امریکی افغانستان چھوڑ گئے اب کیا ہوگا؟

ہماری طرف سے اس وقت افغانستان پر قومی پالیسی کی ترتیب عید کے بعد سویاں پکانے کے مترادف ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار اتوار کو قندھار میں بم دھماکے کے مقام پر ایک گاڑی کی باقیات کا معائنہ کر رہے ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے  (اے ایف پی)

امریکہ نے بالآخر افغانستان چھوڑ دیا۔ اس واقعے کی اہمیت کو جاننے کے لیے آج کل اخبارات میں چھپنے والی خبروں کو بار بار پڑھنا چاہیے۔ ہم میں سے بہت سوں نے اپنی زندگی میں افغانستان سے روسی فوجوں کی آمد اور واپسی کے عمل کو دیکھا ہے۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی خبریں بن رہی تھیں۔

’افغانستان کا بگرام ایئر بیس امریکی فوج نے خالی کر دیا۔ امریکی فوجی رات کی تاریکی میں خاموشی سے واپس چلے گئے، افغان انتظامیہ بے خبر رہی۔ افغان طالبان نے خیرمقدم کیا ہے۔ کابل میں صرف 650 امریکی فوجی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے رہ گئے، مکمل انخلا اگست میں ہو گا۔ فضائی آپریشن اب امارات، قطر یا بحری بیڑے سے کیے جائیں گے، مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اتحادیوں نے مل کر بہت سی جنگیں جیتیں لیکن افغان جنگ ہار گئے۔‘

روس اور امریکہ کے نکل جانے میں فرق یہ ہے کہ امریکی افغانستان سے نکلے ہیں مگر ان کے مفادات اس خطے میں جوں کے توں موجود ہیں۔ ان مفادات کا تعلق چین، روس، ایران، پاکستان، وسطی ایشیا اور تجارت سے ہے۔ روسی فوج کے انخلا کے بعد روسی افواج نے اپنے ملک کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا، مگر افغانستان چھوڑنے کے بعد ماسکو نے اس خطے کو ایسا خیرباد کہا کہ برسوں ادھر کا رخ نہیں کیا بلکہ حالت کچھ یہ تھی کہ افغانستان کا نام لیتے ہی ماسکو کے رہنما اور بیوروکریٹ منہ پھیر لیتے تھے۔

امریکی انخلا اس کے برعکس ہے۔ امریکہ یہاں سے نکلتے ہوئے بھی طالبان کے ساتھ افغانستان کے دیگر فریقین کی طرح مسلسل رابطے میں ہے۔ اس نے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کے ساتھ اس امر کا اہتمام بھی کیا ہے کہ یہاں پر ممکنہ طور پر پھیلنے والے تشدد اور خانہ جنگی کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔

سفارت کاری اور فوجی آپشنز دونوں امریکی پالیسی سازوں کی میز پر موجود ہیں۔ علاقائی طور پر امن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تمام ممالک اس امر کا احساس رکھتے ہیں کہ امریکیوں کا افغانستان سے نکل جانا بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اخلاقیات کی جیت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدشات بھی کم نہیں۔

چین بدلتے ہوئے حالات کے باعث اپنے تجارتی اور معاشی منصوبوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک نہیں چاہتے کہ امریکہ کے جانے کے بعد پیدا ہونے والے خلا میں سے ایسی قوتیں جنم لیں جو کسی کے قابو میں نہ ہوں۔

پاکستان کے خدشات سب سے زیادہ ہیں۔ ہمارا ایک ماضی ہے جو ابھی تک افغان پناہ گزینوں کی صورت میں ہمارے گلے پڑا ہوا ہے۔ بارڈر پار سے فساد پھیلانے والے درجنوں گروپ ہیں جو ابھی سے ملک میں کارروائیاں کرنے پر مامور ہو چکے ہیں۔ اگر خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو بارڈر پر لگی ہوئی باڑ کسی کام کی نہیں رہے گی۔

اتنے بڑے علاقے میں خونریزی ہو اور پھر اس کے اثرات ہمارے ہاں مرتب نہ ہوں یہ ہو نہیں سکتا۔ معاشی طور پر ہمیں مستحکم افغانستان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تین دہائیوں پہلے دیکھے ہوئے خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے۔

وسطی ایشیا کے ساتھ سڑکوں اور ریلوے لائن کے ذریعے جڑنا وہ منصوبہ ہے جو مکمل طور پر افغانستان کے حالات کے تابع ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ افغانستان کے معاملات ہماری سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ضیا الحق امریکہ کے لیے افغانستان میں اہداف کے حصول کی وجہ سے ناگزیر ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف اس وجہ سے معتبر ہوئے کہ افغانستان کو کسی نہ کسی طریقے سے زیر دست کرنا تھا اور وہاں سے ابلنے والا فساد قابو میں لانا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قوم اب تک ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں بوئی گئی سیاسی فصل کاٹ رہی ہے۔ یوں سمجھیے کہ افغانستان کی پاکستان کے لیے وہی اہمیت ہے جو جرمنی کی یورپ کے لیے۔ کہا جاتا ہے کہ جب جرمنی کو چھینک آتی ہے تو یورپ کو زکام ہو جاتا ہے۔

اب آپ نے بھانپ لیا ہوگا کہ امریکہ کی رخصتی اس خطے میں شادیانے بجانے کا باعث کیوں نہیں بن رہی۔ امریکہ تو گھر چلا جائے گا یہاں کے حالات کو کیسے قابو میں لایا جائے گا؟ آپ نے یہ بھی جان لیا ہو گا کہ ماسکو کا افغانستان سے نکلنا اور واشنگٹن کا فوجوں کو واپس بلانا اپنی ظاہری شکل میں تو ایک جیسے عمل ہی لگتے ہیں لیکن حقیقت میں دونوں میں بہت فرق ہے۔

ان حالات کے پیش نظر ہمارے لیے واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلق بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہم امریکہ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور امریکہ ہمارے اقدامات کو کتنے اعتماد سے دیکھتا ہے، دونوں ممالک اس وقت باہمی اختلافات اور خاموش سفارتی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

یہ درست ہے کہ امریکہ کے مفادات افغانستان سے نکلنے کے بعد بتدریج کم ہوتے جائیں گے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے پاس امریکیوں کو متاثر یا رام کرنے کے لیے کوئی خاص نکات موجود نہیں ہیں، مگر دونوں ممالک کی مجبوری یہ ہے کہ وہ افغانستان میں عدم استحکام کی قیمت نہیں چکا سکتے۔

امریکا کے پاس یہ سہولت یقیناً موجود ہے کہ محدود پیمانے پر افغانستان کا فساد اس کو براہ راست متاثر نہیں کرتا۔ ہاں اگر یہاں سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر کسی بڑے خطرے کا ماحول بنا تو واشنگٹن کے لیے افغانستان کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جائے گا، مگر ہم ہر بڑے اور چھوٹے معاملے میں متاثرہ فریق بن سکتے ہیں۔

ہمارے مفادات امریکی مفادات سے کہیں زیادہ اور دیرپا ہیں۔ ہماری بغل میں خون خرابا ہو اور ہم اس سے محفوظ رہیں یہ ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے ہم افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بننے والے حالات کی اہمیت کو بروقت جانچنے کے باوجود کسی قسم کی قومی بحث کا آغاز نہیں کر پائے۔

قومی سلامتی پر سیاست دانوں کی بریفنگ اس وقت ہوئی جب امریکی افغانستان سے عملاً نکل گئے ہیں اور ایک انتہائی مشکل صورت حال جنم لے چکی ہے۔ ہماری طرف سے اس وقت قومی پالیسی کی ترتیب عید کے بعد سویاں پکانے کے مترادف ہے۔ وہ تمام وقت جو ہم نے اپوزیشن کو سبق سکھانے میں صرف کیا اگر افغانستان پر قومی بحث میں لگایا ہوتا تو شاید آج ہمارے سامنے مسائل کے ساتھ مختلف قسم کے حل بھی موجود ہوتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