افغانستان کے سیاسی اور تجارتی اعتبار سے انتہائی اہم جنوبی صوبہ قندھار میں حالات کشیدہ بتائے جاتے ہیں۔ حکام نے قندھار شہر میں رات نو بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کر دیا ہے جبکہ ٹیلیفون سروس بھی رات 10 سے صبح پانچ بجے تک معطل کر دی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ طالبان نے اپنے ماضی کے گڑھ قندھار میں بڑی پیش قدمی کی ہے۔ اہم سٹراٹیجک ضلعے سپین بولدک پر قبضہ کرنے سے طالبان کو پاکستان کے ساتھ اہم سرحد کراسنگ ہاتھ لگی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دوسری بڑی گزرگاہ اور تجارتی راستہ ہے۔
یہ علاقہ افغان طالبان کے سب سے اہم مخالف افغان کمانڈر جنرل عبدالرازق کا آبائی ضلع اور گڑھ رہا ہے۔
افغان نائب صدر امراللہ صالح نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان فضائی فورسز پاکستانی دھمکی کے سبب سپین بولدک میں طالبان کے خلاف کارروائی نہ کرسکی جو ان کے بقول طالبان کی کامیابی کا سبب بنی۔ صالح نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے افغان فضائیہ کو اپنی سرحد کے قریب کارروائیوں سے منع کیا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی تھی۔
افغان سپیشل فورسز کا ایک دستہ اہم کمانڈر صدیق بارکزئی کی قیادت میں طالبان سے لڑنے کے لیے ضلع سپین بولدک بھیجا گیا تھا۔ وہ طالبان سے دوبدو لڑائی میں مارے گئے ہیں۔ بارکزئی کے ساتھ اس لڑائی میں بھارت سے تعلق رکھنے والے روئٹرز کے چیف فوٹوگرافر دانش صدیقی بھی ہلاک ہوئے۔
مقامی کمانڈرز نے روئٹرز کو بتایا کہ ان دونوں کی ہلاکت سپن بلدک پر دوبارہ قبضے کی کوشش کے دوران ہوئی۔ 38 سالہ دانش کے لڑائی کے دوران زخمی ہونے کی اطلاع تھی۔
لینڈ لاک افغانستان اپنی زیادہ تر زرعی پیداوار مثلاً بادام اور خشک میوہ جات برآمد کرنے کے لیے سپن بلدک جیسی اہم تجارتی گزرگاہ پر انحصار کرتا ہے جبکہ پاکستان سے آنے والے تیار سامان کے داخلے کے مقام کے طور پر بھی یہ مقام اہم ہے۔ اس کراسنگ پر قبضے سے ممکنہ طور پر طالبان کو معاشی طور پر ٹیکس کی وصولی کی وجہ سے فائدہ ہوگا۔
افغان طالبان نے ایک پروپیگینڈا ویڈیو میں چمن اور سپند بلدک کے درمیان ویش کے مقام پر ٹیکس کی وصولی کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ حالات اب معمول کے مطابق چل رہا ہے۔
قندھار سے تعلق رکھنے والے اہم تاجروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ طالبان کے حملے سے قبل پاکستانی سرحدی شہر چمن میں ان کی قیادت سے ملنے گئے تھے اور ان سے یہ درخواست کی تھی کہ لڑائی کی صورت میں عام تاجروں کے مال کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
ان کے بقول یہاں 60 کروڑ ڈالر سے زائد کا قیمتی تجارتی سامان پڑا ہے۔ اس طرح تاجروں کے اس وفد نے حکومتی ارکان سے بھی ملاقات میں یہی استدعا کی تھی۔ ان کے بقول اب تک کی لڑائی میں انہی رابطوں کی وجہ سے تاجروں کو کسی قسم کا کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ہے۔
قندھار اس وقت طالبان کے مکمل محاصرہ میں ہے۔ قندھار کی سرحدیں پاکستان، افغانستان کے صوبہ ہلمند، ارزگان اور زابل سے ملتی ہیں اور اس کو پاکستان اور ان تین صوبوں سے ملانے والی تمام شاہراہوں پر طالبان کا قبضہ ہے۔
قندھار آس پاس کے صوبوں کے لوگوں کے لیے اہم تجارتی مرکز رہا ہے۔ قندھار کے 15 اضلاع ہیں جن میں قندھار شہر کے علاوہ تقریباً تمام اضلاع طالبان کے قبضہ میں ہیں۔
