل میں رکاوٹ تصویر کیا جا رہا ہے۔‘

ملک کی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ سے ان کے حامی قریب آگئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلیاں واشنگٹن کی جاری رہنے والی حمایت کے ساتھ مستقبل میں ان کی سیاسی بقا کے لیے اہم ثابت ہوں۔

تاہم اشرف غنی کی ٹیم کے بہت سے لوگ جو کئی سال تک ملک سے باہر مقیم رہے ہیں، ان پر الزام ہے کہ وہ افغان معاشرے کے پیچیدہ تانے بانے سے مکمل طور پر ناواقف ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سب کے باجود وائٹ ہاؤس کے حالیہ دورے کے دوران دیکھا گیا کہ اشرف غنی سلامتی اور انسانی مدد کے لیے اربوں ڈالرز کے امریکی وعدے لینے میں کامیاب رہے۔

ہوسکتا ہے کہ افغانستان کے جنگو سردار واپسی کے انتظارمیں ہوں کیونکہ ملک کی سکیورٹی فورسز اپنی بکھری ہوئی صفوں کو ترتیب دینے کے لیے مسلسل ملیشیا گروپس کی جانب دیکھ رہی ہیں۔

ان حالات میں کہ جب طالبان کو جون میں ملک کے شمالی حصے میں راستہ بنانے میں کامیابی ملی ہے، قوم کو متحرک کرنے کے مطالبات سنائی دے رہے ہیں۔

ہزاروں افراد کے ہتھیار اٹھانے کے مناظر 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی کی یاد دلاتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ایشیا ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین کا کہنا ہے کہ ’قوم کو متحرک کرنے کے حالیہ مطالبات کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت کی سطح پر تقسیم میں تیزی بھی آ سکتی ہے اور کمان اینڈ کنٹرول کے نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس سے شہریوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘

ملیشیا کے رہنما غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ اپنے ماضی کے رابطوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں تاکہ زمینی جاسوسی کے بدلے نقد رقم اور اسلحہ محفوظ کیا جاسکے۔

افغانستان کی نسلی اقلیتوں میں شامل نئے طاقتور افراد نے بھی جوانوں کو مسلح کرنا اور ان کی تربیت شروع کردی ہے، جس سے ملک کی گہری نسلی اور فرقہ وارانہ تفریق میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے۔

خطے کے وسیع منظرنامے کا ایک نیا باب پڑوسی ممالک کے ساتھ کھلنا شروع ہو رہا ہے جو افغانستان میں زمین پر زور پکڑنے کے خواہاں ہیں جبکہ تنازعے کے ممکنہ فاتحین کا بھی احترام کرتے ہیں۔

پاکستان نے کئی دہائیوں سے طالبان کی حمایت کی ہے اور آخر کار وہ آئندہ حکومت میں اپنے مفادات کے تحفظ میں کامیاب ہوجائے گا، چاہے اس میں باغی حصہ لیں یا قیادت کریں۔

اسلام آباد کا ایک بڑا مقصد مقابل حریف بھارت کو اپنا اثر و رسوخ کو قائم کرنے سے روکنا ہے تاکہ وہ اس کی مغربی سرحد کے لیے خطرہ نہ پیدا کرسکے جبکہ ایران بھی داؤ پیچ آزما رہا ہے۔

1990 کی دہائی میں طالبان کے ساتھ جنگ کے دہانے پر پہنچ جانے کے بعد تہران نے اس گروپ میں کم از کم ایک بڑے گروہ پر کافی حد تک اثر و رسوخ قائم کیا ہے۔

ایران کے افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران طالبان کا مقابلہ کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ بھی روابط برقرار ہیں۔

پاکستانی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ اسد درانی کا کہنا ہے کہ ’ایران اور پاکستان کے کچھ لوگ یقینی طور پر اپنی پسند کے لوگوں کی خواہش کرسکتے ہیں تاکہ وہ کھانے کی زیادہ مقدار حاصل کرسکیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے شک ہے کہ اگر طالبان انہیں ایسا کرنے دیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا