سپین بولدک پر طالبان کے کنٹرول کے بعد حالات کیسے ہیں؟

سرحد پر پاکستان کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور تمام آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی گزر گاہ سپین بولدک افغان طالبان کے قبضے میں تو ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ اس راستے سے لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے اور ان کے خیال میں وہاں حالات اب ’بہتر‘ ہیں۔

سپین بولدک سے متصل پاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان کے درمیان سرحد کو عیدالاضحیٰ کے پیش نظر صبح و شام دو، دو گھنٹوں کے لیے کھول دیا جاتا ہے تاکہ دونوں جانب پھنسے لوگ سرحد پار کر کے عید اپنے عزیزوں کے ساتھ گزار سکیں۔

افغانستان سے سپین بولدک کے راستے اتوار کو افغان شہر لشکر گاہ سے تعلق رکھنے والے سعد اللہ پاکستان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سپین بولدک میں پہلے کی نسبتاً اب حالات قدرے بہتر ہیں۔ لوگ پاسپورٹ اور افغان شناختی کارڈ (تذکرہ) کے بغیر داخل ہو رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سپین بولدک طالبان کے قبضے میں ہے، مگر وہاں حالات مکمل پرامن ہیں۔‘

چمن سرحد پر ان افراد کو سپین بولدک پر طالبان کے قبضے اور خونی جھڑپوں کے بعد آمد و رفت کی اجازت دی گئی ہے، تاہم دوطرفہ تجارتی سرگرمیاں بدستور معطل ہیں۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اہم تجارتی مرکز سپین بولدک پر اب طالبان کا قبضہ ہے۔ سرحد پر پاکستان کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور تمام آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

چمن میں باب دوستی کے قریب افغانستان کی سرزمین پر ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا پرچم جسے مقامی زبان میں بیرغ کہا جاتا ہے، پاکستانی پرچم کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

14 جولائی کو سپین بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان قومی پرچم کو اتار کر طالبان نے اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہلمند کے توراب خان بھی ان ہزاروں افغانوں میں شامل ہیں جو دو گھنٹے سرحد کھلنے کو موقع غنیمت جان کر چمن پہنچے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں سرحد عبور کرتے ہوئے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ایک پاکستانی شہری عبدالسلام بھی کابل سے سپین بولدک کے راستے چمن پہنچے۔

انہوں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے بغیر کسی پریشانی کے آسانی کے ساتھ سرحد پار کی۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ پہلے سرحد پر بہت سختی تھی لیکن اب بہت نرمی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگوں کے لیے آہستہ آہستہ آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سپین بولدک میں مکمل امن تھا۔ پاسپورٹ، مہاجر کارڈ، تذکرہ اور شناختی کارڈ پر لوگوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت تھی۔‘

اسی طرح افغانستان کے علاقے تختہ پل سے تعلق رکھنے والے عبدالمتین نے کہا کہ ’سرحد پر بہت زیادہ بھیڑ تھی، ہمیں دھوپ میں تین، چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔‘

’پہلے (طالبان کے قبضے سے قبل) سارا دن سرحد کھلی رہتی تھی لیکن اب صرف دو، دو گھنٹے کھلتی ہے جہاں پیدل آمدورفت ہوتی ہے۔‘

بلوچستان کے ضلع چمن کے اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرحد کو جذبہ خیرسگالی کے تحت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھولا گیا ہے۔ ’بیماروں، ضعیف العمر افراد، خواتین اور بچوں کی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے روزانہ کی بنیاد پر دو دو گھنٹے سرحدی دروازے کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ان کے مطابق اب تک دونوں جانب سے ہزاروں خاندان سرحد پار کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا