فیصل قریشی کو ٹی وی سکرین پر راج کرتے ہوئے سلور جوبلی ہونے کو ہے، لیکن اس تمام عرصے میں وہ سینیما سے دور رہے۔
ان کی آخری فلم اب سے تقریباً 28 سال پہلے آئی تھی، جس کے بعد انہوں نے سینیما کا رخ نہیں کیا۔
اب رواں برس اس عیدالاضحیٰ پر وہ ایک ہارر فلم ’دیمک‘ کے ساتھ سینیما میں واپس آ رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اس طویل غیر حاضری کی وجہ ڈراموں پر توجہ مرکوز رکھنا، اور اس دوران بننے والی فلموں کی قلیل تعداد کو قرار دیا۔
’اس دوران جو فلمیں آفر بھی ہوئیں تو ان کی کہانی یا سکرپٹ سمجھ میں نہیں آیا، جس وجہ سے مزید وقت لگ گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دیمک‘ ایک انڈپینڈنٹ سینیما فلم ہے، جس کے پیچھے کوئی بڑا سٹوڈیو نہیں، اس لیے ان حالات میں فلم بنانا ہمت کی بات ہے اور اسی لیے اس فلم میں کام کیا۔
ہارر کی جانب قدم رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سالوں میں پاکستان میں ہارر فلموں کا باکس آفس دوسری فلموں سے کہیں زیادہ رہا، جس کی وجہ سے یہ تجربہ کیا جا رہا ہے کہ مقامی ماحول اور حالات کے مطابق ایک فلم بنائی جائے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ انہیں مختلف کام کرنے کا شوق ہے اور وہ منفرد کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس ہارر فلم کے بعد ان کی ایک فلم پنجابی ایکشن کامیڈی بھی ہے۔
ان کے مطابق وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے صرف جنات پر یقین رکھتے ہیں، بھوت، پریت، روح وغیرہ کی فلم کرنے سے وہ انکار کر چکے تھے، اس لیے جب سکرپٹ پڑھا تو کہانی بہت بہتر لکھی ہوئی تھی۔ یہ سائیکولوجیکل تھرلر نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلم کے گرافکس کا کام بیرون ملک سے کروایا گیا۔ ڈائریکٹر رافع راشدی نے ایک سال گرافکس پر صرف کیا۔
فلم کا ساؤنڈ ڈیزائن بہت اچھا ہے تو محنت پوری کی گئی ہے۔
فلم کی کہانی کرونا کی عالمی وبا کے زمانے کی ہے، جب اکثریت گھروں میں بند تھی اور نقل و حرکت محدود تھی۔
فیصل قریشی نے کہا کہ اس فلم میں کوئی گانا نہیں اور نہ ہی کوئی ٹھمکے ہیں۔ ان کے ٹھمکے ان کی اگلی فلم ’مینگو جٹ‘ میں دیکھے جا سکیں گے۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سینیما مشکلات کا شکار ہے لیکن جسے سینیما کا شوق ہے اسے ہے۔
اس لیے حکومت کو سستے سینیما کی ضرورت ہے، جس کا ٹکٹ 300 روپے سے زیادہ نہ ہو تاکہ کم آمدنی والے افراد کو بھی سینیما لایا جا سکے۔