قندھار کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جدید افغانستان کا بنیاد رکھنے والے افغان بادشاہ احمد شاہ درانی کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ افغان طالبان کا تاریخی مرکز رہا ہے جہاں سے ان کی اسلامی تحریک نے جنم لیا تھا اور پھر ان کے دور حکومت میں ڈی فیکٹو افغان دارالحکومت رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ یہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا گھر بھی ہے جو امریکی حملے میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے طالبان ان کو اپنا دشمن قرار دیتے آ رہے ہیں۔
طالبان کے دوسرے اہم مخالف، سابق افغان وزیر اور گورنر گل آغا شیرزئی کا تعلق بھی قندھار سے ہی ہے۔ انہوں نے طالبان کو نائن الیون کے بعد امریکی مدد سے قندھار میں شدید نقصانات پہنچائے تھے۔ طالبان ان کو صف اول کا دشمن قرار دیتے ہیں۔
طالبان نے شیرزئی اور جنرال عبدالرازق کے تمام مکانات پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کی فوٹیج نشر کر رہے ہیں۔
طالبان نے قندھار سے ملحق اہم سٹراٹیجیک ضلع ارغنداب پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ ارغنداب افغانستان کے مشہور انگور اور انار کی پیدوار کا اہم مرکز ہے۔ ان پھلوں کی پیداوار کا یہی موسم ہے جس کی وجہ سے مقامی کسانوں اور کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
طالبان نے پچھلے چند ماہ میں قندھار میں اپنی پیش قدمیوں سے قبل نشانہ بنا کر قتل کرنے کا ایک خوفناک سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اس دوران حکومتی اہلکار اور حامی نشانہ بن رہے تھے۔ اگرچہ وہ ان میں سے اکثر کارروائیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے لیکن ان حملوں نے قندھار شہر میں شدید خوف وہراس پیدا کیا ہوا تھا۔
قندھار سے روزانہ تین فضائی پروازیں کابل جاتی ہیں جن میں اطلاعات ہیں کہ حکومتی اہلکار اپنے اہل خانہ کو نکالنے میں مصروف ہیں۔
حکومتی اعلیٰ اہلکار، ان کے ترجمان اور صوبائی کونسل کے ارکان سے انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے نے قندھار کے ان تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے متعلق بات کرنے کی کوشش کی مگر ان میں سے کوئی بھی ان حالات پر آن ریکارڈ بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
صرف قندھار چیمبر آف کامرس کے ڈپٹی چیف عبدالباقی نے اپنا نام بتانے کی اجازت دی اور بتایا کہ شہر کے اطراف میں شدید لڑائی سے ہو کا عالم ہے اور تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں۔ عبدالباقی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بھی شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
ادھر فغان حکومت بالآخر قندھار جیل میں قید طالبان کے بعض اہم قیدیوں کو وہاں سے کابل منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ طالبان قیدیوں نے حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی تھی اور ان کا راستہ روکنے کے لیے قیدیوں نے جیل کے مختلف حصوں میں آگ بھی لگائی تھی۔ اس مزاحمت میں طالبان ذرائع نے اپنے چند قیدیوں کے زخمی ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
صدر اشرف غنی کے مشیر اور افغان مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن نادر نادری نے کل دعویٰ کیا کہ طالبان کے ان حملوں میں افغانستان کے 29 صوبوں کے 160 اضلاع کے انفراسٹرکچرز کو نقصان پہنچا ہے۔ نادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے تین ماہ کی جنگ بندی کے آفر کے ساتھ حکومتی قید سے اپنے سات ہزار جنگجوں کی رہائی اور عالمی سطح پر ان کے قیادت کے ناموں کو بلیک لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ شاید سابق صدر کرزئی کی قیادت میں دوحہ جانے والے افغان وفد کی طالبان سے ممکنہ ملاقات کی صورت میں عیدالاضحی پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان ہو جائے۔